۔27 ویں ترمیم اور نظام کے فالج زدگان
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-6
باباالف
پوتے پوتیوں نے سوچا بڈھا 95 برس کا ہوگیا ہے کیوں نہ مرنے سے پہلے اسے فلم دکھادی جائے۔ وہ اسے فلم دکھانے لے گئے۔ اختتام پر انہوں نے پوچھا ’’فلم کیسی تھی‘‘ بڈھا بولا ’’بالکل بکواس جب لڑکا اظہار محبت کررہا تھا تو لڑکی اظہار نفرت کررہی تھی، جب لڑکی اظہار محبت کررہی تھی تو لڑکا اظہار نفرت کررہا تھا جب دونوں نے محبت کرنا شروع کی تو فلم ختم ہوگئی‘‘ ہمارے یہاں ایسا آئینی ترمیم کے موقع پر ہوتا ہے۔ حکومت راضی ہو تو اپوزیشن تیار نہیں ہوتی، اپوزیشن آمادہ ہو تو حکومت کا منہ پھول جاتا ہے اور اگر دونوں ’’قبول ہے‘‘ کہہ رہے ہوں تو اسٹیبلشمنٹ حجلہ ٔ عروسی کو کنڈی لگا دیتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب مسند نشین ہوں مگر مولانا فضل الرحمن نکاح پڑھانے سے انکار کردیں۔ تاہم 27 ویں ترمیم پر ایسا نہیں ہورہا۔ سب تیار بیٹھے ہیں۔ نکاح نامے میں کیا درج ہے؟ مسودہ کس کے پاس ہے؟ کسی کو کچھ نہیں پتا سوائے ایک بات کے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی رضا سے سب کچھ ہورہا ہے اور ان کی ترقی درجات مطلوب ومقصود ہیں۔
چلتیں ہیں شہر دل میں کچھ یوں بھی حکومتیں
جو اس نے کہہ دیا وہی دستور ہو گیا
کئی ماہ سے یہ ’’بے بنیاد‘‘ خبر چل رہی تھی کہ 27 ویں ترمیم آرہی ہے۔ جس شدت سے اس خبر کی تردید کی جا رہی تھی یقین ہو گیا تھا کہ ترمیم آئے گی اور ضرور آئے گی۔ ہمارے یہاں جتنی طاقت سے انکار کیا جاتا ہے بات اتنی ہی یقینی ہوتی ہے۔ بلاول زرداری کی ایک ٹویٹ سے پو پھٹی اور ترمیم کا تارہ نظر آیا تب میڈیا پر اینکر پرسنز نے ترمیم آنے یا نہ آنے کا پتھرائو بند کیا۔ ترمیم میں کیا منظور کیا جائے گا کیا نہیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ میں نے ترمیم کا مسودہ دیکھا ہے لیکن سب ترمیم پر فدا ہیں چاہے اس میں جمہوریت کی منہ لگائی ڈومنی کا قتل ہی تجویز کیا گیا ہو۔ اگر فیلڈ مارشل کی رضا ہے تو سب گوارا سب پذیرا۔ جب سرمد کو پابہ زنجیر شہادت گاہ کی طرف لے جایا جارہا تھا اور جلاد تلوار بکف آگے بڑھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ’’میں تجھ پر قربان! تو آ اور جلد آ کہ تو جس بھیس میں بھی آئے میں تجھے خوب پہچانتا ہوں‘‘ ہمارے جمہوری سرمدوں کا بھی یہی حال ہے۔
میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے
کس سے پوچھوں ترا نشاں جاناں
آئین کے آرٹیکل 243 کو اس ترمیم میں ایک بار پھر پارلیمانی اسٹرکچر سے کچھ زیادہ چھیڑ چھاڑ کیے بغیر سیاسی حکومت اور فوج کے درمیان Push اور Pull کی نا گہانیوں سے گزرنا پڑے گا۔ فیلڈ مارشل کی صورت جو ایک نیا عہدہ تخلیق ہوا اسے قانونی شکل دینے کی صورت میں پورے کمانڈ اسٹرکچر پر جو فرق پڑے گا اس کے مضمرات کو دیکھا جائے گا۔ فیلڈ مارشل کے اعزاز کو آئینی تحفظ بھی دیا جائے گا۔ آرمی چیف سمیت تینوں افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت کی ’’بہبود‘‘ اور اس کے طے کرنے اور توسیع دینے کے گرد بھی ممکن ہے ترمیم میں کوئی رومانی ہالہ کھینچا جائے۔
طیور کی منہ زبانی جو خبریں گردش میں ہیں ان کے مطابق عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ کو باقاعدہ آزاد آئینی عدالت کی شکل دی جائی گی۔ شنید ہے کہ ججوں کی ڈھبریاں مزید کسنے کے لیے ان کے تبادلوں کے نظام کو بھی دھوپ لگائی جائے گی۔ مختصر یہ کہ ہم ایک بار پھر نوآبادیاتی (کولو نیل) دور کے نظام انصاف کی طرف مراجعت کررہے ہیں جس میں زور عدل وانصاف پر نہیں بلکہ نظم وضبط اور اقتدار کے تحفظ پر ہوگا۔ قانون عوام کی خدمت نہیں حکمرانوں کے اقتدار سے وفاداری کی ملازمت کرے گا۔ فیصلے سیاسی مفاد، طبقاتی اثر اور طاقت کے توازن کو دیکھتے ہوئے کیے جائیں گے۔
فیصلہ لکھا ہوا رکھا تھا پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں دہائی دیں گے
2010 کی اٹھارویں آئینی ترمیم میں جو قومی مالیاتی کمیشن یعنی ساتواں این ایف سی ایوارڈ نافذ کیا گیا تھا 27 ویں ترمیم میں اس کی جارحیت بھی کسی نہ کسی طور کم کی جائے گی۔ اس ایوارڈ کے تحت محصولات کی تقسیم میں صوبوں کا مجموعی حصہ 47.
تاہم قارئین کرام اصل بات یہ ہے کہ یہ سب ڈرامے بازیاں ہیں۔ 27 ویں ترمیم میں کیا کچھ نیا طے ہونے جارہا ہے؟ کیوں ہونے جارہا ہے؟ اس میں کس کا کیا کردار ہے؟ کون اس ترمیم کا حامی ہے کون مخالف؟ ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سندھ اور پنجاب کے درمیان کینالوں کا معاملہ ہے اور نہ کوئی اور عوامی فلاح کا منصوبہ۔ جن کی فلاح کا منصوبہ ہے جو تخت رواں کے حقیقی مالک ہیں، انہوں نے کچھ فیصلے کیے ہیں وہ جب چاہیں گے ترمیم کے ذریعے ان فیصلوں کو نافذکروادیں گے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، اکثریت، متفقہ فیصلہ یہ سب شاعری ہے، وہ بھی گھسی پٹی شاعری۔۔ جنہوں نے جنگ مئی میں نہ صرف خود عزت حاصل کی ہے اور ملک کو بھی چاروانگ عالم میں کامیاب وکامران اور عزت کی بلندیوں پر فائز کردیا ہے یہ انھی کا حق ہے کہ وہ اس ملک کے فیصلے کریں، اس ملک پر حکومت کریں۔ کسی کو اس میں کوئی شک ہے تو جمہوریت کی مترنم نحوست کے گیت گاتا رہے۔ ہوگا وہی جو منظور ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام دنیا بھر میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ سب جمہوریت کی نماز ادھوری چھوڑ کر سلام پھیر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ ہر جگہ جمہوریت کینسر، ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر اور ذیابیطس میں مبتلا اٹھک بیٹھک کررہی ہے اور کچھ بھی ڈلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کا اعجاز ہے کہ آج نیویارک سے لے کر کراچی تک عوام مہنگائی، عسرت اور تنگ دستی کا رونا رو رہے ہیں لیکن عوام کے مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ یہ نظام صرف سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کے مسائل حل کرسکتا ہے۔ ہر نیا سے لے کر بائی پاس تک عوام کا علاج، طاقت، فلاح، مسائل کا حل، بہبود اور خوشی صرف اسلام کے پاس ہے۔ خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وفاقی حکومت جمہوریت کی فیلڈ مارشل ویں ترمیم گیا تھا ہے اور
پڑھیں:
حکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے، فضل الرحمان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہحکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے۔
حکمران 1973کے متفقہ آئین کو کھلواڑ بنانا چاہتے ہیں‘ پہلے ترمیم جنرل باجوہ کے دباﺅ پر کی گئی تھی اور اب بھی یہی تاثر ہے کہ دباﺅ کی وجہ سے 27ویں ترمیم لائی جارہی ہے اور ماحول کو شدت کی جانب لے جایا جارہا ہے۔
پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پالیسیوں میں تبدیلی لائے ،اگر افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا جائز ہے تو یہ بھارت کےلیے بھی جواز بن سکتا ہے۔
حکومت اور خصوصاً پنجاب میں دینی مدارس اور علما کے ساتھ توہین آمیز رویہ رکھا جارہا ہے، حکمران دینی مدارس کے خلاف کارروائیاں کرکے مغربی دنیا کو خو ش کرنا چاہتے ہیں ،یہ طریقہ کار دست نہیں ہے ۔
بدھ اور جمعرات کی شب اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملک کے متفقہ آئین کو کھلواڑ نہیں بننا چاہیے، ایک سال میں دوسری مرتبہ ترمیم آرہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے اپنی نگرانی میں ترمیم کرائی اب پھر وہی ہونے کا تاثر ہے اور جب جبرکے تحت ترامیم کی جائیں گی تو پھر عوام کا کیا اعتماد رہ جائے گا، اگر یہی حال رہا تو عوام کاکیا اعتقاد آئین پر رہ جائے گا۔
فضل الرحمن نے کہاکہ ہم نے چھبیسویں ترمیم کے موقع پرحکومت کو34 شقوں سے دستبردار کرایا تھا اور جو 26ویں ترمیم سے بچایا اب پھر وہی کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں ملا‘ہم ستائسویں ترمیم پر پوری اپوزیشن کے ساتھ ملکر متفقہ رائے بنائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے۔
فضل الرحمن نے کہاکہ آج افغانستان پر جو الزام لگایا جارہا ہے کل یہی ایران پرلگایا جارہا تھاہمیں پروپاکستان افغانستان چاہیے، اگر پاکستان میں دہشتگرد ہیں تو یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے ،اگر افغانستان میں مراکزپر حملہ درست ہے تو کل مریدکے اور بہاولپور پر بھارتی حملے کو جوازملے گا۔
انہوں نے کہاکہ مسئلہ افغان حکومت سے ہے اور سزا مہاجرین کو دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جنگ کے بعد بھی تو بات چیت کی ہے اگر یہ پہلے ہی کرلیتے تو بہتر ہوتا ، نہ آرمی چیف نہ وزیر اعظم اور نہ ہی بیورو کریسی سے ہماری کوئی لڑائی ہے، ہم ملک میں تلخی کا ماحول کم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دینی مدارس کے حوالے سے فیض حمید باجوہ اور موجودہ کی پالیسی ایک کیوں ہے ۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن علما کی توہین کررہی ہے ،ایک امام کی نصیحت تنقید کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، اس کا مطلب ہے یہ حکمران نہیں ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو ہمت کرنی چاہیے انھیں اپنا رول ادا کرنا ہو گا، میں پیپلز پارٹی سے بات بھی کروں گا ،حکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے، یہ ترمیم قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بنے گی ،یہ حکومت 27 ویں اور 28 ویں ترمیم چھوڑ دیں اور دیگر مسائل پر توجہ دیں۔
فضل الرحمن نے کہاکہ اسرائیل کو ترکی کی فوج غزہ بھیجنے پر اعتراض ہے مگر پاکستان کی فوج کو بھیجنے پر اعتراض نہیں ،اس کی کیا وجہ ہے، فلسطینی آج تک بریگیڈئر ضیا الحق کے رویے کو نہیں بھولے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک شخص انسانی مجرم ہے اور پوری دنیا میں گھوم بھی رہا ہے انہوں نے کہاکہ ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا ہماری ڈپلومیسی کہا ں ہے ؟۔