Express News:
2025-12-14@22:56:51 GMT

اسموگ کے مُضر اثرات سے کیسے بچا جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

اللہ تعالیٰ نے جس کائنات کی تخلیق کی وہ بے حد وسیع ، خوبصورت ، حسین وجمیل ، صفاف وشفاف اور اجلی ہے۔لیکن انسان اپنی نت نئی ایجادات اور مصنوعات کے ذریعے اس کائنات کو آلودہ اور تباہ کر رہا ہے۔ یہ آلودگی درحقیقت زہر ہے جو انسانی صحت اور زندگی کو برباد کررہی ہے۔

اس وقت جو چیزیں کائنات کو آلودہ اور انسانی صحت کو تباہ کررہی ہیں ان میں سر فہرست اسموگ ہے۔ اسموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی ہے جو انسانی آنکھ ،دماغ اور جسم کو بُری طرح سے متاثر کرتی ہے، اسموگ کو زمینی ’’ اوزون ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہو تی ہے جو ہوا میں جم جاتی ہے۔

اسموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب یا آمیزے میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا اسموگ کی وجہ بنتا ہے۔جو چیزیں اسموگ کے بننے اور پھلنے پھولنے کا سبب بنتی ہیں ان میں بارشوں میں کمی، فصلوں کا جلایا جانا، کارخانوں گاڑیوں کا دھواں ،درختوں کا بے تحاشا کٹاؤ اور قدرتی ماحول میں بگاڑ شامل ہے۔

سب سے پہلے ہمیں دھند اور اسموگ میں فرق معلوم ہونا چاہئے، کیونکہ اسموگ کی موجودگی اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جاننے کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔دھند اور اسموگ میں بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا لیکن دھند اور اسموگ کی نوعیتیں اور کیفتیں مختلف ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہوا میں موجود بخارات کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف ہو جاتے ہیں تو یہ ماحول میں سفیدی مائل ایک موٹی تہہ بنا دیتے ہیں جسے دھند کہا جاتا ہے، اسی دھند میں دھواں اور مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہو جائیں تو یہ دھند مزید گہری اور کثیف ہو جاتی ہے جسے اسموگ کہاجاتا ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، دراصل اسموگ میں بنیادی طور پر ایک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو پرٹیکولیٹ مادہ 2.

5 کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً چار گنا باریک ہوتا ہے۔ یہ مادہ ہوا کے ذریعے انسانی پھیپھڑوں میں باآسانی داخل ہو کر پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اسموگ سے بچاؤ کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جو ہر انسان اپنے طور پر اختیار کرسکتا ہے۔ یعنی مناسب حفاظتی لباس پہنا جائے۔

اس کا مطلب ہے کہ جب آپ باہر جائیں تو ماسک پہنیں یا دوسرے آلات استعمال کریں جو آپکو نقصان دہ ذرات سے پھیلنے والی آلودگی سے بچاتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو اسموگ کے اثرات سے بچا جائے تاہم اگر آپ کی رہائش زیادہ آلودگی والے علاقے میں ہے تو پھر ضروری ہے کہ اپنی صحت کی حفاظت کیلئے دوسرے طریقے بھی اختیار کریں۔یعنی دل کے مریض گھر وں میں رہ کر اسٹیم لیں، ٹھنڈے مشروبات اور کھانے پینے کی کھٹی ترش اشیاسے پرہیز کریں ، اگر کسی کو دل یا پھیپھڑوں کا دائمی مسئلہ ہے، جیسے دمہ یا اس جیسی کوئی دیگر بیماری ہے تو پھر ڈاکٹر سے اپنے آ پ کو فضائی آلودگی سے بچانے کے طریقوں کے بارے میں مشورہ کریں۔

ایسی صورت میں ڈاکٹر آپ کو سانس لینے میں مدد کے لیے کوئی دوا تجویز کر سکتا ہے۔اگر کسی کے سینے میں جکڑن، آنکھوں میں جلن، یا کھانسی کی علامات ہیں تو ڈاکٹر سے ملیں، بچوں کو آلودگی کی بلند سطح کے اثرات بڑوں کی نسبت زیادہ محسوس ہوتے ہیںاس لئے بچوں کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا بے حد ضروری ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اسموگ سے بچاؤ کیلئے اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے شیشے بند رکھیں، جب تک آلودہ دھوئیں والا موسم ختم نہیں ہو جاتا تب تک کھلی فضا میں جانے سے گریز کریں ، خاص کر سانس کی تکلیف میں مبتلا افراد ایسے موسم میں ہرگز باہر نہ نکلیں، ایسے موسم میں جسمانی ورزش کرنے سے بھی گریز کیا جائے اور اپنی گاڑیوں کو کھڑے رکھنے کی پوزیشن کے دوران انجن کو چلتا مت چھوڑیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسموگ سے بچنے کے لئے جہاں حکومت کو آلودگی کے خاتمہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں ماحول دوست ایندھن کا استعمال نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ اس بارے میں ضروری ہے کہ حکومت دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کرے جو لوگ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں چلاتے ہیں ان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے جبکہ ہم سے ہر شخص خود بھی ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی مرمت کروائے تاکہ فضا میں آلودگی نہ پھیلے۔

نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پنجاب اور خاص کر لاہور میں اسموگ کی وباء عام ہوجاتی ہے۔ حکومت اس سے نمٹنے کے کیلئے ہر سال پنجاب بھر میں اسموگ ایمرجنسی نافذ کردیتی ہے ایک ماہ کے لئے تمام سرکاری و نجی سکولوں میں طلبا و طالبات کیلئے ماسک لازمی قراردے دیا جاتا ہے یا پھر کچھ دنوں کیلئے سکولوں کالجوں میں چھٹیاں دے دی جاتی ہیں۔کچھ دیگر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔

 اصل بات یہ ہے کہ ہر سال نومبر اور دسمبر کے مہینے میں اسموگ سے بچاؤ کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے جاتے ہیں یہ سب عارضی ہیں اصل بات یہ ہے کہ لاہور جو پاکستان کا دل ہے ، پاکستان کا دوسرا بڑا صنعتی ، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دارالحکومت ہے اس شہر میں ٹریفک بے ہنگم ہوچکی ہے ، لاہور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، لاہور جو کبھی باغوں کا شہر تھا اب یہ شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ ہریالی کا فقدان ہے ، آبادی کے تناسب سے درخت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گندگی پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کروائی نہیں کی جاتی۔

اگر چہ پنجاب حکومت ہر سال لاہور کو اسموگ زدہ شہر قراردیتی ہے اس مناسبت سے وقتی طور پر کچھ اقدامات کئے جاتے ہیں لیکن یہ اقدامات موقع محل اور ضروریات کی نسبت قطعی ناکافی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگلے سال اسموگ پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسموگ اہل لاہور کیلئے مستقل روگ بنتی جا رہی ہے لہذا اب ضروری ہوچکا ہے کہ انتظامیہ لاہور کی آبادی کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

مثلاََ یہ ہے کہ بے ہنگم آبادی کو کنٹرول کیا جائے ، ٹریفک کا نظام بہتر بنایا جائے ، شجر کاری میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔یہ وہ اقدامات ہیں جن پر عمل کرکے اسموگ جیسی آفت پر قابو پایا جاسکتا ہے اور لاہور کو بھی بڑی تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔ اسموگ کا تدارک اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ چھوٹے بچوں کی صحت کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے جبکہ بچے ہی کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے محفوظ ہوں گے تو ہم بھی بحیثیت قوم محفوظ رہیں گے۔

اسموگ کا تدارک کرنا صرف حکومت کا ہی کام نہیں بلکہ ہم سے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اس مہم میں اپنا حصہ ڈالے۔ ہم میں سے اکثر کی یہ عادت ہے کہ ہر کام کا بار حکومت پر ڈالتے ہیں جبکہ خود ذمہ دار شہری کا ہونے کا ثبوت نہیں دیتے۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے سے قوم تشکیل پاتی ہے۔ جس معاشرے کے افراد جس قدر بااصول ، مہذب اور ذمہ دار ہوں گے۔

اس سے تشکیل پانے والی قوم اتنی ہی کامیاب ، ذمہ دار اور مہذب ہوگی۔ لہذا ضروری ہے کہ جب ہم بائیک یا کوئی گاڑی چلا رہے ہیں تو یہ بات یقینی بنائیں کہ ہماری گاڑی دھواں تو نہیں چھوڑ رہی۔اگر ہم سے کوئی فیکٹری یا کارخانے کا مالک ہے تو یہ بات یقینی بنائے کہ اس کی فیکٹری یا کارخانہ آلودگی پھیلانے کا سبب تو نہیں بن رہا۔ اسی طرح باہر نکلتے وقت ماسک استعمال کریں۔ ممکنہ حد تک پودے لگائیں اور شجر کاری کریں۔

سیاسی جماعتوں کے پاس تو خیر سے کوئی مثبت اور تعمیری ایجنڈا نہیں البتہ مذہبی جماعتوں اور مختلف این جی اوز کو چاہئے کہ وہ وقتاََ فوقتاََ اسموگ کے بارے میں آگاہی مہم چلائیںاور عام لوگوں کو شجر کاری کی ترغیب دلائیں۔ اس لیے کہ پاکستان ہمارا وطن ہی نہیں ہمارا گھر بھی ہے۔ ہم سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کیلئے اس طرح سوچے ، غور وفکر اور کوشش کرے کہ جس طرح اپنے گھر کیلئے کی جاتی ہے۔ اسی صورت میں یہ ملک ہمارے لیے اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سے ہر شخص شجرکاری کرے اور اسموگ کے خاتمہ کیلئے اپنا تاکہ اس بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر قابو پایا جاسکے۔

٭بارشوںمیں کمی، فضلوں کا جلایا جانا، کارخانوں گاڑیوں کا دھواں، درختوں کی بے تحاشا کٹائی اسموگ کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فضائی ا لودگی ضروری ہے کہ اسموگ میں اور اسموگ اسموگ کے اسموگ کی ہوتے ہیں اسموگ سے یہ ہے کہ جاتا ہے جاتی ہے ہے اور ہر سال ا لودہ اور اس

