عمر بن العزیزؒغصب شدہ اموال کی واپسی
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
عمر بن عبدالعزیزؒ نے نہ صرف علاقے اور جاگیریں چھین کر بنی اْمیہ کو تہی دست کردیا، بلکہ ان کے سارے امتیازت مٹا کر اْن کے نخوت و غرور کو خاک میں ملا دیا۔ آپ کے اس اقدام سے خاندان میں ان کے خلاف سخت برہمی پھیل گئی اور اْنھوں نے ہر طریقے سے پوری کوشش کی کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو اصلاحی تحریک چلائی ہے اس کو ختم کیا جائے۔ اہل خاندان نے ایک دفعہ آپ سے کہا تھا کہ آپ نے جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ہم اس پر راضی نہیں ہیں اور ہم کسی بھی صورت میں اپنی جاگیریں واپس نہیں کریں گے، اور نہ مال آپ کو واپس دیں گے۔ ان کے جواب میں عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ میں آپ سے تمام غصب شدہ مال واپس لے کر ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرکے رہوں گا‘‘۔
خاندان بنی امیہ نے کوشش جاری رکھی کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو تحریک چلائی ہے اس سے دست بردار ہوجائیں۔ چنانچہ عمر بن عبدالولید بن عبدالملک نے آپ کو ایک خط لکھا:
’’تم نے گذشتہ خلفا پر عیب لگایا ہے اور ان کی اولاد کی دشمنی سے ان کے مخالف روش اختیار کی ہے۔ تم نے قریش کی دولت اور ان کی میراث کو ظلم و عدوان سے بیت المال میں داخل کرکے قطع رحم کیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز! خدا سے ڈرو اور اس کا خیال کرو کہ تم نے ظلم کیا۔ تم نے منبر پر بیٹھنے کے ساتھ ہی اپنے خاندان کو ظلم و جور کے لیے مخصوص کرلیا۔ اس خدا کی قسم! جس نے حضرت محمدؐ کو بہت سی خصوصیات کے ساتھ مختص کیا! تم اپنی اس حکومت میں جس کو تم مصیبت کہتے ہو، خدا سے بہت دْور ہوگئے۔ اپنی خواہشات کو روکو اور یقین کرو کہ تم اس حالت میں چھوڑے نہیں جا سکتے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ اگر چہ سراپا حلم تھے، لیکن آپ نے بھی اس کا سخت جواب لکھا:
’’مجھے تمھارا خط ملا اور جیسا تم نے لکھا ہے میں ویسا ہی جواب دوں گا۔ تم ایک معاند اور ظالم ہو۔ تمھارا خیال ہے کہ میں ظالموں میں سے ہوں، میں نے تم کو اور تمھارے خاندان کو خدا کے مال سے جس میں اہل قربیٰ، مساکین اور بیواؤں کا حق ہے محروم کر دیا؟ لیکن مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ خدا کے عہد کو چھوڑ دینے والا وہ شخص ہے جس نے تم کو بچپن اور کمینے پن کی حالت میں مسلمانوں کی ایک چھاؤنی کا افسر مقرر کیا۔ اور تم اپنی راے کے موافق ان کے معاملات کا فیصلہ کرتے رہے۔ پس پھٹکار ہو تجھ پر اور پھٹکار ہو تیرے باپ پر، جو اپنے مدعیوں سے کیوں کر نجات پائے گا۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے حجاج کو عرب کے خمس پر مقرر کیا۔ جو حرام خون بہاتا تھا اور حرام مال لیتا تھا۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے کیا ہوا عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے قرۃ بن شریک جیسے اْجڈ بدو کو مصر کا عامل مقرر کیا۔ جس نے راگ باجا، لہوو لعب اور شراب خوری کی اجازت دی۔ مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ اللہ سے عہد چھوڑنے والا وہ شخص ہے، جس نے عر ب کے خمس میں عالیہ بربریہ کا حصہ مقر رکیا۔
اگر مجھ کو فرصت ہوتی تو میں تجھے اور تیرے خاندان کو روشن راستے پر لاتا۔ ہم نے مدتوں سے حق کو چھوڑدیا۔ اگر تم فروخت کیے جاؤ اور تمھاری قیمت یتیموں، مسکینوں، اور بیواؤں پر تقسیم کی جائے تو کافی نہ ہوگی کیوںکہ تم پر سب کا حق ہے۔ ہم پر سلام ہو، اور خدا کا سلام ظالموں کو نہیں پہنچتا‘‘۔ (سیرت عمر بن عبدالعزیز، ابن جوزی، ص 112)
عمر بن عبدالعزیزؒ نے جو تحریک چلائی تھی اس پر وہ سختی سے عمل پیرا تھے۔ مروان نے ایک بار ہشام بن عبدالملک کو اپنا وکیل بنا کر عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس بھیجا، اور انھیں کہا کہ آپ عمر بن عبدالعزیز سے کہیں کہ اْنھوں نے جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کو بند کریں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے آپ سے آکر کہا: ’’اے امیر المومنین! میں آپ کی خدمت میں تمام خاندان کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں۔ اور ان کا مطالبہ ہے کہ جو چاہے کیجیے لیکن گذشتہ خلفا جو کرگئے ہیں، اس کو اسی حالت میں رہنے دیجیے‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس کے جواب میں ہشام بن عبدالملک سے پوچھا: ’’تمھارے پاس دو دستاویز ہوں۔ ایک سیدنا معاویہؒ کی اور دوسری عبدالملک کی، تو تم دونوں میں کس پر عمل کرو گے؟‘‘ہشام نے کہا: ’’جو مقدم ہوگی‘‘۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: ’’تو میں نے کتاب اللہ کو سب سے مقدم دستاویز پایا ہے۔ اس لیے ہر اس چیز میں جو میرے اختیار میں ہے، خواہ وہ میرے زمانے کی ہو یا گذشتہ زمانے سے متعلق ہو، اسی کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔ (ایضاً، ص 119)
جب بنی مروان کی کوئی تدبیر کار گرنہ ہوئی تو انھوں نے آخری حربہ استعمال کیا، اور آپ کی پھوپھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ وہ آئیں اور عمر بن عبدالعزیزؒ سے کہا کہ ’’عمر! تمھارے اعزہ واقارب شکایت کرتے اور کہتے ہیں کہ تم نے ان سے غیر کی دی ہوئی روٹی چھین لی‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا: ’’میں نے ان کا کوئی حق نہیں چھینا‘‘۔
پھوپھی نے جواب دیا: ’’سب لوگ اس کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ تمھارے خلاف بغاوت نہ کر دیں‘‘۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ’’اگر میں قیامت کے سوا کسی دن سے ڈروں تو اللہ مجھے اس کی برائیوں سے نہ بچائے‘‘۔
اس کے بعد ایک اشرفی، گوشت کا ایک ٹکڑا اور ایک انگیٹھی منگوائی اور اشرفی کو آگ میں ڈال دیا۔ جب وہ خوب سرخ ہوگئی تو اس کو اْٹھا کر گوشت کے ٹکڑے پر رکھ دیا، جس سے وہ بھن گیا۔ اب پھوپھی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اپنے بھتیجے کے لیے کیا اس قسم کے عذاب سے پناہ نہیں مانگتیں؟‘‘ پھوپھی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور خاموشی سے اْٹھ کر چلی گئیں۔
بنی مروان، عمر بن عبدالعزیزؒ کے اس عملی اقدام سے سخت ناراض تھے اور انھوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن ان سب مخالفتوں کا اثر عمر بن عبدالعزیز نے قبول نہ کیا اور اْنھوں نے جو تحریک اٹھائی، اس کو مکمل کر کے چھوڑا۔ تاہم، آپ نے مختلف اخلاقی طریقوں سے اپنے خاندان کی ناراضی کو کم کیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مجھ سے زیادہ ظالم اور مجھ سے زیادہ عمر بن عبدالعزیز بن عبدالملک اور ان
پڑھیں:
ایران میں جوہری معائنہ کاروں کی واپسی مفاہمت کی جیت، رافائل گروسی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی نے کہا ہے کہ ایران میں ادارے کے معائنہ کاروں کی واپسی اور تنصیبات پر حفاظتی انتظامات کی بحالی سے ملک کے جوہری مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاہدوں اور مفاہمت میں مدد ملے گی۔
'آئی اے ای اے' کی جنرل کانفرنس کے 69 ویں باقاعدہ اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کو نہایت مشکل وقت کا سامنا ہے اور عالمگیر جوہری مسائل کا پائیدار حل نکالنے کے لیے بات چیت کا کوئی متبادل نہیں۔
Tweet URLانہوں نے کہا کہ جون میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد 'آئی اے ای اے' کو اپنے معائنہ کار ملک سے واپس بلانا پڑے لیکن گزشتہ ہفتوں میں اس نے جوہری حفاظتی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کو بحال کرنے کی غرض سے ایران کے ساتھ عملی اقدامات کیے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے فریقین کے مابین قاہرہ میں ایک معاہدہ طے پایا اور اب اس معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آ پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادارہ شام میں بھی اپنا تصدیقی کام انجام دے رہا ہے جہاں نئی (عبوری) حکومت نے مکمل شفافیت کے ساتھ تعاون پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو اس سے شام کی سابقہ جوہری سرگرمیوں کے مسئلے کا مستقل حل برآمد ہو گا اور ملک کے لیے بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہونے کی راہ ہموار ہو گی۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے مسائلڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کا عالمی نظام شدید دباؤ کا شکار ہے جس کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ اب ایسے ممالک کی جانب سے بھی مسائل سامنے آ رہے ہیں جن کی این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کے تحت وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے اچھی شہرت رہی ہے۔
اب یہ ممالک کھلے عام بات کر رہے ہیں کہ انہیں جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہئیں یا نہیں۔انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس نظام سے دوبارہ وابستگی اختیار کریں جو انتہائی پرآشوب دور میں بھی بین الاقوامی امن کی ایک اہم ترین بنیاد رہا ہے۔
موسمیاتی مسائل کا جوہری حلڈائریکٹر جنرل نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں جوہری توانائی کے کردار کو بھی اجاگر کیا اور کہا اب توقع کی جا رہی ہے کہ 2050 تک جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت میں دو اعشاریہ پانچ گنا اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ جوہری توانائی کے فوائد اور تحفظ کے حوالے سے اس کے شاندار ریکارڈ کی بدولت دنیا بھر میں اس کے لیے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت 40 ممالک جوہری توانائی کے مختلف مراحل پر کام کر رہے ہیں جبکہ مزید 20 ممالک اسے اپنے توانائی کے نئے نظام کا حصہ بنانے پر غور کر رہے ہیں۔
رافائل گروسی کا کہنا تھا کہ جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے جوہری ضوابط کو نئی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور ان ممالک کو ضروری مالی معاونت بھی مہیا کرنا ہو گی۔