اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے بعد بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف قانونی کارروائی کے امکان پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔

تاہم باخبر ذرائع نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کے خلاف نہ تو کوئی تحقیقات ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی کارروائی زیرِ عمل ہے۔ذرائع نے کہا کہ بعض حلقوں میں پھیلائی جانے والی یہ چہ مگوئیاں بے بنیاد ہیں۔

ان کے مطابق فوجی احتساب کا وہ عمل جس کے نتیجے میں جنرل فیض کو سزا ہوئی، مکمل طور پر شواہد کی بنیاد پر تھا اور صرف ان کے انفرادی اقدامات تک محدود رہا، جبکہ اس کیس میں سابق آرمی چیف کو جوڑنے والا کوئی مواد موجود نہیں۔

اس کے برعکس ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے اپنے ایک سینئر افسر کے خلاف احتسابی عمل مکمل ہونے کے بعد توقعات بڑھ رہی ہیں کہ احتساب کا دائرہ فوجی شعبے سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔

ججز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور حتیٰ کہ میڈیا کے بعض افراد، جنہوں نے مبینہ طور پر ماضی میں سیاسی انجینئرنگ میں کردار ادا کیا یا آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا، آنے والے دنوں میں جانچ پڑتال کی زد میں آ سکتے ہیں۔

اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا مؤقف فوجی ترجمان کی جانب سے سامنے آ چکا ہے۔

گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے جنرل فیض کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی کارروائی سے متعلق سوالات کے جواب میں واضح کیا تھا کہ فوجی احتساب کا نظام شفاف ہے اور الزامات یا مفروضوں پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو جنرل فیض کیس کے سلسلے میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس سوال کو مفروضہ قرار دیا اور کہا کہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی قانون کے تحت اگر کوئی فرد، ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے ایسے شخص کو استعمال کرتا ہوا پایا جائے جو آرمی ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہو اور اس کے شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔

فوجی ترجمان سے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار کے کردار کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جو جنرل فیض کی تقرری اور ترقی سے متعلق تھا۔

اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دیا کہ ایسے شخص کے اقدامات کو دوسروں سے جوڑنا ناانصافی ہو گی جس نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور بعض سیاسی عناصر کے کہنے پر اپنی آئینی اور قانونی حدود کو عبور کیا۔ یہ بیانات اور جنرل باجوہ یا جنرل مختار کے خلاف کسی بھی ثبوت کی عدم موجودگی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنرل فیض کے معاملے میں سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کیس موجود نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنرل باجوہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہو رہا، تاہم فیض کے بعد کی صورتحال کو ایک وسیع تر احتسابی عمل کا دروازہ کھولنا چاہیے، جس کا مقصد ان سویلین اداروں کے افراد کو نشانہ بنانا ہو جو مبینہ طور پر ماضی میں غیر آئینی اقدامات کو سہولت فراہم کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوئے۔ ان کے بقول اس نوعیت کا احتساب اس لیے ضروری ہے تاکہ ذمہ داری کا تعین ہر سطح پر ہو اور اسے چنندہ انداز میں لاگو نہ کیا جائے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سابق ا رمی چیف ڈی جی ا ئی ایس جنرل باجوہ جنرل فیض کے خلاف

پڑھیں:

افغان سرزمین سے سرحد پار حملے کرنیوالوں کیخلاف کارروائی ہوگی،وزیر خارجہ

اسلامی امارت کی قیادت کسی کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے گی، امیر خان متقی
جو بھی افغان اس ہدایت کی خلاف ورزی کریگا، اس کیخلاف اسلامی امارت کارروائی کر سکتی ہے،کابل میں تقریب سے خطاب

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے اور جو کوئی بھی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔کابل میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے علما کی جانب سے ایک روز قبل متفقہ طور پر منظور کی گئی ایک پانچ نکاتی قرارداد کی توثیق کی۔کابل یونیورسٹی میں افغانستان کے 34 صوبوں سے جمع ہونے والے سینکڑوں علمائے نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں موجودہ نظام کی حمایت، علاقائی سالمیت کے دفاع، افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے، افغانوں کی بیرونِ ملک عسکری سرگرمیوں میں شمولیت کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا گیا تھا۔امیر خان متقی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، علما کے فتوے کی بنیاد پر افغان قیادت اپنی سرزمین سے کسی کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دیتی۔افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی امارت کی قیادت کسی کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے گی، لہٰذا جو بھی افغان اس ہدایت کی خلاف ورزی کرے گا، علما کے مطابق اس کے خلاف اسلامی امارت کارروائی کر سکتی ہے۔اگرچہ امیر خان متقی نے کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم عام خیال یہی ہے کہ یہاں مراد پڑوسی ملک پاکستان ہے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین رواں برس اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سے تناؤ کی کیفیت ہے، پاکستان کا اصرار ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند سرحد پار حملے کرتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے دوحہ اور اس کے بعد استبول میں مذاکرات کے بعد اگرچہ دوحہ اور ترکی کی ثالثی سے امن پر عارضی طور پر اتفاق ہوا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے دوطرفہ تجارت رکی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سابق آرمی چیف قمرباجوہ نے فیض حمید سےکہا رانا بہت موٹا ہوگیا، اسے دوبارہ اسمارٹ بناؤ، مشیر وزیر اعظم
  • باجوہ نے کہا رانا بہت موٹے ہوگئے ہو، جیل میں تھے تو بہت سمارٹ تھے، فیض رانا کو پھر سمارٹ بناؤ: رانا ثناء اللہ
  • جنرل فیض حمید کیس: سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کلیئر ؟
  • باجوہ نے کہا رانا بہت موٹے ہوگئے ہو، جیل میں تھے تو بہت اسمارٹ تھے، فیض رانا کو پھر اسمارٹ بناؤ: رانا ثناء اللہ
  • جنرل (ر) باجوہ کے خلاف نہ تو کوئی تحقیقات ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی کارروائی زیرِ عمل ہے, انصار عباسی کا ذرائع کے حوالے سے دعویٰ 
  • افغان سرزمین سے سرحد پار حملے کرنیوالوں کیخلاف کارروائی ہوگی،وزیر خارجہ
  • قوم برسوں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی، وزیر دفاع۔ ساتھ دینے والے سیاستدانوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے، رانا ثناء اللہ
  • فیض حمید اب عمران خان کے خلاف گواہی دینے جارہے ہیں: سینیٹر فیصل واوڈا
  • فیض حمید 9 مئی کیسز میں عمران خان کے خلاف گواہی اور شواہد دیں گے، جنرل باجوہ کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، فیصل واوڈا