سمجھوتہ ،طے، پا جائے گا
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ڈرنے یاگبھرانے کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا، رام بھلی کرے گا کیوں کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں ، ہتھیار نکل آتے ہیں، دانت پسے جانے لگتے ہیں، لگتا ہے دونوں فوجیں لڑ پڑیں گی ، گھمسان کا رن پڑے گا، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے لیکن اچانک دونوں کے درمیان فائر ہونے سے پہلے سیز فائر ہو جاتا ہے، گلے مل جاتے ہیں اورسارے گلے جاتے ہوئے رہ جاتے ہیں ۔
سمجھوتہ۔ طے۔ پا جاتا ہے
لگ گیا جب وہ گلے، سارا گلہ جاتا رہا
کوئی دشمنی تو ہوتی نہیں بس ذرا مال غنیمت کی تقسیم پر تھوڑا سا پھڈا پڑا ہوتا ہے ، وہ ختم ہوجاتا ہے کیوں کہ خداکے فضل سے امریکا کی دعا سے، آئی ایم ایف کی آشیرواد سے اور لیڈروں کی محنت سے اس مفتوح ملک میں مال غنیمت بست وبسیار ہیں ۔ یہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، تاریخ کے ہردور میں ایسا ہوتا ہے ،جغرافیے کے ہرصفحے پر ہوتا آیا ہے اورسیاست کی ہرشکل میں ایسا ہوتا آیا ہے، ہورہا ہے اورہوتا رہے گا کہ فاتحوں کی مفتوح شہر کے مال غنیمت پر تھوڑی سی تو تو میں میں ہوجاتی ہے ،گرماگرمی ہوجاتی ہے، شرما شرمی ہوجاتی ہے لیکن پھر نرما نرمی ہوجاتی ہے ۔
یہ سلسلہ اس وقت سے بدستور چلا آرہا ہے جب ’’لٹیرے ‘‘ کو خیال آیا کہ بستی کو لوٹ کو چلے جانے کی بجائے اس کے سر پر کیوں نہ مستقل بیٹھاجائے چنانچہ اس نے اپنا تخلص ڈاکو اورلٹیرے سے بدل کر حاکم اور محافظ رکھ لیا ، تلوار کے ساتھ کچھ اور’’ہتھیار‘‘ بھی استعمال کرنے لگا اورگائے کو ’’کھوہ‘‘ کرکھانے کی بجائے ’’دوہ‘ کرکھانا شروع کیا، اورمفتوح کامال لوٹ کرلے جانے کی بجائے چھین کر ہڑپ کرنے لگا۔ پھر وقت کے ساتھ اس کے ساجھے دار بھی بڑھ گئے تو مال غنیمت کی تقسیم کا یہ جھگڑا پیدا ہوگیا ، بادشاہ کے دور میں بھی پیدا ہوجاتا تھا جسے تلوار سے حل کیاجاتا تھا ۔ آمریت کے زمانے میں طاقت سے حل کیا جاتاتھا اوراب جمہوری دور میں مذاکرات اورسمجھوتوں سے حل کیا جاتا ہے ، موجودہ جھگڑا بھی آپ دیکھیں گے کہ ’’ملک‘‘ کے مفاد میں ’’طے‘‘ اور’’پا‘‘ جائے گا کیوں کہ فریقین کو ملک کامفاد بہت عزیز ہوتا ہے کہ وہ خود ملک بھی ہوتے ہیں اور مفاد بھی اورطے پا بھی
ہم کوزہ وہم کوزہ گروہم گل کوزہ
اس نیک کام کے لیے بڑے اچھے ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں جن کے پاس زبردست قسم کا ڈیٹرجنٹ اورمشین ہوتی ہیں جو ضدی سے ضدی داغ بھی پلک جھپکنے میں صاف کرکے ’’دامنوں‘‘ کو سفید شفاف بنادیتے ہیں، چاہے وہ داغ ملین بلین کے کیوں نہ ہوں ۔توشہ خانوں، نوشہ خانوں اورگوشہ خانوں کے کیوں نہ ہوں۔
پرانے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا کہ جب کسی شہر کو فتح کیاجاتاتھا تو پہلے کا مال غنیمت درجہ اول بادشاہ اوراس کے خاندان یا وزیروں کا ہوتا تھا پھر دوسرے دن کوخاص خاص افسر اورعہدے داروں کی باری ہوتی تھی، تیسرے دن عام لشکر کو مفتوح شہرپر چھوڑ دیا جاتا، آخر میں عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی۔ اس غرض کے لیے ہمیشہ فوج کے پیچھے پیچھے کچھ غنڈے موالی لگے ہوتے تھے، وہ بھی آکر مال غنیمت میں کچھ نہ کچھ پالیتے تھے ۔
اب اس مفتوح ملک میں ایک عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے، ایک گینگ جب ملک کو فتح کرتا ہے تو خاص خاص لوگ اوپر کے مورچوں میں بیٹھ جاتے ہیں اوراچھا اچھا بڑا بڑا مال غنیمت اپنی جھولی میں ڈالتے ہیں، دوسرے نمبر پر مشیر معاون اورعہدے دار ہوتے ہیں،آخر میں گینگ کے پنڑ لوگ جنھیں کارکن کہاجاتا ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں منہ گھساہی دیتے ہیں ،ایسے ہی یہ گینگ وار چلتے ہیں لیکن اختتام سمجھوتہ …اورطے پا… پر ہوجاتا ہے کہ تم بھی چوپو اورمجھے بھی چوپنے دو ، اب کے بھی آثار کچھ ایسے دکھائی دینے لگے ہیں کہ خیر ہوجائے گیا ۔ شہرمفتوح پر سمجھوتہ طے پا ہوجائے گا
