متحدہ عرب امارات غزہ کیلیے عالمی استحکام فورس میں شامل نہیں ہوگا‘ صدارتی مشیر
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظبی (مانیٹرنگ ڈیسک) متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی حکومت عالمی استحکام فورس برائے غزہ میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتی، کیونکہ اس کے لیے کوئی واضح فریم ورک موجود نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق یو اے ای کے صدارتی مشیر انور گرگاش نے ابوظبی اسٹریٹجک ڈبیٹ فورم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یو اے ای اب تک اس استحکام فورس کے لیے کوئی واضح فریم ورک نہیں دیکھ رہا اور ایسی صورتِ حال میں ممکنہ طور پر اس فورس میں حصہ نہیں لے گا‘۔ امریکی ہم آہنگی میں قائم بین الاقوامی فورس میں امکان ہے کہ مصر، قطر اور ترکیہ کے فوجی بھی شامل ہوں، اور ساتھ ہی یو اے ای بھی شامل ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ فورس ’بہت جلد‘ غزہ میں پہنچ جائے گی، کیونکہ 2 سالہ جنگ کے بعد ایک نازک جنگ بندی قائم ہے۔ تیل سے مالامال یو اے ای چند عرب ممالک میں سے ایک ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ سرکاری تعلقات ہیں، جس نے 2020 میں ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران ابراہیم معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یو اے ای
پڑھیں:
عرفان صدیقی: پرائمری اسکول ٹیچر سے وزیراعظم کے مشیر اور سینیٹر تک کا سفر
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی مختصر علالت کے بعد اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔
منظر اسلام آباد کی ایک عدالت کا ہے جہاں جولائی 2019 کے مہینے میں سینیٹر عرفان صدیقی کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں اپنے ہتھکڑی لگے ہاتھوں میں قلم تھامے وہ اُسے لہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا اصل جُرم یہ ہے۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کے قریبی ساتھی سینیٹر عرفان صدیقی انتقال کرگئے
معاملہ سادہ سا تھا جس سے بعدازاں اُنہیں بری بھی کردیا گیا، الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنے گھر کا ایک حصّہ کرائے پر اُٹھانے سے پہلے پولیس کو مطلع نہیں کیا، عرفان صدیقی کے وکیل نے بتایا کہ جس مکان کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ عرفان صدیقی کا نہیں بلکہ اُن کے بیٹے کی ملکیت ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ نے اِس وضاحت کو ناکافی خیال کرتے ہوئے اُنہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا۔
قلم کاروں کے قلم کبھی اُنہیں اقتدار کے ایوانوں میں پذیرائی بخشتے ہیں اور کبھی زنداں کے سائے۔ معروف کالم نویس، سیاسی تجزیہ نگار، شاعر، اُستاد اور کئی کتابوں کے مصنّف عرفان صدیقی اِن دونوں مراحل سے گزرے۔
ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنا گوکہ پاکستان میں ایک عام سی بات ہے لیکن عرفان صدیقی جن کی ساری زندگی کتاب اور قلم کے ساتھ گُزری، جن کے شاگردوں کا حلقہ خاصہ وسیع ہے جب اُنہیں اُس وقت 70 سال کی عمر میں ایک مجہول سے الزام کے تحت ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا تو معاشرتی سطح پر اِسے اساتذہ کی تحقیر سے تعبیر کیا گیا۔
