Express News:
2025-04-26@04:51:18 GMT

سمجھوتہ ،طے، پا جائے گا

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

ڈرنے یاگبھرانے کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا، رام بھلی کرے گا کیوں کہ ہمیشہ سے یہی ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں ، ہتھیار نکل آتے ہیں، دانت پسے جانے لگتے ہیں، لگتا ہے دونوں فوجیں لڑ پڑیں گی ، گھمسان کا رن پڑے گا، کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے لیکن اچانک دونوں کے درمیان فائر ہونے سے پہلے سیز فائر ہو جاتا ہے، گلے مل جاتے ہیں اورسارے گلے جاتے ہوئے رہ جاتے ہیں ۔

سمجھوتہ۔ طے۔ پا جاتا ہے

 لگ گیا جب وہ گلے، سارا گلہ جاتا رہا

 کوئی دشمنی تو ہوتی نہیں بس ذرا مال غنیمت کی تقسیم پر تھوڑا سا پھڈا پڑا ہوتا ہے ، وہ ختم ہوجاتا ہے کیوں کہ خداکے فضل سے امریکا کی دعا سے، آئی ایم ایف کی آشیرواد سے اور لیڈروں کی محنت سے اس مفتوح ملک میں مال غنیمت بست وبسیار ہیں ۔ یہی ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، تاریخ کے ہردور میں ایسا ہوتا ہے ،جغرافیے کے ہرصفحے پر ہوتا آیا ہے اورسیاست کی ہرشکل میں ایسا ہوتا آیا ہے، ہورہا ہے اورہوتا رہے گا کہ فاتحوں کی مفتوح شہر کے مال غنیمت پر تھوڑی سی تو تو میں میں ہوجاتی ہے ،گرماگرمی ہوجاتی ہے، شرما شرمی ہوجاتی ہے لیکن پھر نرما نرمی ہوجاتی ہے ۔

 یہ سلسلہ اس وقت سے بدستور چلا آرہا ہے جب ’’لٹیرے ‘‘ کو خیال آیا کہ بستی کو لوٹ کو چلے جانے کی بجائے اس کے سر پر کیوں نہ مستقل بیٹھاجائے چنانچہ اس نے اپنا تخلص ڈاکو اورلٹیرے سے بدل کر حاکم اور محافظ رکھ لیا ، تلوار کے ساتھ کچھ اور’’ہتھیار‘‘ بھی استعمال کرنے لگا اورگائے کو ’’کھوہ‘‘ کرکھانے کی بجائے ’’دوہ‘ کرکھانا شروع کیا، اورمفتوح کامال لوٹ کرلے جانے کی بجائے چھین کر ہڑپ کرنے لگا۔ پھر وقت کے ساتھ اس کے ساجھے دار بھی بڑھ گئے تو مال غنیمت کی تقسیم کا یہ جھگڑا پیدا ہوگیا ، بادشاہ کے دور میں بھی پیدا ہوجاتا تھا جسے تلوار سے حل کیاجاتا تھا ۔ آمریت کے زمانے میں طاقت سے حل کیا جاتاتھا اوراب جمہوری دور میں مذاکرات اورسمجھوتوں سے حل کیا جاتا ہے ، موجودہ جھگڑا بھی آپ دیکھیں گے کہ ’’ملک‘‘ کے مفاد میں ’’طے‘‘ اور’’پا‘‘ جائے گا کیوں کہ فریقین کو ملک کامفاد بہت عزیز ہوتا ہے کہ وہ خود ملک بھی ہوتے ہیں اور مفاد بھی اورطے پا بھی

ہم کوزہ وہم کوزہ گروہم گل کوزہ

 اس نیک کام کے لیے بڑے اچھے ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں جن کے پاس زبردست قسم کا ڈیٹرجنٹ اورمشین ہوتی ہیں جو ضدی سے ضدی داغ بھی پلک جھپکنے میں صاف کرکے ’’دامنوں‘‘ کو سفید شفاف بنادیتے ہیں، چاہے وہ داغ ملین بلین کے کیوں نہ ہوں ۔توشہ خانوں، نوشہ خانوں اورگوشہ خانوں کے کیوں نہ ہوں۔

 پرانے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا کہ جب کسی شہر کو فتح کیاجاتاتھا تو پہلے کا مال غنیمت درجہ اول بادشاہ اوراس کے خاندان یا وزیروں کا ہوتا تھا پھر دوسرے دن کوخاص خاص افسر اورعہدے داروں کی باری ہوتی تھی، تیسرے دن عام لشکر کو مفتوح شہرپر چھوڑ دیا جاتا، آخر میں عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی۔ اس غرض کے لیے ہمیشہ فوج کے پیچھے پیچھے کچھ غنڈے موالی لگے ہوتے تھے، وہ بھی آکر مال غنیمت میں کچھ نہ کچھ پالیتے تھے ۔