کہتے ہیں کچھ لوگ ایک صحر ا میں کہیں جارہے تھے کچھ زاد راہ پاس نہیں تھا اس لیے سخت بھوکے تھے کہ اچانک راستے میں ایک شخص ملا جو گدھے پر مولیاں بار کیے ہوئے کہیںلے جارہا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے مولیاں لیں اورکھانے لگے۔
قسمت دیکھئے کہ اسی وقت جھاڑیوں میں ایک خرگوش ملا اورایک پیڑ میں شہد کاچھتا دکھائی دیا، سب نے کوشش کرکے خرگوش کو بھی پکڑ لیا اورچھتے کو بھی حاصل کیا اب بھنے ہوئے گوشت اورشہد کے ہوتے ہوئے ’’مولیوں‘‘ کی کیاحیثیت تھی جو کچھ کھاچکے تھے وہ تو کھا چکے تھے باقی مولیوں کے قتلوں کو پھینک دیا۔ ایک بولا ، مولیاں ہونہہ۔ دوسرا بولا مولیاں اخ تھو۔ تیسرے نے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے مولیوں کے قتلوں پر پاؤں رکھ کر مسلا اور پیشاب کر دیا۔
شکم سیر ہوکر چل پڑے جہاں جاناتھا پہنچ گئے اور دوسرے تیسرے دن واپس چل پڑے اس مرتبہ بھی بھوک سے براحال تھا ۔جب مولیوں کے پرانے مقام پر پہنچ گئے مولی کے قتلے بدستور پڑے ہوئے تھے یہ لوگ خاموشی سے دیکھتے رہے پھر ان میں سے ایک نے اٹھ کر مولی کا ایک قتلہ اٹھایا اوربولا میرے خیال میں اس پر پیشاب کے چھینٹے نہیں پڑے ہیں اورکھالیا، اس طرح سب قتلے اٹھاتے رہے اورکھاتے رہے کہ یہ قتلہ بچا ہوا ہے تھوڑی دیر بعد وہاں ایک بھی قتلہ باقی نہ رہا سب صاف نکلے تھے۔
تو اگر کوئی ٹھان لے تو کل کی پیشاب زدہ مولیوں کو پلک جھپکنے میں صاف کرسکتا ہے اور اسے بڑے آرام سے نگل بھی سکتا ہے اور ڈیٹرجنٹ اچھا ہو تو داغ داغ دامنوں کو صاف و شفاف بھی کرسکتا ہے بس نیت اورارادہ نیک ہونا چاہیے۔ دیکھتے نہیں کہ یہ مفتوح شہرکتنی بار لوٹا گیا کبھی کسی چور لٹیرے کو پکڑاگیا؟ داغ مردہ باد ، ڈیٹرجنٹ زندہ باد… سمجھوتے پائندہ باد۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مال غنیمت ہیں اور ہوتا ا ہے اور
پڑھیں:
فلسطین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو اقوام متحدہ کی ساکھ داؤ پر لگ جائے گی، اسحاق ڈار
نیویارک:اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہ ماہی مباحثے کی صدارت کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطینی مسئلے پر تفصیلی خطاب کیا۔
اس مباحثے کا موضوع مشرق وسطیٰ کی صورتحال بشمول فلسطینی مسئلہ تھا جس میں اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید مذمت کی۔
اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کی تنصیبات، اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کے بھی خلاف ہیں۔
نائب وزیراعظم نے فلسطینی مسئلے کو اقوام متحدہ کی ساکھ اور اثر کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
Deputy Prime Minister/Foreign Minister, Senator Mohammad Ishaq Dar @MIshaq50, presided over the United Nations Security Council's Quarterly Open Debate on the "Situation in the Middle East including the Palestinian Question". The Open Debate was upgraded to the Ministerial level… pic.twitter.com/UrAWI4iGey
— Ministry of Foreign Affairs - Pakistan (@ForeignOfficePk) July 23, 2025اسحاق ڈار نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے تاکہ فلسطینی عوام کی تکالیف کم کی جا سکیں۔
انہوں نے مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور جامع امن کے لیے شام، لبنان اور ایران کے مسائل کے حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ وقت آ چکا ہے کہ فلسطینی عوام کو انصاف، آزادی، وقار اور اپنی خودمختار ریاست کے حقوق دیے جائیں۔
اس سلسلے میں دفتر خارجہ کی جانب سے ایکس پر بھی پیغام جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی سربراہی میں اس مباحثے کو وزیر سطح تک اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
اس خطاب کے دوران اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے اور اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کو بڑھایا جائے۔