پاک امریکہ دوطرفہ عوامی رابطوں کی نئی دنیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کی تاریخ پون صدی تک پھیلی ہوئی ہے لیکن دو طرفہ تعلقات کو عوامی سطح پر فروغ دینے میں سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں بہت کام ہوا اور پھر یہ سلسلہ سابق صدر ضیا الحق ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ، سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف ، سابق صدرپرویز مشرف ، سابق و موجودہ صدر آصف علی زرداری اورسابق و موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے ادوار حکومت میں مزید آگےبڑھتا رہا۔ اس دوران سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو اور سابق وزیراعظم عمران خان کے ادوارحکومت میں پاک امریکہ تعلقات میں 2 مختصر عرصوں کیلئے کچھ سرد مہری بھی پیدا ہوئی لیکن مجموعی طور پر پاکستان اور امریکہ کے حکومتی و عوامی ہر دو سطحوں پرتعلقات مثالی رہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے میں امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی انتہائی فعال کردار ادا کر رہی ہے، دنیا جب سے ڈیجیٹل دور میں داخل ہوئی ہے گلوبل ویلج کا تصور ایک نئے انداز میں سامنے آیا ہے اور یہ ایک حقیقت بن گئی ہے کہ ڈیجیٹل معیشت نے پوری دنیا کو ایک ہی منڈی بنا دیا ہے کہ جس میں روز مرہ دوکانداری اور خریداری اسی انداز میں عالمی سطح پر جاری ہے کہ جیسے کوئی گاہک اور خریدار اپنے محلے، اپنے ٹائون یا اپنے گائوں کی دوکان پر خریدوفروخت کررہے ہیں، کم و بیش یہی صورتحال آجر اوراجیر کے حوالے سے ہے، کمپنی یا کارخانے کا مالک دنیا کےکسی اور ملک میں بیٹھا صبح سویرے دفتر یا فیکٹری کھولتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں موجود اس کے آن لائن ورکرز اپنے کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور موبائل فون آن کرتے ہیں اور ایک کلک میں ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ پلک جھپکتے میں طے کر کے اپنی ڈیوٹی پر حاضر آ موجود ہوتے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ دنیا فی الواقعی ایک طلسم ہوشربا بن چکی ہے تو بےجا نہ ہوگا،اب جبکہ دنیا کے ہر ملک کے لوگوں کی زندگی معاشی و تقافتی ہر حوالے سے ایک ہی عالمی گائوں اور ایک ہی عالمی مارکیٹ سے روزمرہ بنیادوں پر وابستہ ہو چکی ہے تو مختلف ممالک کےدرمیان حکومتی و عوامی سطح کے رابطوں میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے، اس پس منظر اور پیش منظر میں پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کو دو طرفہ عوامی رابطوں کی ایک نئی دنیا بسانے پر توجہ دینا ہو گی اور باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ دونوں اطراف اس ضرورت کا ادراک موجود ہے، امید کی جانی چاہیے کہ عوام سے عوام کےرابطے اوردوطرفہ ثقافتی تعلقات کودور جدید کی ضرورتوں کے تناظر میں نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عمل میں جلد تیز رفتار پیش رفت ہو گی۔ثقافتی تبادلوں اور عوام سے عوام کے تعلقات کے ذریعے پاکستان امریکہ تعلقات کو ایک مضبوط بنیاد 1950ء کے عشرے میں فراہم کی گئی،اس لیے یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات کا سنگ بنیاد عوامی رابطوں پر خصوصی توجہ سے عبارت ہے، اس دوران تعلیم اور فنون لطیفہ سمیت مختلف شعبوں میں مشترکہ کاوشوں اور تجربات کی ایک طویل تاریخ ہے۔
1947 ء میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی ان کلچرل اینڈ انٹلکچوئل رابطوں نے دونوں ممالک کے فکری و ثقافتی خدوخال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، امریکہ کا فل برائٹ سکالر شپ دنیا میں فروغ تعلیم کی کاوشوں کے حوالے سے سب سے بڑا ایجوکیشن پروگرام ہے، ہزاروں پاکستانی طلبہ اور سکالرز اپنے تعلیمی و تحقیقی سفر میں اس سے مستفید ہو چکے ہیں اور اس وقت پاکستان اور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، علمی و فکری حوالے سے سوچ اور خیالات کا تبادلہ صرف دو طرفہ تعلیمی تعلقات کو فروغ نہیں دیتا بلکہ ایک دوسرے کی ثقافت کو گہرائی تک سمجھنے کے مواقع بھی فراہم کرتاہے،کراچی، لاہور، اسلام آباد میں قائم کیے گئے امریکن سنٹرز نے کلچرل ڈائیلاگ کےاس سلسلےمیں انتہائی کلیدی کرداراداکیا،ان سنٹرزکےزیر اہتمام ثقافتی پروگراموں، آرٹ کی نمائشوں اور لینگوئج کی کلاسز ایک بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ ’’جاز ڈپلومیسی‘‘کے تحت ڈیزی گلیسپی اور ڈیوڈ بروبیک جیسے عالمی شہرت یافتہ امریکی موسیقاروں نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ موسیقار نصرت فتح علی خان اور محسن حامد جیسے ادیبوں نے امریکی سامعین کو پاکستانی موسیقی و ادب سے روشناس کروایا، انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام ایک اور قابل قدر کاوش تھی جس نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان عوام سے عوام کے رابطوں کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا، امریکی محکمہ خارجہ کی خصوصی سرپرستی میں جاری اس پروگرام کے تحت ایسے نیٹ ورکس بنائے گئے جنہوں نے سیاست، کاروبار، میڈیا اور سول سوسائٹی جیسے شعبوں میں دوطرفہ عوامی تعلقات کو مزید آگے بڑھایا، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور جیسے شہروں میں لنکن کارنرز کے قیام سے ثقافتی تبادلے اور سیکھنے کے مواقع کو فروغ ملا، ان کارنرز کے ذریعے ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کی گئیں اورمختلف تعلیمی پروگراموں میں کمیونٹی کی شرکت کے مواقع بڑھے، امریکن سنٹرز ہوں یا لنکن کارنرز، یہ وہ کھڑکیاں ہیں کہ جن سے جھانک کر پاکستان کی نوجوان نسل نےامریکہ کو دیکھا اور دوطرفہ دوستی عوام کے اندر گہرائی تک سرایت کر گئی، پاکستان امریکہ عوامی رابطوں کا یہ سلسلہ اب ایک نئی دنیا کی دریافت کے سفر پر ہے، اس سلسلے میں دوطرفہ ڈیجیٹل تبادلے کو وسعت دے کر کلچرل ڈائیلاگ کو جادوئی رفتار سے مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے، ورچوئل کلچرل فیسٹیول اور آن لائن تعلیمی پلیٹ فارم دونوں ممالک میں موجود قارئین، سامعین و ناظرین کو مزید قریب لا سکتے ہیں، سپورٹس ڈپلومیسی ایک اور اہم شعبہ ہے جس پر اب تک مناسب توجہ نہیں دی گئی، کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال، ہاکی، ریسلنگ، باکسنگ سمیت دونوں ممالک میں مقبول کھیلوں کے حوالے سے دونوں ممالک کے کھلاڑیوں اور ٹیموں کے تبادلے کی سرگرمیاں بڑھائی جا سکتی ہیں، یہ سپورٹس ایکسچینج پروگرام نہ صرف پاکستانی امریکن کمیونٹی بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں موجود تمام اوورسیز کمیونیٹیز کے لیئے بھی دلچسپی کا باعث بنے گا اور خود امریکی عوام بھی اس سے لطف اندوز ہوں گے، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے عالمی سطح پر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک پاکستانی عوام کو مزید رسائی دے کر پاکستان اور امریکہ کے درمیان عوامی سطح پر رابطے کو مزیدفروغ دیاجاسکتا ہے،فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مونیٹائزیشن میں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کو بھی شامل کرنا اور ایمازون سمیت مختلف آن لائن بزنس اینڈ منی ایکسچینج پلیٹ فارمز کی کلیدی سہولیات کا دائرہ پاکستان تک بڑھانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عوامی رابطوں دونوں ممالک تعلقات کو ممالک میں حوالے سے دنیا کے عوام کے کو مزید
پڑھیں:
رومانیا کے سفیر کی وفاقی وزیر جنید انور چوہدری اور چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ عتیق الرحمن سے ملاقات، دوطرفہ بحری تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق
رومانیا کے سفیر کی وفاقی وزیر جنید انور چوہدری اور چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ عتیق الرحمن سے ملاقات، دوطرفہ بحری تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق WhatsAppFacebookTwitter 0 3 November, 2025 سب نیوز
