Express News:
2025-06-10@23:54:43 GMT

جُھوٹ کی تباہ کاریاں

اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT

سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا اَن جانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کردیتا ہے، لڑائی، جھگڑا اور خون خرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے۔

 کبھی تو بڑے فسادات کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

جھوٹ کیا ہے؟

لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں ’’کذب‘‘ کہتے ہیں۔ خلافِ واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔(المصباح المنیر)

 اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گناہ گار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہِ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا، ورنہ تو گناہِ صغیرہ ہوگا۔

قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام:

ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل درآمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔‘‘

انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اﷲ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اﷲ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘ یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ہر ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر بولتا ہے، جس سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اﷲ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ کا وبال کہاں تک پہنچے گا؟ اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ ‘‘ (ابن کثیر)

جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اﷲ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: مفہوم: ’’لعنت کریں اﷲ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘

حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت:

جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اﷲ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔ مفہوم: ’’حضرت صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں: اﷲ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ نہیں‘‘ (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔

ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول کریم ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، مفہوم: ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکا دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔‘‘

مفہوم: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔‘‘

مفہوم: ’’یقیناً! جھوٹ بُرائی کی راہ نمائی کرتا ہے اور بُرائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اﷲ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘

مفہوم: ’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘

’’حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بار فرمایا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اﷲ کے رسول ﷺ!۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی۔‘‘ (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔

صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفہوم: ’’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘

جھوٹ بولنا حرام ہے:

شریعتِ مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مفہوم: ’’پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘

ارشادِ خداوندی کا مفہوم ہے: ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اﷲ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلاشبہ! جو لوگ اﷲ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘

چند مواقع پر جھوٹ کی اجازت:

شخ الاسلام ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نوویؒ اپنی مشہور کتاب: ’’ریاض الصّالحین‘‘ میں ’’باب بیان ما یجوز من الکذب‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں:

’’آپ جان لیں کہ جھوٹ اگرچہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (تک حصول) کا وسیلہ ہے، لہٰذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا ’’مباح‘‘ ہے، تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے۔

چناں چہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص اس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟) تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے، تو یہاں بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔

زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’توریہ ‘‘ اختیار کیا جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سے ایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص ’’توریہ‘‘ سے کام لینے کے بہ جائے صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تو یہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے۔‘‘

جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے:

مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لہٰذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اﷲ رب العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے، مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔

حرفِ آخر:

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّعمل نہ دیں۔

اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکار دیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’نبی اکرم ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چناں چہ آپؐ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپؐ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپؐ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اﷲ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔‘‘

(مسند احمد، بہ حوالہ احیاء العلوم)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اﷲ کے رسول ﷺ اﷲ تعالی حرام ہے کا سبب بات کی اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

یہ ظلم کب تک ؟

ثناء یوسف اب نہیں رہی، وہ ایک نوجوان ٹک ٹاکر تھی۔ خوبصورت، زندہ دل خوابوں سے بھری ہوئی آنکھیں لیے سوشل میڈیا کی چکا چوند دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی تگ و دو میں مصروف۔ مگر اب وہ صرف ایک خبر ہے، ایک لاش، ایک شمار میں اضافہ جو روز بڑھتا ہے، وہ خواتین جو مار دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات عزت کے نام پر، بعض اوقات نہیں کہنے پر،کبھی انکار پر،کبھی شک پر اور اکثر تو صرف اس لیے کہ وہ عورت تھیں۔

ثناء کی کہانی وہ کہانی ہے جو اس سرزمین کی ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ مگر ہر بار ہم سنتے ہیں دل تھوڑا دکھتا ہے ،کچھ دن اخبارات میں شور اٹھتا ہے اور پھر خاموشی سناٹا اور قاتلوں کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مردوں کی انا عورتوں کے لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ جہاں نہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک گناہ ہے، ایک سزا ہے جس کی قیمت جان سے چکانی پڑتی ہے۔

ثناء کا جرم کیا تھا؟ کہ اس نے ایک رشتے، ایک مرد ، ایک رویے کو نہ کہا؟ یا یہ کہ وہ خود کو اپنی شرائط پر جینے کی کوشش کر رہی تھی؟ جو بھی تھا اس کا فیصلہ گولی سے ہوا۔ اس کی زندگی جو شاید کسی کے لیے بے معنی تھی لیکن اس کی ماں بہن دوست یا اس کے خود کے خوابوں کے لیے قیمتی ترین بیدردی سے چھین لی گئی۔

ثناء یوسف، قندیل بلوچ کی یاد دلاتی ہے۔ قندیل جو مذہبی منافقتوں، سماجی دوغلے پن اور مردانہ اقدارکی دیواروں پر ناخوشگوار مگر سچائی سے بھرے آئینے لٹکا رہی تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، عزت کے نام پر اس کا بھائی جو خاندان کی عزت بچانے آیا تھا، دراصل اپنی مردانگی کے زخم چاٹ رہا تھا جو قندیل کی بیباکی اور خود اختیاری سے خوفزدہ تھا۔

قندیل ہو یا ثناء سب عورتیں ایک ہی جرم کی سزا وار ٹھہرتی ہیں، خود کو انسان سمجھنے کا جرم خود کو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے کا جرم۔ یہی جرم خدیجہ صدیقی کا بھی تھا جسے لاہورکی ایک سڑک پر چاقو سے 23 دفعہ وار کیا گیا اس لیے کہ اس نے جنسی طور پر ہراساں کرنے والے ایک بااثر شخص کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ زندہ رہی مگر اس کی روح پرکتنے زخم ثبت ہوئے کون جانتا ہے۔

اسی طرح نور مقدم جس کا قصہ کوئی پرانی کہانی نہیں بلکہ جدید پاکستان کے طاقتور اشرافیہ کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نور کا سر قلم کر دیا گیا اور قاتل کی آنکھوں میں شرمندگی نہیں بلکہ تکبر تھا۔ جیسے کہ کہہ رہا ہو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور واقعی یہ ملک ایک ایسی پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں طاقتور مرد عورت کو قتل کرنے کے بعد بھی فخر سے سر بلند رکھتے ہیں، جہاں قانون انصاف سے پہلے رشتے داری، دولت اور اثر و رسوخ کو پہچانتا ہے۔

اگر ہم تھوڑا اور پیچھے جائیں تو ہمارے حافظے میں مختاراں مائی کا دکھ اب تک تازہ ہے جو گاؤں کے مردوں کی اجتماعی ہوس کا نشانہ بنی اور پھر بھی کھڑی رہی۔ اس نے اپنی آواز نہ صرف بلند کی بلکہ ریاست کے ایوانوں تک پہنچائی۔ مگر اس کی جنگ آسان نہ تھی، اسے خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اس پر انگلیاں اٹھیں مگر وہ ٹوٹی نہیں۔

اور پھر ایک اور نام آتا ہے سبین محمود جو کراچی میں روشن خیالی مکالمے اور سوچ کی آزادی کی علامت تھی۔ اسے بھی مار دیا گیا، اس لیے کہ وہ بولتی تھی اور عورت جب بولتی ہے، سوال اٹھاتی ہے تو خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ سب کہانیاں اس معاشرے کے بدنما چہرے پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہم عورتوں کو عزت کے مقام پر بٹھانے کی بات کرتے ہیں مگر جب وہ جینے کا سانس لینے کا محبت کرنے کا انکارکرنے کا یا صرف نہیں کہنے کا حق مانگتی ہیں تو انھیں دفن کر دیا جاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ پدرشاہی نظام کی گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں عورت صرف تب تک قابل قبول ہے جب وہ اطاعت گزار ہو خاموش ہو سجی سنوری ہو مرد کے لیے باعث زینت ہو۔ جیسے ہی وہ سوال کرتی ہے مزاحمت کرتی ہے اپنی حدود خود طے کرتی ہے وہ خطرہ بن جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ مرد روتے ہیں کہ اب مردوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے کہ عورتیں حد سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ روز نئی ثناء نئی قندیل، نئی نور، نئی زینب قتل کی جا رہی ہے۔ زینب کو کون بھولا ہے؟ وہ معصوم بچی جو قصور کی گلیوں سے اغوا ہوئی، ریپ کا نشانہ بنی اور اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔

ریپ اور قتل کے یہ واقعات صرف جرم نہیں یہ ہمارے سماج کی شکست ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کا آئینہ ہے۔اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف بیوی، بیٹی، بہن نہیں، انسان بھی ہیں اور لڑکوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عورت ان کی ملکیت نہیں بلکہ برابری کی حقدار ہے۔

ہمیں ریاست سے انصاف مانگنا ہے مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرکا سماج بھی بدلنا ہو گا۔ جب تک ہم اپنے گھروں میں بیٹی کو کم اور بیٹے کو برتر سمجھتے رہیں گے جب تک ہم عورت کی عزت گھر کی چار دیواری میں جیسے جھوٹے نظریات کو سینے سے لگائے رکھیں گے، تب تک ثناء یوسف، نور مقدم، قندیل بلوچ، زینب، خدیجہ، مختاراں، سبین سب کی قبریں ہمارے ضمیر پر سوال اٹھاتی رہیں گی۔

ثناء کی ماں کو انصاف چاہیے، مگر انصاف صرف اس کے قاتل کو پھانسی دینے سے نہیں ہوگا، انصاف تب ہوگا جب ہر لڑکی نہیں کہنے کا حق لے سکے اور وہ حق اس کی موت نہ بنے۔

ہمیں ثناء کے لیے آواز بلند کرنی ہے کیونکہ وہ خاموش کردی گئی۔ ہمیں اس کے لیے چیخنا ہوگا کیونکہ اس کا گلا گھونٹا گیا۔ ہمیں لکھنا ہوگا، بولنا ہو گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا، کیونکہ عورت کی جان عزت رائے خواب اور انکار سب کچھ قیمتی ہے۔ثناء صرف ایک نام نہیں وہ ہر وہ لڑکی ہے جو اپنے لیے جینا چاہتی ہے جو نہیں کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے اور جو جانتی ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ایک مکمل انسان ہے۔لیکن سوال یہ ہے کیا ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم ایک اور ثناء کے مرنے کا انتظارکریں گے؟

متعلقہ مضامین

  • یہ ظلم کب تک ؟
  • امریکی ریاست ٹینیسی میں طیارہ گرکر تباہ‘کئی افراد زخمی
  • ؓؓؓؓ(ؓبلدیاتی اداروں کی غفلت )280 پارک اور کھیل کے میدان تباہ
  • نریندر مودی کو جھوٹ بولنے کا نوبل انعام ملنا چاہیئے، سنجے راوت
  • مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں بھارت کی جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو تباہ کیا، کانگریس
  • ٹینیسی میں 20 افراد سے بھرا اسکائی ڈائیونگ طیارہ تباہ
  • ریا چکرورتی کی وجہ سے بھائی کا کریئر کیسے تباہ ہوا؟
  • کراچی، لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں فیکٹریوں میں آگ تاحال بجھ نہ سکی، ایک فیکٹری مکمل تباہ
  • کراچی، لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں فیکٹریوں میں آگ بدستور جاری، ایک فیکٹری مکمل تباہ
  • خیبرپختونخوا میں طوفانی بارش، ژالہ باری اور سیلاب کی تباہ کاریاں