ڈرون حملوں کے جواب میں اسرائیل کی یمن میں بندرگاہوں اور فوجی تنصیبات پر بمباری
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2025ء)اسرائیل نے یمن میں حوثیوں کے زیرکنٹرول علاقوں میں شدید بمباری کی جس میں پاور اسٹیشن اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیل نے یمن کے میزائل اور ڈرون حملوں کے جواب میں جمعہ کے روز یمن میں حوثی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں ایک پاور اسٹیشن اور ساحلی بندرگاہیں شامل تھیں۔
اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے یمنی باغی گروپ نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر اسرائیل پر درجنوں میزائل اور ڈرون فائر کیے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جمعہ کو اسرائیلی فوج کے یمن میں حوثیوں کے زیرکنٹرول علاقوں میں کیے گئے حملوں میں حدیدہ، راس عیسیٰ بندرگاہوں، حزیاز پاور اسٹیشن اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایاگیا۔(جاری ہے)
حملوں میں 1 شخص ہلاک اور 16 زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔اسرائیل کے تازہ ترین حملے اس وقت ہوئے جب فوج نے جمعرات کو یمن سے داغے جانے والے 2 ڈرونز کو مار گرایا۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حوثی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کی قیمت چکا رہے ہیں اور انہیں مزید بھاری قیمت اٹھانا پڑے گی۔ ادھر حماس نے یمن پر حملے کی مذمت کی۔دوسری جانب غزہ پر بھی اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 22 فلسطینی شہید ہوگئے۔اس کے علاوہ لبنان پر بھی اسرائیل نے ڈروان حملہ کیا جس میں 5 شہری شہید ہوئے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے والی مشینری کو بمباری میں نقصان پہنچنے سے تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے لوگوں کی زندگی بچانے کی موہوم امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیل کی بمباری سے ایسے متعدد بلڈوزر اور کھدائی مشینیں تباہ ہو گئی ہیں جنہیں ملبے سے زندہ و مردہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے غزہ کے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلڈوزر تباہ ہونے سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بھی معطل ہو گیا ہے۔
ہزاروں افراد ملبے تلے دفناطلاعات کے مطابق غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک ہونے والی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے کم از کم 11 ہزار لوگ دب گئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے عاطف نصر جنگ سے پہلے عمارتیں تعمیر کرنے اور سڑکوں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے اور اب ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں۔ بلڈوزر تباہ ہونے سے اب ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
داہدو خاندان کے بیٹے عمر ایک سال پہلے اسرائیل کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی لاش سات منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے اب دریافت ہوئی ہے۔ ان کے بھائی معاد نے بتایا کہ گزشتہ جنگ بندی کے عرصہ میں انہوں نے عمر کی لاش نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن عمارت بہت بڑی ہونے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی۔
انہوں نے لاش نکالنے کے لیے بلڈوزر اور کھدائی مشینیوں سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی بمباری میں یہ مشینیں تباہ ہو چکی ہیں۔
آخری رسوماتجنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں مقیم داجانی خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر قیام پذیر ہے جس کے نیچے ان کے تین بچوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ ان کے والد علی بتاتے ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے چند لوگوں کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف چلے گئے۔
واپسی پر ان کا گھر تباہ ہو چکا تھا اور ان کے بچے ملبے تلے دب گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ باامر مجبوری اس جگہ پر رہ رہے ہیں لیکن یہ کوئی زندگی نہیں اور ان کے لیے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ انہیں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی خوراک۔ وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی لاشیں مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفن کر سکیں۔ چند روز قبل انہوں نے قریبی علاقے میں کدالوں سے کھدائی کرنے والوں کو ملبہ ہٹانے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اب یہ کام بھی رک گیا ہے۔
پچاس ملین ٹن ملبہاقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ میں غزہ کی تقریباً 90 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ان عمارتوں کی تباہی سے 50 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے جسے موجودہ حالات میں صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔
امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں تاخیر کے نتیجے میں ناصرف غزہ بھر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحول کے لیے بھی تباہ کن ہے۔