پڑھیں:

دہلی میں زہریلی ہوا اور آلودگی سے صحت، کاروبار اور معمولاتِ زندگی شدید متاثر

ماہرینِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ یہ آلودگی سب سے زیادہ نقصان بچوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کو پہنچا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی اس برس شدید فضائی آلودگی اور گھنے کہرے کے دوہرے بحران سے گزر رہی ہے۔ شہر کی ہوا بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور بیشتر علاقوں میں فضائی معیار انتہائی سنگین درجہ بندی میں ہے۔ ایسے مقامات بہت کم ہیں جہاں اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) کی سطح 300 سے نیچے ریکارڈ ہوئی ہو۔ صبح کے اوقات میں شہر بھر میں کہرے اور آلودگی کی موٹی تہہ چھائی رہتی ہے جس کے باعث حدِ نگاہ کم اور سانس لینے میں دشواری بڑھ گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق دہلی میں ہوا کے پھیلاؤ کا اشاریہ خطرناک حد تک گر کر 800 مربع میٹر فی سیکنڈ رہ گیا ہے، جبکہ 6000 سے کم سطح بھی تشویشناک سمجھی جاتی ہے۔

ہوا کی رفتار 5 کلو میٹر فی گھنٹہ سے بھی کم رہنے کے باعث آلودگی فضا میں ہی ٹھہری ہوئی ہے۔ ہفتے تک صبح کے وقت ہلکا کہرا اور جزوی بادل چھائے رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ فضائی معیار "بہت خراب" زمرے میں رہنے کا خدشہ ہے۔ جمعہ کی صبح جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق کئی علاقوں میں اے کیو آئی 700 سے 800 کے درمیان دیکھا گیا۔ سب سے خراب صورتحال دیپ وہار میں رہی جہاں یہ سطح 850 ریکارڈ کی گئی۔ بھلسوا لینڈفل کے قریب 550، روہنی میں 631، اشوک وہار میں 754 اور جہانگیر پوری میں 690 کی سطح ریکارڈ ہوئی۔ نئی دہلی کے مرکزی حصے میں بھی فضائی معیار "انتہائی سنگین" زمرے میں رہا۔

ماہرینِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ یہ آلودگی سب سے زیادہ نقصان بچوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کو پہنچا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق فضا میں موجود باریک ذرات بڑھنے سے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ 70 فیصد اور کم وزن کے بچوں کی پیدائش کا امکان 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ بچوں میں دمہ، الرجی اور سانس کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ فضائی آلودگی نے دہلی کی معیشت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ ساؤتھ ایکس، صدر بازار، کملانگر اور پیتم پورہ جیسے تجارتی مراکز میں گاہکوں کی آمد کم ہونے کے باعث خرید و فروخت میں 20 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ تعمیراتی شعبہ، سیاحت اور گاڑیوں کی فروخت بھی سست روی کا شکار ہے جبکہ طبی اخراجات بڑھنے سے خاندانوں پر مالی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

سرکاری سطح پر جی آر اے پی (گریڈڈ ریسپانس ایکشن پلان) نافذ ہے مگر سپریم کورٹ نے اس کے ناقص نفاذ پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت کے مطابق آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کا داخلہ روکنے میں سنگین غفلت برتی گئی۔ دوسری جانب سی اے کیو ایم (کمیشن فار ایئر کوالٹی مینجمنٹ) نے معمولی بہتری پر پابندیوں میں نرمی کی جس پر عوام نے سوالات اٹھائے ہیں۔ فضا میں زہریلے ذرات کے کہرے کے ساتھ نیچے ٹھہر جانے سے دہلی این سی آر میں سموگ مزید گہرا ہوگیا ہے، جس کے باعث ٹریفک حادثات، سانس کی تکالیف اور معمولتِ زندگی میں رکاوٹیں بڑھ گئی ہیں۔ ماہرین نے شہریوں کو ماسک کے استعمال، غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز اور گھر کے اندر صاف ہوا برقرار رکھنے کی ہدایت دی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کے مختلف شہروں میں معمول کے مطابق دھند اور اسموگ نمایاں
  • ملک کے مختلف شہروں میں دھند کا راج، موٹر ویز متعدد مقامات سے بند
  • ’بہو کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟‘،صبا فیصل کے مشوروں پر فضا علی اور مامیا شجافر کی سخت تنقید
  • قانون سے کوئی بالاتر نہیں‘ آئین سے کھیلنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے‘ لیاقت بلوچ
  • شدید گرمی بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے سنگین خطرہ بننے لگی: تحقیق
  • انڈے کھانے کیلئے محفوظ ہیں یا نہیں، ابالنے سے قبل کیسے معلوم کیا جائے؟
  • عسکری اداروںنے جنرل فیض کو سزا سنا کر نئی روایت قائم کردی، تنظیم اسلامی
  • پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے،نواز شریف
  • دہلی میں زہریلی ہوا اور آلودگی سے صحت، کاروبار اور معمولاتِ زندگی شدید متاثر