جنرل فیض حمید کیس: سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کلیئر ؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے بعد بعض سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی سے متعلق قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں، تاہم باخبر ذرائع نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف نہ تو کسی قسم کی انکوائری جاری ہے اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی زیر غور ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فیض حمید کے بعد جنرل باجوہ کی باری آگئی؟ علی امین گنڈاپور کی پی ٹی آئی سے چھٹی
ذرائع کے مطابق بعض حلقوں میں پھیلائی جانے والی افواہیں محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کے اندر احتسابی عمل، جس کے نتیجے میں جنرل (ر) فیض حمید کو سزا سنائی گئی، مکمل طور پر شواہد پر مبنی تھا اور یہ کارروائی صرف انفرادی اقدامات تک محدود رہی۔ اس کیس میں ایسا کوئی مواد سامنے نہیں آیا جو سابق آرمی چیف کو اس معاملے سے جوڑتا ہو۔
رپورٹ کے مطابق فوجی قیادت کے ایک سینیئر افسر کے خلاف احتسابی عمل مکمل ہونے کے بعد اب توقع کی جا رہی ہے کہ احتساب کا دائرہ عسکری حدود سے نکل کر سول اداروں تک بھی پھیل سکتا ہے۔
انصار عباسی کے مطابق ماضی میں سیاسی انجینئرنگ یا آئینی حدود سے تجاوز کرنے والے ججز، بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور بعض میڈیا شخصیات بھی مستقبل میں جانچ پڑتال کی زد میں آ سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اقتدار کے لیے ’ولدیت کے خانے میں جنرل باجوہ کا نام لکھنے والے‘ پاکدامنی پر لیکچر دے رہے ہیں، خواجہ آصف
اسی مؤقف کا اظہار اس سے قبل فوج کے ترجمان بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا تھا کہ فوج کا احتسابی نظام شفاف ہے اور الزامات یا مفروضوں کے بجائے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی فرد کے ذاتی مفادات یا سیاسی عناصر کے کہنے پر آئینی اور قانونی حدود عبور کرنے کے عمل کو دوسروں سے جوڑنا ناانصافی ہوگی۔ ان بیانات اور شواہد کی عدم موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف فیض حمید کیس میں کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں۔
سینیئر صھافی انصار عباسی کے مطابق اگرچہ سابق آرمی چیف کے خلاف کوئی کارروائی زیر غور نہیں، تاہم فیض حمید کیس کے بعد ایک جامع اور غیر جانبدار احتسابی عمل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے تاکہ ماضی میں غیر آئینی اقدامات سے فائدہ اٹھانے والوں کا تعین کیا جا سکے اور احتساب سب کے لیے یکساں ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سابق آرمی چیف فیض حمید کی کے مطابق کے خلاف کے بعد
پڑھیں:
سابق لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اپنی سزا معافی کی درخواست کس سے کر سکتے ہیں؟
سابق لیفٹننٹ جنرل اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو طویل قانونی کارروائی کے بعد گزشتہ روز 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
سابق لیفٹننٹ جنرل کو سزا سنائے جانے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فیض حمید اپنی سزا سے متعلق کس سے درخواست کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید آرمی چیف سے سزا معافی کی درخواست کر سکتے ہیں تاہم آرمی چیف نے سزا معاف نہ کی تو فیض حمید ہائیکورٹ میں سزا کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس کے مطابق ملزم پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ریاست کے تحفظ اور مفاد کے لیے نقصان دہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور لوگوں کو غلط طریقے سے نقصان پہنچانے سے متعلق چار الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق طویل قانونی کارروائی کے بعد، ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار پایا گیا، عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی جو 11 دسمبر 2025 کو سنائی گئی۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی تعمیل کی، ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم کے حقوق سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے تھے، مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے فیض حمید کو 14سال قید بامشقت سنائی۔