لاہور: ڈی ایس پی کے ہاتھوں بیوی اور بیٹی کے قتل کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
لاہور:
ڈی ایس پی عثمان حیدر کی جانب سے اپنی بیوی اور بیٹی کے بہیمانہ قتل کی دل دہلا دینے والی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔
انویسٹی گیشن ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ذیشان رضا نے دو روز قبل اس سنگین مقدمے کی تحقیقات ایس پی انویسٹی گیشن ماڈل ٹاؤن ڈاکٹر ایاز کے سپرد کی تھیں جس کے بعد ایس پی ماڈل ٹاؤن کی سربراہی میں خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔
تحقیقات کے دوران خصوصی ٹیم نے دوہرے قتل کے واقعے کو ٹریس کر لیا۔ انویسٹی گیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی عثمان حیدر نے اپنی بیوی اور بیٹی کو اپنی ہی گاڑی میں قتل کیا۔ وقوعے کے وقت بیوی گاڑی کی فرنٹ سیٹ جبکہ بیٹی بیک سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ واقعہ رنگ روڈ کے مقام پر پیش آیا۔
ذرائع کے مطابق ملزم نے قتل کے بعد پہلے اپنی بیوی کی لاش کو دفنایا جبکہ بعد ازاں بیٹی کی لاش کاہنہ کے علاقے میلہ رام میں چھپا دی۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈی ایس پی عثمان حیدر نے 25 ستمبر کو اپنی بیوی اور بیٹی کو قتل کیا تھا۔
دوہرے قتل کے بعد ملزم نے اپنی گاڑی کو مکمل طور پر صاف کیا اور شواہد مٹانے کی کوشش کی۔ انویسٹی گیشن ذرائع کے مطابق ملزم کا مؤقف ہے کہ اس کی بیوی اور بیٹی اس سے پلاٹ لینے سمیت دیگر مالی مطالبات کر رہی تھیں۔ ملزم کے مطابق اس کے پاس موجود رقم بہن بھائیوں کی شادیوں پر خرچ ہو چکی تھی، جس پر گھریلو تنازع شدت اختیار کر گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیوی اور بیٹی کے مسلسل مطالبات پر طیش میں آ کر ملزم نے دونوں کو قتل کر دیا۔ قتل کے بعد ملزم تقریباً دو ماہ تک پولیس ٹیموں کو چکر دیتا رہا اور خود ہی بیوی اور بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کروایا تاکہ شک اس پر نہ جائے۔
تحقیقات کے دوران جائے وقوعہ میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی برآمد کر لی گئی ہے جس سے خون کے نمونے اور دیگر اہم شواہد حاصل ہوئے ہیں۔ شواہد سامنے رکھے جانے پر ملزم زیادہ دیر پولیس کو گمراہ نہ کر سکا اور بالآخر اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔
پولیس حکام کے مطابق مزید قانونی کارروائی جاری ہے جبکہ مقدمے کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیوی اور بیٹی کے انویسٹی گیشن اپنی بیوی ڈی ایس پی کے مطابق قتل کے قتل کی کے بعد
پڑھیں:
گلگت بلتستان کی نگران کابینہ کی تشکیل میں غیر معمولی تاخیر کی اصل وجہ کیا ہے؟ اندرونی کہانی
ذرائع نے مزید بتایا کہ ایک موقع پر نگران وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دیدی۔ کئی من پسند شخصیات کو نگران کابینہ میں "ہر صورت" شامل کرنے کے دباؤ پر نگران وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں چند ماہ کیلئے آیا ہوں، اور ان چند مہینوں میں خود کو متنازعہ بنا کر گھر جانا ہرگز پسند نہیں کروں گا۔ اسلام ٹائمز۔ 18 روز گزرنے کے باؤجود بھی گلگت بلتستان کی نگران کابینہ نہ بن سکی۔ گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو نگران وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) یار محمد نے حلف اٹھا لیا تھا، تب سے اب تک اٹھارہ روز گزر چکے لیکن نگران کابینہ کی تشکیل نہ ہو سکی۔ ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ مختلف اداروں کے مابین اختلافات اور نگران وزیر اعلیٰ کی جانب سے کسی بھی قسم کے دباؤ کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اظہار نگران کابینہ کی تشکیل میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ بن گیا ہے۔ مختلف حلقوں سے درجنوں نام وزیر اعلیٰ کے سامنے پیش کیے گئے تھے، بعض نام ایسے بھ تھے جن کی تائید مختلف اداروں کی جانب سے کی گئی تھی۔ تاہم وزیر اعلیٰ نے کئی ایسے ناموں کو یکسر مسترد کر دیا جن کے حوالے سے بڑی سفارشیں سامنے آئی تھیں۔
ذرائع کے مطابق گلگت میں کم از کم دو ایسے افراد کے نام بھی دئیے گئے تھے جن کا سیاسی و مذہبی جماعت کے ساتھ تعلق ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے ان دونوں ناموں پر اعتراض کیا تو انہیں بتایا گیا گو کہ ان دونوں افراد کا تعلق سیاسی و مذہبی جماعت سے ہے تاہم گلگت کے مخصوص حالات میں خصوصاً امن کے قیام اور جرگوں کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کیلئے یہ دونوں شخصیات اہم کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ اگر اس طرح کے لوگ سسٹم میں شامل نہ ہوں تو کسی بھی ہنگامی حالات میں معاملات کو کون سنبھالے گا؟ دیامر سے ایک اور نام بھی نگران وزیر اعلیٰ کیلئے دیا گیا تھا جو کہ حاجی گلبر خان کی سابق حکومت میں اہم عہدے پر فائض رہے ہیں تاہم وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نے اس شخص کو کابینہ میں لینے سے واضح انکار کیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ایک موقع پر نگران وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دیدی۔ کئی من پسند شخصیات کو نگران کابینہ میں "ہر صورت" شامل کرنے کے دباؤ پر نگران وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں چند ماہ کیلئے آیا ہوں، اور ان چند مہینوں میں خود کو متنازعہ بنا کر گھر جانا ہرگز پسند نہیں کروں گا۔ ذرائع کے مطابق ابتدا میں 73 ناموں کی فہرست سامنے آئی تھی، بعد میں سکروٹنی کر کے 35 تک لایا گیا۔ تاہم وزیر اعلیٰ کی جانب سے سٹینڈ لینے کے بعد نگران کابینہ کی تشکیل کا معاملہ مزید الجھ گیا۔ دریں اثناء گزشتہ دنوں سامنے آنے والی بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پیر یا منگل کے روز تک نگران کابینہ کا اعلان متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ کے معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