data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251215-08-18

 

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئر مین پاکستان علماء کو نسل حافظ محمد طا ہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ اگر کو ئی فوج کے خلاف آواز اٹھا ئے گا تو ہم مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے پر یس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ جہاد کے میدان میں اگر ضرورت پڑی تو دفاع وطن، سلامتی و استحکام کیلیے مدارس ،محراب و منبر سمیت ہم حاضر ہیں۔ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ افغانستان کے علماء کی جانب سے اعلامیہ کو خوش آئند قرار دیتے ہیں، اب افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اعلامیہ پر عمل درآمد کرے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ،ہم چاہتے ہیں کہ خطہ میں امن آئے۔ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ملکی سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھیں اور ملک کو دفاع، معاشی و داخلی طوپر مضبوط بنانے کے لئے آپس میں بات چیت کریں۔ انہوں نے کہا کہ گالی گلوچ دینے والا فتنہ نہیں چاہتا کہ ملک میں امن آئے۔ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے مشائخ نے قرار دیا ہے کہ پر تشدد رویے قبول نہیں ، ہمارا مسئلہ ملک کو نظام مصطفی کی منزل تک پہنچانا ہے۔ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد جو لوگ ان پر حملہ آور ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مز ید کہا کہ ملک میں نظام خلافت راشدہ سیمینارز کا انعقاد کیاجائے گا۔

 

 

مانیٹرنگ ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ انہوں نے

پڑھیں:

جنرل (ر) باجوہ کیخلاف کوئی کیس نہیں، ججز، بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے، ذرائع

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے بعد بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف قانونی کارروائی کے امکان پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔

تاہم باخبر ذرائع نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف نہ تو کوئی تحقیقات ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی کارروائی زیرِ عمل ہے۔ذرائع نے کہا کہ بعض حلقوں میں پھیلائی جانے والی یہ چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں۔

ان کے مطابق فوجی احتساب کا وہ عمل جس کے نتیجے میں جنرل فیض کو سزا ہوئی، مکمل طور پر شواہد کی بنیاد پر تھا اور صرف ان کے انفرادی اقدامات تک محدود رہا، جبکہ اس کیس میں سابق آرمی چیف کو جوڑنے والا کوئی مواد موجود نہیں۔

اس کے برعکس ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے اپنے ایک سینئر افسر کے خلاف احتسابی عمل مکمل ہونے کے بعد توقعات بڑھ رہی ہیں کہ احتساب کا دائرہ فوجی شعبے سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔

ججز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور حتیٰ کہ میڈیا کے بعض افراد، جنہوں نے مبینہ طور پر ماضی میں سیاسی انجینئرنگ میں کردار ادا کیا یا آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا، آنے والے دنوں میں جانچ پڑتال کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا مؤقف فوجی ترجمان کی جانب سے سامنے آ چکا ہے۔

گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے جنرل فیض کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی سے متعلق سوالات کے جواب میں واضح کیا تھا کہ فوجی احتساب کا نظام شفاف ہے اور الزامات یا مفروضوں پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو جنرل فیض کیس کے سلسلے میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس سوال کو مفروضہ قرار دیا اور کہا کہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی قانون کے تحت اگر کوئی فرد، ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے ایسے شخص کو استعمال کرتا ہوا پایا جائے جو آرمی ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہو اور اس کے شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔

فوجی ترجمان سے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار کے کردار کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جو جنرل فیض کی تقرری اور ترقی سے متعلق تھا۔

اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دیا کہ ایسے شخص کے اقدامات کو دوسروں سے جوڑنا ناانصافی ہو گی جس نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور بعض سیاسی عناصر کے کہنے پر اپنی آئینی اور قانونی حدود کو عبور کیا۔ یہ بیانات اور جنرل باجوہ یا جنرل مختار کے خلاف کسی بھی ثبوت کی عدم موجودگی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنرل فیض کے معاملے میں سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کیس موجود نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہو رہا، تاہم فیض کے بعد کی صورتحال کو ایک وسیع تر احتسابی عمل کا دروازہ کھولنا چاہیے، جس کا مقصد ان سویلین اداروں کے افراد کو نشانہ بنانا ہو جو مبینہ طور پر ماضی میں غیر آئینی اقدامات کو سہولت فراہم کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوئے۔ ان کے بقول اس نوعیت کا احتساب اس لیے ضروری ہے تاکہ ذمہ داری کا تعین ہر سطح پر ہو اور اسے چنندہ انداز میں لاگو نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • فوج کیخلاف آواز پر مزاحمت کریں گے، دفاعِ وطن کے لیے تیار ہیں، حافظ طاہراشرفی
  • کوئی فوج کے خلاف آواز اٹھائے گا تو ہم مزاحمت کریں گے، حاظ طاہر اشرفی
  • مفاہمت کے راستے پر چلیں ورنہ ندامت کے سوا کچھ نہیں ملے گا، عمران اسماعیل کا پی ٹی آئی کا مشورہ
  • گالی، الزام اور فتوؤں سے مسائل حل نہیں ہوتے، محراب و منبر کی ذمہ داری پر غور ہونا چاہیے، مولانا طاہر محمود اشرفی
  • جنرل (ر) باجوہ کیخلاف کوئی کیس نہیں، ججز، بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے، ذرائع
  • افغانستان میں ایک ہزار علماء کی جانب سے افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے کے اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہیں، طاہر اشرفی
  • پاکستان کو اسلامی فلاحی‘ معتدل ریاست بنائیں گے: طاہر اشرفی کی اپیل پر علماء کا عزم
  • افغانستان سے باہر دہشتگردانہ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق افغان علما کے اعلامیے کا مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے خیر مقدم
  • حکومت کو آئینہ دکھانے پر تاجر کو زدوکوب کرنا شرمناک ہے، طاہر مجید