اینٹی اسموگ گنز کے استعمال سے لاہور میں پانی کی قلت کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
لاہور، جو پہلے ہی تیزی سے گرتی ہوئی زیرِ زمین پانی کی سطح کے بحران سے دوچار ہے، وہاں اسموگ اور فضائی آلودگی میں کمی کے لیے حکومتِ پنجاب کی جانب سے واٹر کینن/ اینٹی اسموگ گنز کا استعمال شاید فضا میں وقتی بہتری تو لائے، لیکن روزانہ لاکھوں لیٹر پانی کے استعمال سے شہر کو پانی کی قلت کے ایک نئے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔
ان دنوں لاہور کی مختلف سڑکوں پر واٹر کینن گاڑیاں نظر آتی ہیں جو فضا میں موجود گردوغبار اور معلق ذرات کو کم کرنے کے لیے پانی کا باریک چھڑکاؤ کرتی ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں 15 گاڑیاں آزمائشی طور پر مختلف علاقوں میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ ایک واٹر کینن گاڑی میں 12 ہزار لیٹر پانی کی گنجائش ہے اور یہ ایک گھنٹے کے دوران اپنا سرکل مکمل کرتی ہے۔
ادارہ تحفظِ ماحولیات پنجاب (ای پی اے) کے ترجمان ساجد بشیر کے مطابق، لاہور میں نصب 16 ائیر کوالٹی مانیٹرز کے ذریعے ان علاقوں کی پیشگی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں آلودگی کی سطح بڑھنے کا امکان ہو، اور انہی علاقوں میں واٹر کیننز بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کاہنہ کے علاقے میں فوگ کیننز کے استعمال کے بعد فضا میں موجود پی ایم 10 ذرات کی شرح میں تقریباً 70 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔
ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ ای پی اے نے واٹر کینن کے اثرات جانچنے کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف علاقوں میں ایئر کوالٹی ڈیٹا کی بنیاد پر ان کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔
تاہم ماہرینِ ماحولیات اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اینٹی اسموگ گنز محض اسموگ تھیٹر ہیں، یعنی ایک ایسا دکھاوا جو وقتی طور پر فضا صاف کرنے کا تاثر دیتا ہے۔
ائیر کوالٹی ایکسپرٹ مریم شاہ کے مطابق، یہ واٹر کیننز ایمرجنسی اقدامات کے طور پر کچھ علاقوں میں وقتی بہتری لا سکتے ہیں، لیکن سائنسی اعتبار سے ان کا اثر نہایت محدود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں بھی کچھ عرصہ یہی ٹیکنالوجی آزمائی گئی تھی، تاہم بعد میں اسے ترک کر دیا گیا کیونکہ اس سے اسموگ کی شدت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔
تاہم ای پی اے نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ یہ منصوبہ غیر سائنسی ہے۔ ادارے کے ترجمان کے مطابق، چین میں فوگ کیننز سے متعلق کی گئی تحقیق محدود پیمانے پر تھی اور وہاں کے موسمی حالات لاہور سے مختلف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں استعمال ہونے والی اینٹی اسموگ گنز مقامی موسمیاتی حالات اور ہوا کی رفتار کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کی گئی ہیں۔
سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ریسرچ، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر محمد یٰسین نے بھی اس پالیسی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق واٹر کینن کا استعمال ایک عارضی حل ہے کیونکہ اس طریقے سے بہت زیادہ پانی استعمال ہوگا۔ لاہور پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، ایسے میں ان واٹر کیننز کا استعمال صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔
ماحولیاتی وکیل التمش سعید کے مطابق، اگر ایک واٹر کینن روزانہ 12 گھنٹے چلایا جائے تو ایک لاکھ 44 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوگا، اور 15 کیننز کے لیے یہ مقدار 22 لاکھ لیٹر سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ان کے بقول، یہ گنز صرف بڑے ذرات کو وقتی طور پر نیچے بٹھاتی ہیں، جبکہ باریک اور خطرناک ذرات یعنی پی ایم 2.
واسا کے اعداد و شمار کے مطابق، لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال دو سے تین فٹ تک نیچے جا رہی ہے، اور 1960 کی دہائی سے اب تک یہ سطح تقریباً 18 میٹر سے زیادہ گر چکی ہے۔ 1980 میں پانی 15 میٹر گہرائی پر دستیاب تھا، جو اب بعض علاقوں میں 70 میٹر سے بھی نیچے پہنچ چکا ہے۔ شہر کی روزانہ پانی کی ضرورت 480 ملین گیلن سے زائد ہے، جو اب تقریباً مکمل طور پر زیرِ زمین ذخائر سے پوری کی جاتی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کا کہنا ہے کہ لاہور کو اب سب سے بڑا خطرہ اسموگ سے زیادہ پانی کی کمی سے ہے۔ ان کے مطابق، گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، ناقص معیار کا ایندھن، اور صنعتوں کے غیر فلٹر شدہ اخراج فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب ہیں جن پر قابو پائے بغیر کوئی بھی ’’انسدادِ اسموگ‘‘ مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسموگ کیننز جیسے اقدامات شہریوں کو عارضی ریلیف دیتے ہیں، لیکن فضائی معیار میں مستقل بہتری کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
