سڑک کنارے ہوٹلوں کیخلاف بلارعایت کارروائی کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) کمشنر کراچی سید حسن نقوی کی زیر صدارت ان کے دفتر میں فٹ پاتھوں اور روڈ سائیڈز پر قائم چائے خانوں اور ریسٹورنٹس کیخلاف جاری مہم کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ 27 اکتوبر سے شروع ہونے والی مہم میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران 167چائے خانوں اور کھانے پینے کے مراکزکو سربمہر کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنرز نے اجلاس کو بریفنگ دی بتایا کہ جن ہوٹلوں کو بند کیا گیا ہے ان کی مانٹرنگ کی جارہی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ قانونی کارروائی کے بغیر کسی ٹی شاپ یا ہوٹل کو ڈی سیل نہیں کیا جائے گا۔ اپنی دکانوں کو ڈی سیل کرنے پر مالک کو گرفتار کیا جائے گا اور جرمانہ عاید کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈپٹی کمشنرز تمام بند چائے خانوں اور ہوٹلوں کو ڈی سیل کرنے کے فیصلہ تک سختی سے مانٹرنگ کریں گے۔ ڈپٹی کمشنرزبند ہوٹلوں کو کھولنے کی اجازت منظوری کے بغیر نہیں دیں گے۔ اجلاس نے ہوٹلوں کو کھولنے کے لیے قواعد کے مطابق کاروبار کرنے کے حلف نامہ لینے اور بھاری جرمانہ کے بعد ڈی سیل کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز انہیں ڈی سیل کرنے کے لیے اپنی رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کریں گے۔ رپورٹ اور تجاویز مطلوبہ قواعد اور پالیسی کے مطابق تیار کی جائیں گی۔ اجلا س میں ایڈیشنل کمشنر کراچی ون غلام مہدی شاہ ایڈیشنل کمشنر ٹو، اسد اللہ کھوسو تمام ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنر ہیڈ کوارٹرز رابعہ سید، اسسٹنٹ کمشنر جنرل حاظم بھنگوار نے شرکت کی جبکہ تمام اسسٹنٹ کمشنرز نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اجلاس میں مختلف علاقوں میں ڈپٹی کمشنرز کو رہ جانے والے چائے خانوں اور روڈ سائیڈ ہوٹلوں کی نشاندہی کی گئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ ڈپٹی کمشنرز مہم جاری رکھیں گے۔ بتایاگیا کہ شہر میں مختلف علاقوں میں روڈ سائیڈاور فٹ پاتھوں پر قائم ہوٹلز اور چائے خانے بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ رہ جانے والے تمام روڈ سائیڈ چائے خانوں اور ریسٹورنٹس کے خلاف بلا رعایت کارروائی کی جائے گی۔ اسسٹنٹ کمشنر ہیڈ کوارٹرز رابعہ سید نے بند ہوٹلوں اور چائے خانوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع جنوبی میں ایک ہفتہ میں 22 مراکز بند کیے گئے جن میں سول لائن سب ڈویثر ن میں 12‘ گارڈن میں سات، صدر میں ایک اور رام باغ سب ڈویژن میں تین بند کیے گئے ہیں۔ ضلع شرقی میں 37 روڈ سائی چائے خانے اور ہوٹلز بند کیے گئے ہیں جن میں فیروز آباد سب ڈویژن میں 18‘ گلشن اقبال میں 13‘ گلزار ہجری میں چے بند کیے گئے۔ ضلع وسطی میں 74 ہوٹلز اور چائے خانے بند کیے گئے ہیں جن میں گلبر گ سب ڈویژن میں 29‘ ناظم آباد میں 17‘ نارتھ ناظم آباد میں 17 اور لیاقت آباد میں گیارہ بند کیے گئے ہیں۔ ضلع کورنگی میں 32‘ کورنگی میں 9‘ شاہ فیصل میں پانچ، ماڈل کالونی میں چار اور لانڈھی میں 14 بند کیے گئے ہیں جبکہ ضلع کیماڑی میں دو چائے خانے بند کیے گئے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیصلہ کیا گیا کہ بند کیے گئے ہیں چائے خانوں اور ڈپٹی کمشنرز ڈی سیل کرنے چائے خانے ہوٹلوں کو
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت چلتن گھی مل سے متعلق اہم اجلاس چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر انڈسٹریز سردار کوہیار خان ڈومکی، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریشن کوئٹہ میونسپل کارپوریشن سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں معاہدے کی خلاف ورزی پر نجی کمپنی کی لیز ختم کردی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کمپنی نے غیر قانونی طور پر مل پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ قابضین کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں، جبکہ کمپنی پر حکومت بلوچستان کے 23 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب الادا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ چلتن گھی مل کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لیا جائے اور قابضین کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سرکاری املاک پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ سرکاری اثاثے عوام کی امانت ہیں۔ ان پر نجی قبضے کسی قیمت پر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ سابق نجی کمپنی کے تمام قبضہ شدہ حصے واگزار کرائے جائیں۔ واجب الادا رقم کی فوری وصولی یقینی بنائی جائے اور اس ضمن میں غفلت برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