اِبتدائی زندگیعرفان صدیقی کا اصلی نام عرفان الحق صدیقی تھا لیکن وہ اپنے قلمی نام عرفان صدیقی کے نام سے زیادہ معروف اور جانے جاتے ہیں، اِس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے سینیٹ آف پاکستان کے رُکن اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے چیئرمین، کنوینیئر بھی ہیں۔
وہ راولپنڈی کے مضافاتی علاقے چک بیلی خان روڈ پر ایک گاؤں ڈھوک بُدہال میں 25 دسمبر 1949 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے ہی حاصل کی۔ بعدازاں اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
عملی زندگیعرفان صدیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور ایک پرائمری اِسکول ٹیچر سے کیا، بعد ازاں ترقی کر کے ہائی اسکول اور اُس کے بعد سرسیّد کالج راولپنڈی میں اُردو کے لیکچرر مقرر ہوئے۔
بطور اُستاد کیریئر کے ایک طویل عرصے کے بعد اُنہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور مختلف اخبارات میں کالم لکھنے شروع کئے۔ 1997 میں جب پاکستان مسلم لیگ نواز برسرِ اقتدار آئی تو عرفان صدیقی کو اُس وقت کے صدرِ مملکت رفیق تارڑ کا پریس سیکریٹری اور تقریر نویس مقرر کیا گیا جہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اُن کے تعلق کا آغاز ہوا۔
عرفان صدیقی کا خاندانی پس منظر
وہ ایک مڈل کلاس لیکن تعلیمی روایات کے حامل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیر صدیقی اُن کے ماموں زاد بھائی جبکہ جماعتِ اِسلامی کے سابق معروف رہنما کئی کتابوں کے مصنف نعیم صدیقی بھی اُن کے کزن تھے۔ عرفان صدیقی کے والد بھی اپنے دور کے اعتبار سے ایک عِلمی شخصیت تھے۔
اخلاقیات کے گدلے تالاب کا کنولوہ پاکستان کے سیاسی و فکری مباحثے میں اپنی نرم، نفیس اور باوقار تحریری اسلوب کے باعث منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کا شمار اُن لکھاریوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستانی صحافت کو وقار، شائستگی اور سنجیدگی بخشی۔
2011 سے پاکستانی سیاست میں پاکستان تحریک اِنصاف کی شمولیت اور اُس کے ساتھ دُشنام طرازی اور گالی گلوچ کے کلچر نے جنم لیا جو اِس سے پہلے کبھی اِتنی شدّت سے پاکستانی سیاست یا پاکستانی معاشرے کا حصّہ نہیں تھا۔
ایسے وقت میں کئی جیّد صحافی اُسی کلچر کا حِصّہ بن گئے۔ لیکن عرفان صدیقی اور اُن جیسے کردار کے حامل کئی لوگوں نے اُس کلچر سے اپنی برأت کا اظہار کیا، نہ صرف یہ کہ اُس میں شامل نہیں ہوئے بلکہ حتی المقدور اُس کی مزاحمت کرتے ہوئے وضع داری اور شائستگی کی روایت کو نہیں چھوڑا باوجود اِس کے کہ دُشنام طرازی اور گالم گلوچ کو بہت برداشت کیا۔
پھر 2018 میں جب پاکستان تحریک اِنصاف کی حکومت بنی تو اُنہیں ایک بے بنیاد مقدمے میں ہتھکڑیاں لگا کر سبق سِکھانے کی کوشش بھی کی گئی۔
علمی اور سیاسی خدماتسینیٹر عرفان صدیقی نے مئی 2024 میں اپنے اُردو کالموں کا مجموعہ پی ٹی آئی اینڈ پاکستان: فرام سائفر ٹو فائنل کال کتابی شکل میں شائع کیا۔ انہوں نے قومی نصاب کمیٹی تشکیل دی، تعلیمی اصلاحات پر کام کیا،علمی و فکری حلقوں سے حکومتی رابطے مضبوط کیے۔
مزید پڑھیں: سینیٹر عرفان صدیقی کی صحت بگڑ گئی، 27ویں آئینی ترمیم پر ووٹ نہیں ڈال سکیں گے
بعد ازاں انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سینیٹ آف پاکستان کا رکن (سینیٹر) منتخب کیا گیا۔ بطور سینیٹر وہ قومی قانون سازی، نصاب سازی اور سماجی پالیسی سے متعلق امور پر فعال ہیں۔ اُن کی خِدمات کے لئے اُنہیں پاکستان کا اعلٰی سویلین اعزاز ہلال امتیاز بھی دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انتقال عرفان صدیقی وی نیوز