کراچی(آئی پی ایس ) پاکستان میں رومانیا کے سفیر ڈاکٹر ڈین اسٹونیسکو نے وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انور چوہدری اور چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ عتیق الرحمن سے کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایگزیبیشن اینڈ کانفرنس کے موقع پر کراچی پورٹ ٹرسٹ بورڈ میں ایک اہم ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد پاکستان اور رومانیا کے درمیان بحری اور تجارتی تعاون کو مزید فروغ دینا تھا۔ملاقات کے دوران دونوں جانب سے بحری شعبے میں مزید مضبوط شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ دونوں ممالک کی جغرافیائی اہمیت نمایاں ہییورپ کے لیے بحیرہ اسود کا گیٹ وے، پورٹ آف کنسٹانسا، اور جنوبی ایشیا و مشرق وسطی کا اہم بحری مرکز، کراچی پورٹ۔ گفتگو میں پورٹ آپریشنز، تجارتی سہولیات اور لاجسٹکس میں تعاون بڑھانے پر توجہ دی گئی، تاکہ علاقائی رابطہ کاری اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے باہمی فائدہ مند شراکت داریوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔ملاقات میں پورٹ آف کنسٹانسا اور کراچی پورٹ کے درمیان مفاہمتی یادداشت کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی، جس پر دونوں فریق پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں اور جس پر جلد دستخط کیے جائیں گے۔ یہ معاہدہ طویل المدتی تعاون کے لیے فریم ورک فراہم کرے گا، جس میں پورٹ مینجمنٹ، انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، ڈیجیٹل لاجسٹکس اور تکنیکی مہارت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ یورپ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت کے بہتر راستے پیدا ہوں گے۔ اس میں پائیداری، گرین پورٹ ٹیکنالوجیز اور موثر کارگو ہینڈلنگ کے مشترکہ اقدامات بھی شامل ہوں گے۔دونوں جانب سے جدید کارگو ہینڈلنگ، اسمارٹ پورٹ ٹیکنالوجیز کے استعمال اور کسٹمز و شپنگ سسٹمز کی بہتری کے ذریعے لاجسٹکس اور پورٹ انفراسٹرکچر کی ترقی پر غور کیا گیا۔ کنسٹانسا پورٹ کے کثیرالمواصلاتی نظام جس میں سمندر، ریل اور سڑک کے ذریعے نقل و حمل شامل ہے کو کراچی پورٹ کے عالمی سپلائی چین سے انضمام کے لیے ایک مثالی ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔
مزید برآں، انسانی وسائل کی تربیت اور استعداد کار میں اضافہ کو بحری ترقی کا بنیادی ستون قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں کے افسران اور تکنیکی عملے کے لیے تربیتی اور تبادلہ پروگرام شروع کرنے پر بات چیت ہوئی، جن میں پورٹ مینجمنٹ، میری ٹائم سیفٹی، ماحولیاتی معیار، اور ڈیجیٹل لاجسٹکس و کارگو ٹریکنگ شامل ہوں گے۔ اس تعاون کے نتیجے میں جدید بندرگاہی نظام کو چلانے کے قابل تربیت یافتہ عملہ تیار ہوگا۔فریقین نے نجی شعبے کی شمولیت، بندرگاہی سرمایہ کاری، اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے کے امکانات پر بھی بات کی۔ بہتر پورٹ تعاون سے جنوبی ایشیا، یورپ اور وسطی ایشیا کے درمیان نئے تجارتی راستوں کی راہ ہموار ہوگی، جس سے پاکستان کی عالمی بحری تجارت میں اہمیت بڑھے گی اور رومانیا کو ایشیائی مارکیٹس تک بہتر رسائی حاصل ہوگی۔سفیر ڈاکٹر ڈین اسٹونیسکو نے کہا کہ رومانیا پاکستان کے ساتھ پائیدار اقتصادی اور سفارتی روابط کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے اور کنسٹانسا اور کراچی کے درمیان بحری تعاون ہمارے خطوں کو تجارت، جدت اور دوستی کے ذریعے قریب لانے کی عملی مثال ہے۔ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقوں نے جلد ایم او یو پر دستخط کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور بحری شعبے کے ساتھ ساتھ اقتصادی، تعلیمی اور ثقافتی تعاون کو بھی فروغ دینے کا عہد کیا۔ یہ ملاقات پاکستان اور رومانیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاس تھی، جو خوشحالی، رابطہ کاری اور باہمی اعتماد کے مشترکہ مقاصد سے جڑے ہوئے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاعCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم