پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور: طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 27 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ دونوں ممالک کے وفود اس وقت استنبول میں موجود ہیں، تاہم گزشتہ روز مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات دوسرے روز کوئی فیصلہ کن پیشرفت نہ ہوسکی۔ تاہم، دونوں ممالک کے وفود نے پندرہ گھنٹے طویل بات چیت کے بعد ممکنہ معاہدے کا مسودہ تیار کیا۔ اس دوران ثالثوں کی موجودگی میں دونوں جانب سے تجاویز کا تبادلہ بھی ہوا۔

افغان خبر رساں ادارے “طلوع نیوز“ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سامنے ایک مسودہ پیش کیا جس میں دو بنیادی مطالبات شامل تھے۔

اول یہ کہ پاکستان افغانستان کی فضائی حدود اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اور دوم، پاکستان اپنی سرزمین کسی ایسی تنظیم یا گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے جو افغانستان کے خلاف کارروائی کرے۔

رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ ثالثوں کے ذریعے پاکستانی وفد کو پہنچایا گیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنا نیا مسودہ افغان حکام کے حوالے کیا ہے۔

پاکستان نے اپنے مؤقف میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی اور منصوبہ بند حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

بین الاقوامی امور کے افغان ماہر واحد فقیری نے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”اگر ترکی میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں دونوں ممالک سرحدی کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعاون پر متفق ہو گئے تو ایسا معاہدہ چند ماہ تک مؤثر رہ سکتا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے جنگ بندی کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک چار فریقی مانیٹرنگ چینل قائم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ چینل ممکنہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا اور معلومات کے تبادلے کا پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد بلال عمر نے بتایا کہ ”دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو فریقین کے اقدامات کی نگرانی کریں گی۔“

پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہیں ہونا چاہیے، جبکہ افغان طالبان نے دیگر ممالک کو مانیٹرنگ میکانزم میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی مذاکرات میں ایک غیر جانبدار بروکر کے طور پر سہولت کاری کر رہا ہے اور سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرناک واقعے یا مِس ایڈونچر کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کرے گا۔

پاکستان نے افغان طالبان کو حتمی موقف پیش کردیا
قبل ازیں، ترکیہ کے شہر استنبول گزشتہ روز ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کو حتمی موقف پیش کیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق استبول میں جاری مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کو نا منظور قرار دیا ہے۔

پاکستانی وفد نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے، اس کے برعکس طالبان کے دلائل غیرمنطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں اور یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ذرائع کے مطابق گفتگو کا مرکزی محور افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔ دونوں فریقین قابل تصدیق مانیٹرنگ میکانزم کو مزید مؤثر بنانے پر غور کر رہے ہیں، اور مذاکرات میں اس نظام کی تشکیل و عمل درآمد پر تفصیلی بات ہوگی۔

سفارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ اس دوران افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نئی جگہ پر آباد کاری کی پیشکش کی تھی، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے حملے ہرصورت رکنے چاہئے، افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند کرنا ہوگا۔

استنبول مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کنٹرول کرنے کے میکنزم کو واضح کرنا ہوگا، اینٹی ٹیرر میکنزم واضح اور موثر ہونا لازمی ہو، پاکستان کا یہ اصولی مطالبہ تسلیم ہوگا تو ہی بات آگے بڑھے گی۔

پاکستان نے واضح کیا کہ تسلی نہ ہوئی تو پاکستان کوئی لچک نہیں دکھائے گا، ہم اچھے ہمسایوں اور برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہیں گے اور اپنے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستان کے 7 رکنی وفد میں سینئر عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام شامل ہیں، جبکہ افغان طالبان کی قیادت نائب وزیرِ داخلہ کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان تجاویز کا تبادلہ جاری ہے اور ثالثوں کی موجودگی اس عمل کو مزید سہولت فراہم کر رہی ہے۔

قبل ازیں ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں نو گھنٹے طویل مشاورت کے بعد اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وفود نے دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا تفصیلی جائزہ لیا۔

پاکستان نے افغان طالبان کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک جامع پلان پیش کیا تھا۔ افغان طالبان نے اس پلان پر غور و خوض شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں اپنے حتمی جواب سے پاکستان کو آگاہ کرنے کا عندیہ دیا۔

افغانستان کو ہرصورت فتنہ الخوارج کو لگام ڈالنا ہوگی، پاکستان نے پھر واضح کردیا

پاکستان کی جانب سے دو رکنی وفد مذاکرات میں شریک ہوا، جبکہ افغانستان کی نمائندگی نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب نے کی۔ مذاکرات کا آغاز دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوا تھا اور رات گئے تک جاری رہا تھا۔ ترکیہ نے مذاکراتی عمل کی میزبانی کی، جبکہ قطر اس سفارتی کوشش میں ثالثی کے کردار میں شامل تھا۔

یاد رہے کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہی پاک افغان مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔

ٹی ٹی پی کا سرحد پار نیٹ ورک بے نقاب: افغان خودکش بمبار کا اعترافی بیان منظرعام پر

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر مذاکرات میں معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان افغان طالبان کے خلاف کھلی جنگ کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوحہ مذاکرات میں شریک افغان وفد وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں جوان ہوئے۔ پاکستان نے چالیس برس تک افغان عوام کی میزبانی کی، مگر اب بغیر ویزے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

پاکستان خطے کا فاتح قرار، بھارت کو 25 سالہ محنت اور سفارتی اعتماد کے ضیاع کا خدشہ

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ بھارت افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن پاکستان اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

ان مذاکرات کو پاک افغان تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے، جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے اور سرحدی استحکام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تو دوسری جانب اگر معاہدہ نہ ہوا تو خطے میں ایک نئی کشیدگی کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچیف جسٹس کا ایک سالہ دور، قانونی ماہرین کا کارکردگی پر عدم اعتماد چیف جسٹس کا ایک سالہ دور، قانونی ماہرین کا کارکردگی پر عدم اعتماد آوارہ کتوں کے خاتمے اور نسل کشی کیخلاف کیس: سی ڈی اے، میونسپل کارپوریشن نے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی کشمیر سب سے زیادہ ملٹری قبضہ زدہ خطہ، مزید نظر انداز نہ کیا جائے: مشعال ملک صدر مملکت اور وزیراعظم نے کتنے غیرملکی دورے کئے؟ تفصیلات منظرعام پر عمر ایوب، شبلی فراز کی نااہلی سے متعلق اپیلیں سپریم کورٹ سے واپس لے لی گئیں غزہ فورس میں کن ممالک کی فوج شامل ہوگی؟ نیتن یاہو نے بڑا اعلان کر دیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پاک افغان مذاکرات مذاکرات کا طالبان کے

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد، قطر کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ "دونوں فریقوں نے فوری طور پر فائر بندی پر اتفاق کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن اور استحکام کے قیام کے لیے جامع طریقہ کارطے کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

’اسٹمسن سینٹر‘ میں جنوبی ایشیا کے امور کی ڈائریکٹر الزبتھ تھریلیکیلڈ کا اس پیش رفت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ میں فائر بندی کے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ پُر اُمید نہیں ہوں۔ ’’موجودہ منظرنامے میں کئی فریق شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ دیگر گروہ اس بات چیت اور اس کے نتیجے میں کیے جانے والے وعدوں کا حصہ نہیں ہیں جو دوحہ میں ہوئی ہے۔

لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ خود کو افغان حکومت کے کسی معاہدے کے تابع کر لیں۔ یہ ذمے داری تو، افغان طالبان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اقدامات کریں اور ان سرگرمیوں کو روکیں۔ یہ انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ سرحد کی مکمل نگرانی بہت زیادہ مشکل ہے۔ پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کی کوششوں کے باوجود، اس قسم کی دراندازیوں کو روکنے کی صلاحیت اور افرادی قوت حاصل کرنا واقعی مشکل ہے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ یہ طالبان کے لیے چیلنج ہوگا کہ وہ ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھیں، بشرطیکہ ان کے ارادے اچھے ہوں، تھریلیکیلڈ نے مزید کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان ایسے مُسلح گروپوں کو قابو میں رکھیں جو پاکستان پر حملوں میں ملوث ہیں، جیسے کہ پاکستان طالبان (ٹی ٹی پی) اور دیگر۔ ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) باہمی تال میل کے ساتھ بلوچستان کے علاقوں میں سرگرم ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں رواں برس غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2025 شاید سب سے زیادہ ہلاکتوں کا سال بننے کے راستے پر ہے‘‘۔ تجزیہ کاروں اور سابق سفارت کاروں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ پاکستان کو طالبان کے مسئلے کا سامنا بدستور رہا ہے، اور یہ گمبھیر مسئلہ اس وقت تک تقریباً ناقابلِ حل رہے گا جب تک افغانستان سخت پوری دیانتداری کے ساتھ اقدامات نہیں کرتا۔ پاک افغان مسائل کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر سامنے آنے والے زیادہ تر تجزیوں سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ افغانستان شاید درکار سخت اقدامات پر آمادہ نہیں ہے۔

حالیہ معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ ایک تو یہ تحریری شکل میں ہے اور دوسرے یہ کہ ثالثی کرانے والے ملکوں ترکیہ اور قطر نے معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے کی ذمے داری بھی اُٹھائی ہے۔دوسری طرف اس معاہدے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کی تفصیلات تاحال اندھیرے میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی اہم سرکاری شخصیات اس معاہدے کو اپنی خواہشات کے مطابق رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔افغان وزیر دفاؑع مُلا یعقوب مجاہد نے ڈیورنڈ لائن کو فرضی قرار دیا۔

افغانستان میں طالبان حکومت زبانی تو عسکریت پسند گروہوں کی میزبانی کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے، لیکن شواہد اور زمینی حقائق بالکل مختلف کہانی سناتے ہیں۔ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کے حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے آزاد ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو طالبان حکومت کی طرف سے مالی اعانت حاصل ہے اور اس کے جنگجو القاعدہ کی مدد سے افغانستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان، جو افغانستان سے متصل ہیں، نے اس تشدد کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے۔ اسلام آباد کے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق، رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کم از کم 2,414 اموات ہو چکی ہیں۔

دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان سے ہونے والی سرحد پار دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا، اور اس بات کا عملی مظاہرہ افغانستان کے اندر دہشت گروپوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔

یوں اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان مستقبل میں بھی ایسی کسی کارروائی کا جواب دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر کرے گا خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کی آئیڈیالوجی یوں تو افغان طالبان کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن دونوں گروپوں کے مقاصد مختلف ہیں اور وہ آزادانہ طور پر کام کرنے پر بضد ہیں۔ اور یہی بات حالیہ بات چیت کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ 2001 میں جب طالبان کو امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج نے اقتدار سے محروم کیا تو پاکستان کو طالبان کے سب سے بڑا حامی ہونے کے الزام کا سامنا تھا۔ پاکستان پر یہ الزام بھی تھا کہ اس نے طالبان کے جنگجوؤں کو اُس وقت پناہ فراہم کی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی قبضے کے خلاف 20 سال تک مسلح بغاوت کرتے رہے تھے۔ لیکن بعد میں تعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے جب پاکستان کے اندر حملوں میں اضافہ ہوا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ افغان قیادت بھارت میں کھڑے ہو کر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہی ہے۔

ٹی ٹی پی اس وقت پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بڑے چیلنج کے طور پر دوبارہ اُبھر کر سامنے آئی ہے، کیونکہ اس نے پچھلے سال سیکیورٹی فورسز کے خلاف 600 سے زائد حملے کیے ہیں، یہ بات ’آرمڈ کانفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا‘ (ACLED) کی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو ایک آزاد این۔ جی ۔ او ہے۔ سی آر ایس ایس کے مطابق، اس سال کی پہلے تین سہ ماہیوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی کی کارروائیاں 2010 کی دہائی کے اوائل میں اپنے عروج پر تھیں۔ اس کے بعد حکومت نے مسلح گروپوں کو مذاکرات میں شامل کیا اور 2021 میں ان کے بعض مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ دی گئی۔ طالبان چاہتے تھے کہ ان کے گرفتار ارکان کو رہا کیا جائے اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ختم کر دیے جائیں۔

ان کوششوں کے نتیجے میں حملوں میں کمی آئی تھی۔ ٹی ٹی پی یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ 2018 میں قبائلی علاقے کو خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم کرنے کا فیصلہ بھی واپس لیا جائے تاکہ وہ ان علاقوں میں اسلامی شریعیت کی وہ صورت نافذ کر سکیں جو اُن کے خیال میں درست ہے۔

تشدد اس وقت بڑھا جب ٹی ٹی پی نے 2022 میں یکطرفہ طور پر یہ کہتے ہوئے فائر بندی کے معاہدے سے انکار کر دیا کہ حکومت علاقے میں دوبارہ آپریشنز کر رہی ہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے راستے افغان تجارتی راہداریاں بند ہیں جن کے باعث سیکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ یہ ایک طرح سے افغانستان پر دباؤ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات کو درست رکھے۔ یہ دباؤ دانشمندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔

قطر اور سعودی عرب اس معاہدے پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانے میں اس لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کو جو بیرونی امداد میسر ہے اس میں بڑا حصہ انھی ملکوں سے آتا ہے۔

سیاسی اعتبار سے جو سب اہم ملک ہے وہ چین ہے۔ چین افغانستان کے تجارتی مستقبل کی بڑی اُمید ہے، اس لیے پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر افغانستان پر دباو برقرار رکھنا ہو گا۔

خطے کی سیاست کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آیا پاکستان افغانستان کو بھارت سے دور رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے یا نہیں۔ بھارت کو حالیہ تصادم میں پاکستان کے ہاتھوں جو ذلت اُٹھانا پڑی ہے اُس کا حساب برابر کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ایک اور اہم چیلنج پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال بھی ہے۔ مستقبل میں سامنے آنے والے ممکنا چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اندون ملک اتحاد، یکجہتی اور یکسوئی لازم ہے، بالخصوص کے پی کے کی حکومت اور تمام سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل کرنا لازم ہے۔

افغانستان کے میڈیا میں پاک افغان ٹکراؤ کے حوالے سے جو تاثر اُبھر کر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ صرف ہارنے والے ہوتے ہیں۔ یہ منطق کہ افغانستان کو بمباری کرکے سرنڈر کرایا جائے گا، 20 سال تک امریکی قبضے کے دوران بھی کامیاب نہیں ہوئی‘‘۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  •  پاک, افغان طالبان مذاکرات , تیسرا دور شروع
  • پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور شروع
  • دہشت گردوں کی سر پرستی نامنظور ہے؛ پاکستان نے افغانستان پر واضح کردیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں جاری
  • پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا
  • پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور ختم، پاکستان نے طالبان کو دہشتگردی کی روک تھام کیلئے جامع پلان دیدیا
  • پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا
  • پاکستان، افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور آج، افغانستان سے دہشتگردی روکنےکیلئے مانیٹرنگ میکنزم پربات ہوگی
  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