ماہرین کا اتفاق ہے کہ لاہور میں اسموگ کے مسئلے کا حل پانی چھڑکنے یا اسموگ کیننز چلانے سے نہیں بلکہ گاڑیوں کے اخراج میں کمی، صنعتوں میں جدید فلٹرز کی تنصیب، تعمیراتی مٹی کے بہتر انتظام اور زرعی باقیات جلانے کی روک تھام میں ہے۔ مریم شاہ کے بقول، فوگ کیننز وقتی تسکین دیتی ہیں، مگر اگر حکومت نے فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب پر قابو نہ پایا تو لاہور کو دھند نہیں بلکہ پانی کی کمی مارے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اینٹی اسموگ گنز علاقوں میں واٹر کینن لاہور میں کے مطابق پانی کی کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں سموگ کا راج، لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پھر سرفہرست
لاہور (نیوزڈیسک) لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں صبح کے وقت فضائی آلودگی کی شدت برقرار ہے۔
لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے۔ صبح کے اوقات میں لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 410 ریکارڈ کیا گیا، اس وقت اوسط شرح 329 ہے۔
لاہور کے علاقے ساندہ روڈ کا ائیر کوالٹی انڈیکس 767 ، ٹاؤن شپ کے علاقے کا 758 ، ماڈل ٹاؤن کا 574 ، علامہ اقبال ٹاؤن کے علاقے کا 511 اور گلبرگ تھری کے علاقے کا ائیر کوالٹی انڈیکس 390 ریکارڈ کیا گیا۔
فیصل آباد میں پارٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 622، ملتان میں 485 اور بہاولپور میں پارٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 255 ریکارڈ کی گئی۔ طبی ماہرین نے شہریوں کو ماسک کے استعمال اور احتیاطی تدابیر کی ہدایت کردی۔
فضائی آلودگی کے عالمی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا دوسرا، ڈھاکا کا تیسرا جبکہ بھارتی شہر کلکتہ کا چوتھا نمبر ہے۔
ائیر کوالٹی انڈیکس میں کراچی 165 اے کیو آئی کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
ماہرین کے مطابق کم ہوا کی رفتار اور کم درجہ حرارت کی وجہ سے آلودہ ذرات زمین کے قریب جمع رہیں گے، جس سے دھند اور حدِ نگاہ میں کمی واقع ہو سکتی ہے، رات گئے، صبح سویرے اور شام کے اوقات میں آلودگی کی شدت سب سے زیادہ رہے گی کیونکہ اس دوران درجہ حرارت کم اور ہوا کا بہاؤ کمزور ہوتا ہے۔
شام کے اوقات میں ٹریفک کا دباؤ، تجارتی سرگرمیاں، سڑکوں کی دھول اور مقامی جلاؤ عمل PM2.5 کی مقدار میں اضافے کا سبب بنیں گے، دوپہر 1 بجے سے شام 6 بجے کے دوران فضائی معیار میں معمولی بہتری متوقع ہے، جب درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار بڑھنے سے آلودگی کے ذرات کچھ حد تک پھیل سکتے ہیں۔
ماہرین نے واضح کیا ہے کہ مجموعی طور پر پورے دن فضا غیر صحت بخش زمرے میں ہی رہے گی، شہریوں، بالخصوص بچوں، بزرگوں اور سانس یا دل کے مریضوں کو غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔
حکام کے مطابق لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے 16 مکینیکل واشرز، 50 واشر رکشے اینٹی سموگ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
سڑکوں کی واشنگ اور پانی کا چھڑکائو کرنے کیلئے 200 صفائی اہلکار دن کی شفٹ میں اور 200 ورکرز رات کی شفٹ میں تعینات کئے گئے ہیں، دن اور رات کی شفٹ میں 300 کلومیٹر سے زائد شاہراہوں پر واشنگ اور پانی کا چھڑکائو کیا جا رہا ہے۔
ای پی اے کی جانب سے جاری کردہ 47 شاہراہوں پر دن میں دو بار پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
جیل روڈ، مین بلیوارڈ گلبرگ، نور جہاں روڈ، ایم ایم عالم روڈ، جی ٹی روڈ، بند روڈ، راوی روڈ، شاہدرہ، سگیاں، نظریہ پاکستان روڈ، رائیونڈ روڈ، فیروزپور روڈ سمیت دیگر تمام ہائی ایئر کوالٹی انڈیکس ایریاز میں واشنگ اور پانی کا چھڑکاؤ جاری ہے۔
نائٹ شفٹ میں لاہور کے تمام داخلی خارجی راستوں پر مکینیکل واشنگ اور پانی کا چھڑکاؤ یقینی جا رہا ہے۔
پنجاب کے سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ شہریوں کا اگر باہر جانا ناگزیر ہو تو حفاظتی ماسک کا استعمال یقینی بنائیں تاکہ صحت کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔
دوسری طرف انسداد سموگ کارروائیوں میں پنجاب پولیس بھی متحرک ہو گئی ہے، 24 گھنٹوں میں لاہور سمیت مختلف اضلاع میں سموگ کریک ڈاؤن کے دوران 14 مقدمات درج کر لیے۔
ترجمان نے بتایا کہ 115 افراد کو 10 لاکھ روپے جرمانے عائد کیے، 53 افراد کو وارننگ جاری کی گئی، فصلوں کی باقیات جلانے کی 13، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 86 خلاف ورزیاں ہوئیں، صنعتی سرگرمیوں کی 5، اینٹوں کے بھٹوں کی 10 خلاف ورزیاں رپورٹ کی گئیں۔
پنجاب پولیس کے مطابق رواں سال مجموعی طور پر لاہور سمیت مختلف اضلاع میں سموگ کریک ڈاؤن کے دوران 1642 مقدمات درج ، 1571 قانون شکن گرفتار کیے گئے، 60 ہزار 275 افراد کو 15 کروڑ روپے سے زائد جرمانے عائد ، 15806 افراد کو وارننگ جاری کی گئی۔
فصلوں کی باقیات جلانے کی 500، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 55763 خلاف ورزیاں ہوئیں، صنعتی سرگرمیوں کی 1599، اینٹوں کے بھٹوں کی 3185 خلاف ورزیاں رپورٹ کی گئیں۔