اب اس مفتوح ملک میں ایک عرصے سے یہی ہوتا آرہا ہے، ایک گینگ جب ملک کو فتح کرتا ہے تو خاص خاص لوگ اوپر کے مورچوں میں بیٹھ جاتے ہیں اوراچھا اچھا بڑا بڑا مال غنیمت اپنی جھولی میں ڈالتے ہیں، دوسرے نمبر پر مشیر معاون اورعہدے دار ہوتے ہیں،آخر میں گینگ کے پنڑ لوگ جنھیں کارکن کہاجاتا ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں منہ گھساہی دیتے ہیں ،ایسے ہی یہ گینگ وار چلتے ہیں لیکن اختتام سمجھوتہ …اورطے پا… پر ہوجاتا ہے کہ تم بھی چوپو اورمجھے بھی چوپنے دو ، اب کے بھی آثار کچھ ایسے دکھائی دینے لگے ہیں کہ خیر ہوجائے گیا ۔ شہرمفتوح پر سمجھوتہ طے پا ہوجائے گا

 کہتے ہیں کچھ لوگ ایک صحر ا میں کہیں جارہے تھے کچھ زاد راہ پاس نہیں تھا اس لیے سخت بھوکے تھے کہ اچانک راستے میں ایک شخص ملا جو گدھے پر مولیاں بار کیے ہوئے کہیںلے جارہا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے مولیاں لیں اورکھانے لگے۔

قسمت دیکھئے کہ اسی وقت جھاڑیوں میں ایک خرگوش ملا اورایک پیڑ میں شہد کاچھتا دکھائی دیا، سب نے کوشش کرکے خرگوش کو بھی پکڑ لیا اورچھتے کو بھی حاصل کیا اب بھنے ہوئے گوشت اورشہد کے ہوتے ہوئے ’’مولیوں‘‘ کی کیاحیثیت تھی جو کچھ کھاچکے تھے وہ تو کھا چکے تھے باقی مولیوں کے قتلوں کو پھینک دیا۔ ایک بولا ، مولیاں ہونہہ۔ دوسرا بولا مولیاں اخ تھو۔ تیسرے نے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے مولیوں کے قتلوں پر پاؤں رکھ کر مسلا اور پیشاب کر دیا۔

شکم سیر ہوکر چل پڑے جہاں جاناتھا پہنچ گئے اور دوسرے تیسرے دن واپس چل پڑے اس مرتبہ بھی بھوک سے براحال تھا ۔جب مولیوں کے پرانے مقام پر پہنچ گئے مولی کے قتلے بدستور پڑے ہوئے تھے یہ لوگ خاموشی سے دیکھتے رہے پھر ان میں سے ایک نے اٹھ کر مولی کا ایک قتلہ اٹھایا اوربولا میرے خیال میں اس پر پیشاب کے چھینٹے نہیں پڑے ہیں اورکھالیا، اس طرح سب قتلے اٹھاتے رہے اورکھاتے رہے کہ یہ قتلہ بچا ہوا ہے تھوڑی دیر بعد وہاں ایک بھی قتلہ باقی نہ رہا سب صاف نکلے تھے۔

تو اگر کوئی ٹھان لے تو کل کی پیشاب زدہ مولیوں کو پلک جھپکنے میں صاف کرسکتا ہے اور اسے بڑے آرام سے نگل بھی سکتا ہے اور ڈیٹرجنٹ اچھا ہو تو داغ داغ دامنوں کو صاف و شفاف بھی کرسکتا ہے بس نیت اورارادہ نیک ہونا چاہیے۔ دیکھتے نہیں کہ یہ مفتوح شہرکتنی بار لوٹا گیا کبھی کسی چور لٹیرے کو پکڑاگیا؟ داغ مردہ باد ، ڈیٹرجنٹ زندہ باد… سمجھوتے پائندہ باد۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مال غنیمت ہیں اور ہوتا ا ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے. پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے.اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے. اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے. نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے. گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی. پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں. تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے. بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے. لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے. مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی. جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے. بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے. ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا. ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا. میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں. ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چینی چھوڑنے سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان؟وہ حقائق جو سب کومعلوم نہیں
  • کونسا شہد طاقت کے لحاظ سے سب سے بہتر؟
  • جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضامندی سے فیصلہ نہیں ہوتا مزید نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • بھارتی اقدامات کا مقصد پاکستان کیخلاف اپنے مذموم عزائم کو تقویت دینا ہے، احسن اقبال
  • امن اور مکالمہ ہماری ترجیح  ، قومی سلامتی یا وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،امیر مقام
  • واہگہ – اٹاری بارڈر پہلے کب کب اور کیوں بند ہوتا رہا؟
  • بابر یا کوہلی؛ کنگ وہی ہوتا ہے جو سب پر حکومت کرے
  • فالس فلیگ آپریشن ہوتا کیا ہے، مشہور آپریشن کون کون سے ہیں؟
  • بھارت کو وہ ردعمل دیں گے جو ایک غیور اور خوددار قوم سے متوقع ہوتا ہے: نائب وزیراعظم
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی