پاکستان: یورینیم مائن کے 16 مغوی مزدوروں میں سے آٹھ بازیاب
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2025ء) خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق لکی مروت کے ایک سینیئر پولیس افسر محمد اعجاز نے کہا کہ اغوا کے واقعے کے فوری بعد ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک آٹھ کارکنوں کو بازیاب کر لیا گیا ہے، جن میں سے ایک زخمی ہے۔
ایک دوسرے پولیس اہلکار کے مطابق تین کارکن زخمی ہیں اور انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
محمد اعجاز نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں ایک سڑک پر مزدوروں کو لے جانے والی اس گاڑی کو نذر آتش بھی کر دیا تھا۔پاکستان: عسکریت پسندوں نے 16 مزدور یرغمال بنا لیے
اس پولیس افسر کے مطابق حملہ اس وقت کیا گیا، جب یہ مزدور لکی مروت کے قریب ایک کان کی طرف جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔دیگر سکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ کان کنی کے، جس منصوبے پر یہ افراد کام کرتے تھے، اس کا تعلق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے لیکن مغوی مزدور اس کے ملازم نہیں ہیں۔
انہوں نے تاہم بتایا کہ بقیہ یرغمالیوں کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور حکام ان کی محفوظ واپسی کے لیے پرامید ہیں۔
پاکستان: خضدار میں سرکاری دفتر پر حملہ، پولیس اسٹیشن نذر آتش
اے پی کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی طرف سے اس خبر پر تبصرے کے لیے کوئی بھی شخص فوری طور پر دستیاب نہیں تھا۔
فوری طور پر کسی بھی گروپ کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی لیکن شبہ ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے پاکستانی طالبان کا ہاتھ ہے، جن کی طرف سے حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اغوا کے اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی عسکریت پسندوں نے صحافیوں کو ایک ویڈیو بھیجی تھی، جس میں کچھ مغوی مزدوروں کو دکھایا گیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص حکام پر زور دے رہا ہے کہ وہ اغوا کاروں کے مطالبات کو تسلیم کر لیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مطالبات کیا ہیں۔
تین مبینہ عسکریت پسند ہلاکایک متعلقہ پیشرفت میں، پولیس اور انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے جمعرات کو لکی مروت کے علاقے ملنگ اڈہ میں مشترکہ کارروائی کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ ٹیپو گل گروپ کپاراچنار میں امدادی قافلے پر حملہ، متعدد افراد زخمیے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ علاقے میں ایک درجن بندوق برداروں کی موجودگی کے بارے میں موصولہ خفیہ اطلاع کی بنیاد پر آپریشن شروع کیا گیا تھا، ''جب چھاپہ مار ٹیم نے پوزیشن سنبھالی، تو عسکریت پسندوں نے فائرنگ شروع کر دی، جس سے فائرنگ کا شدید تبادلہ شروع ہو گیا۔‘‘
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ تینوں عسکریت پسند قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں ملوث تھے۔
عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہحالیہ مہینوں میں، بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جن کے لیے بلوچ آرمی اور پاکستانی طالبان یا تحریک طالبان پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
بدھ کو ہی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان کے علاقے خضدار میں ایک سرکاری دفتر پر قبضہ اور ایک بینک کو لوٹ لیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک پولیس اسٹیشن کو بھی جزوی طور پر نذر آتش کر دیا گیا تھا۔پاکستانی طالبان، افغان طالبان کے اتحادی ہیں۔ سن2021 میں ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد پاکستانی طالبان کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان طالبان کے رہنما اور جنگجو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
تیل اور معدنیات سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا لیکن سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔ یہ ملک کی نسلی بلوچ اقلیت کا گھر ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک اور استحصال کا سامنا ہے۔
ج ا ⁄ ا ا (اے پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: عسکریت پسندوں نے پاکستانی طالبان طالبان کے لکی مروت کے مطابق کی طرف کے لیے
پڑھیں:
رجب بٹ پاکستان واپسی کےلیے کس بات کے منتظر ہیں؟
اپنے متنازع اقدامات اور دھمکیاں ملنے کے بعد پاکستان چھوڑ جانے والے معروف یوٹیوبر رجب بٹ وطن واپسی کے ارادے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بن گئے ہیں۔
بیرون ملک مقیم رجب بٹ نے حالیہ دنوں یوٹیوبر نادر علی کی پوڈکاسٹ میں شرکت کے دوران اپنی موجودہ صورتحال اور واپسی کے امکانات پر کھل کر بات کی۔
رجب بٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت دبئی سے قطر اور پھر لندن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں ان کے اہلِ خانہ اور قریبی دوست بھی پہنچیں گے۔ تاہم ان کی پاکستان واپسی اب بھی ایک خاص اجازت کی منتظر ہے۔ ان کے بقول، ’’انشاءاللہ آؤں گا، کیوں نہیں آؤں گا، میرا ملک ہے، میں ضرور واپس آؤں گا، لیکن کچھ ہائی کمانڈز کی جانب سے اجازت آئے گی تو فوراً واپسی ہوگی۔‘‘
اس گفتگو کے دوران انہوں نے ان الزامات کا بھی ذکر کیا جن کے باعث وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ان پر مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جنہیں وہ واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، سب جانتے ہیں کہ میں نہ ایسا کر سکتا ہوں، نہ سوچ سکتا ہوں۔ میرا تعلق ایک مومن گھرانے سے ہے، اور ایسا گمان بھی میرے لیے ناممکن ہے۔‘‘
رجب بٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کے الفاظ یا اندازِ بیان سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا، ’’میں نے اللہ کے گھر بیٹھ کر معذرت کی ہے، اور یہاں بھی کر رہا ہوں۔ یہ معذرت اس لیے نہیں کہ مجھے واپس آنے دیا جائے، اگر میں مجرم ہوا تو سزا دی جائے، بے گناہ ہوا تو بری کردیا جائے، لیکن اگر کسی کا دل دُکھا ہے تو میں نادم ہوں۔‘‘
یوٹیوبر کے مطابق، واپسی کا دروازہ صرف ایک چیز سے مشروط ہے: اعلیٰ سطح سے منظوری۔ جب یہ منظوری ملے گی، تو رجب بٹ ایک بار پھر پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کو تیار ہوں گے۔