Islam Times:
2025-09-26@20:56:01 GMT

پاک، سعودیہ معاہدہ اور یمن

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

پاک، سعودیہ معاہدہ اور یمن

اسلام ٹائمز: اگر پاکستان ایسی جنگوں خصوصاً مسلم ممالک سے شراکت دار بنتا ہے تو یہ فیصلہ پاکستانی عوام کو کسی طور بھی منظور نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان کے عوام ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یمن جنگ کے آغاز کے موقع پر پاکستان کی پارلیمان نے اس جنگ سے خود کو دور رہنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے یمن کیخلاف جب مسلم ممالک کا اتحاد تشکیل دیا تو اسکے سربراہ کچھ عرصہ قبل ہی سبکدوش ہونیوالے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف مقرر ہوئے تھے۔ یمنی عوام اور اسوقت کی قیادت نے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کیا، یہ یمن ہی ہے کہ جو اکیلا اسرائیل پر حملے جاری رکھے ہوئے اور انکے لئے سمندری راستوں کو بند کیے ہوئے ہے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ ایک خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں، دونوں ممالک کے مابین اخوت و برادری کا رشتہ صرف سیاسی یا معاشی بنیادوں پر نہیں بلکہ ایمان، عقیدہ اور مقدس مقاماتِ مکہ و مدینہ کی نسبت سے ایک روحانی بھی ہے۔ اسی رشتہ کی تازگی اور استواری کا ایک حالیہ مظہر وہ وقت ہے، جب وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف گذشتہ دنوں جب سعودی عرب پہنچے تو ان کا استقبال خصوصی اور شاہانہ انداز میں کیا گیا۔ اس سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان ایئرپورٹ پر جاکر سابق وزیراعظم عمران خان کا فقیدالمثال استقبال کرچکے تھے۔ یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض رسمی سفارتی تعلقات کے بجائے ایک برادرانہ اور خصوصی تعلق کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسی پس منظر میں حالیہ دفاعی معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل تصور کیا جا رہا ہے، جس کے مطابق اگر کسی تیسرے ملک نے سعودی عرب یا پاکستان پر حملہ کیا تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

اس معاہدے کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ اگر خدانخواستہ اسرائیل، جو خطے میں اسلام دشمن سازشوں کا علمبردار ہے، سرزمینِ حجاز پر حملہ کرے تو پاکستان سعودی عرب کے دفاع میں صفِ اول کا کردار ادا کرے گا۔ اسی طرح یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کی طرف سے جارحیت کا سامنا ہو تو سعودی عرب کس حد تک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔؟ خاص طور پر اس تناظر میں کہ سعودی عرب میں بھارتی شہریوں کی سب سے بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں موجود ہے۔ اگر دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعلقات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات یک روزہ یا وقتی نہیں، بلکہ ایک طویل اور گہرا تاریخی تسلسل رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین 1967ء میں پہلا باقاعدہ دفاعی معاہدہ ہوا، جس کے تحت پاکستانی فوج نے سعودی فوج کو تربیت فراہم کرنا شامل ہیں۔

1982ء میں ایک اور معاہدہ طے پایا، جس میں مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی پیداوار اور پاکستانی افواج کی تربیت دینے کے لئے تعیناتی کے پہلو شامل تھے۔ 1989ء میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب کے بارڈر پر خطرات بڑھ گئے، اس موقع پر بھی پاکستان نے اپنے فوجی دستے سعودی سرحد پر تعینات کیے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان شدید دباؤ اور مشکلات میں گھرا ہوا تھا، تب سعودی عرب نے پاکستان کو خام تیل اور دیگر ذرائع سے بڑی مدد فراہم کی۔ یہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کو سہارا دیا ہے۔ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے "ویژن 2030ء" کے نام سے ترقی کی ایک نئی راہ اپنائی۔ ابتداء میں ان کے فیصلوں کو بعض ماہرین نے جذباتی اور غیر پختہ قرار دیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ انہوں نے اپنی جرات مندانہ پالیسیوں کے ذریعے سعودی عرب کو ایک نئے ترقیاتی سفر پر گامزن کیا۔

مقامی پیداوار میں اضافہ اور بیرونی اشیاء پر انحصار کم کرنا۔ سعودی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے غیر ملکیوں پر مقامی افرادی قوت کو ترجیح دینا، کرپشن کے ذریعے جمع ہونے والی بے شمار دولت واپس قومی خزانے میں لانا۔ ایران، قطر اور یمن کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے بعد مصالحت کی راہ اپنانا۔ محمد بن سلمان کے دور میں بعض سنگین غلطیاں بھی ہوئیں، جن میں قطر سے تعلقات منقطع کرنا، یمن پر طویل جنگ مسلط کرنا اور جمال خاشقجی کے قتل جیسے واقعات سعودی عرب کے چہرے پر بدنما داغ کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایم بی ایس نے رفتہ رفتہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی اور غلطیوں سے سیکھتے ہوئے حالات کو قابو میں لانے کی کوشش کی۔ یمن پر مسلط کردہ جنگ نہ صرف انسانی المیے کو جنم دیتی ہے بلکہ سعودی عرب کے لیے بدنامی کا سبب بھی بنی۔ بہت مواقع پر غریب اور محاصرے میں پھنسے یمنیوں نے شدید نقصان بھی پہنچایا۔ لاکھوں یمنی شہری بھوک، بیماری اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے۔

اگر پاکستان ایسی جنگوں خصوصاً مسلم ممالک سے شراکت دار بنتا ہے تو یہ فیصلہ پاکستانی عوام کو کسی طور بھی منظور نہیں ہوگا، کیونکہ پاکستان کے عوام ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یمن جنگ کے آغاز کے موقع پر پاکستان کی پارلیمان نے اس جنگ سے خود کو دور رہنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے یمن کیخلاف جب مسلم ممالک کا اتحاد تشکیل دیا تو اس کے سربراہ کچھ عرصہ قبل ہی سبکدوش ہونے والے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف مقرر ہوئے تھے۔ یمنی عوام اور اس وقت کی قیادت نے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کیا، یہ یمن ہی ہے کہ جو اکیلا اسرائیل پر حملے جاری رکھے ہوئے اور انکے لئے سمندری راستوں کو بند کیے ہوئے ہے، حالانکہ انکے وزیرِاعظم اور کابینہ کے بشتر افراد اسرائیلی فضائیہ حملے میں شہید ہوئے، مگر یمن مظلوموں کی حمایت سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ اس صورتحال میں پاک، سعودیہ معاہدے کو یمن کیخلاف کسی بھی قسم کے اقدام سے دور رکھنے کی ضرورت ہے، بلکہ یمن کو اسرائیل کیخلاف قدرت مند بنانا مقصد ہونا چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہ سعودی عرب سعودی عرب کے دونوں ممالک پاکستان کے مسلم ممالک پر حملہ کے ساتھ

پڑھیں:

پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ خطے میں نیا سیکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دینے کا آغاز ہے؛ ایران

ایران کے صدر مسعود پزیشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین حالیہ دفاعی معاہدے کو خوش آئند قرار دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایرانی صدر نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی حملے کی بھی مذمت کی۔

ایرانی صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کے غزہ اور اس سے باہر دیگر ممالک پر حملے نہ صرف جارحیت ہیں بلکہ سفارتی عمل کے ساتھ دھوکہ دہی کے مترادف بھی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے دوران ان کے ملک کو بدترین حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں معصوم بچوں اور سائنسدانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔

مسعود پزیشکیان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت خطے میں امن کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر سامنے آ رہی ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم ممالک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔

صدر مسعود پزیشکیان نے کہا کہ علاقائی سلامتی طاقت کے زور سے نہیں بلکہ اعتماد، رابطوں میں اضافے اور کثیر جہتی تعاون سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے پھیلائے جانے والے انتشار اور مختلف ممالک پر حملوں کا مقابلہ تعاون پر مبنی ایک مضبوط ہمسائیگی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

ایرانی صدر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم مسلم دنیا کے لیے مشترکہ سکیورٹی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ایرانی صدر کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاہدہ مسلم ممالک کو سیاسی، سیکیورٹی اور دفاعی سطح پر مزید قریب لانے اور دفاعی شعبوں میں باہمی تعاون کا ذریعہ بنے گا۔

جوہری توانائی سے متعلق امریکی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ایرانی صدر نے واضح کیا کہ ایران نے کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی مستقبل میں کرے گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا خصوصی انٹرویو
  • بھارت پہ فتح، سعودیہ سے معاہدہ اور پاک امریکہ تعلقات میں بے مثال پیش رفت، خواجہ آصف
  • پاکستان سعودیہ معاہدہ
  • پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن
  • پاک سعودی معاہدہ، کامیابی، امکانات اور خطرات
  • پاک سعودیہ تاریخ ساز دفاعی معاہدہ !
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ خطے میں نیا سیکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دینے کا آغاز ہے؛ ایران
  • پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل
  • پاک سعودیہ معاہدہ امت کے دفاع کیلئے : عبدالخبیر آزاد