موجودہ حکومت کے مثبت اقدامات
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
معیشت کا مفہوم صرف پیسہ یا تجارت تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع عمل ہے جس میں مختلف سماجی، ثقافتی، اور سیاسی عوامل کا اثر ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی معیشت اس کے معاشرتی، سیاسی، اور عالمی تعلقات کو تشکیل دیتی ہے۔ اس میں حکومت کی پالیسیاں، عوام کی معاشی سرگرمیاں، اور دنیا بھر کے اقتصادی تعلقات شامل ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں بھی ایک طویل تاریخ ہے جس میں بحرانوں کے باوجود ترقی کے مواقع بھی موجودرہے۔ معیشت کی اڑان کا مقصد ایک مضبوط اور پائیدار اقتصادی نظام کی تشکیل ہے،جس میں تمام عوام کے لیے مواقع ہوں اور ملک عالمی سطح پر ایک مضبوط اقتصادی طاقت بن کر ابھرے۔پاکستان کی معیشت ایک پیچیدہ اور متنوع شعبہ ہے جس میں مختلف عوامل اور پالیسیاں ایک دوسرے سے جڑ کر ملک کی اقتصادی حالت کو تشکیل دیتی ہیں۔ اس معیشت کے ارتقاء میں مختلف ادوار آئے ہیں اور ہر دور میں حکومتوں نے معیشت کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔موجودہ حکومت کو معیشت میں بہتری لانے کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں مہنگائی، بےروزگاری،قرضوں کا بوجھ اور توانائی کے مسائل شامل ہیں۔ ان مشکلات کے باوجودحکومت نےمختلف اصلاحاتی اقدامات، مالیاتی پالیسیاں اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کی ہیں۔پاکستان کی معیشت کی تاریخ میں کئی بحران آئے ہیں۔ 1947 ء میں آزادی کے بعد پاکستان کی معیشت ایک زرعی معیشت تھی جس کا انحصار زیادہ تر زراعت اور قدرتی وسائل پر تھا۔ اس دور میں ملک کے پاس اس قدر سرمایہ کاری نہیں تھی کہ وہ اپنے اقتصادی بحرانوں کا حل نکال سکتا۔ 1950 ء کی دہائی میں حکومت نے صنعتی ترقی کی جانب قدم بڑھایا، جس کا مقصد ملک کو زراعت پر انحصار سے نکال کر صنعتی معیشت کی طرف منتقل کرنا تھا۔ 1960 ء کی دہائی میں ایوب خان کی حکومت نے صنعت کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے پالیسیاں متعارف کرائیں، جس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت نے تیز ترقی کی، لیکن یہ ترقی ایک غیر متوازن اور محدود سطح پر تھی۔1970ء کی دہائی کے بعد پاکستان کی معیشت میں بحران کا آغاز ہوا، خاص طور پر 1973ء میں تیل کے بحران کے بعد جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اس بحران نے پاکستان کی معیشت پر گہرا اثر ڈالا، اور ملک کی معیشت عالمی بحرانوں کا شکار ہو گئی۔ اس کے علاوہ، 1980 ء کی دہائی میں افغانستان کی جنگ اور اس کے بعد کے اثرات نے پاکستان کی معیشت کو مزید مشکلات میں مبتلا کیا۔ 1990 ء کی دہائی میں ملک نے آزاد مارکیٹ کی معیشت کی طرف قدم بڑھایااور مختلف اصلاحات متعارف کرائیں، لیکن معاشی بحرانوں کے ایک لامتناہی سلسلے نے پاکستان کی معیشت کو مسلسل متاثر کیا۔ 2000 ء کی دہائی میں حکومت نے انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان کی معیشت میں ایک اور بڑی تبدیلی 2010 کے بعد آئی، جب ملک نے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت کی طرف قدم بڑھایا۔ اس وقت حکومت نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کی اور سٹارٹ اپ کلچر کو ابھارنے کے لیے پالیسیاں مرتب کیں۔ ان اقدامات نے معیشت کی اڑان کو ایک نئی سمت دی اور یہ بتانے کا موقع دیا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے بغیر کوئی بھی ملک اقتصادی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔موجودہ حکومت نے اپنے دور میں معیشت کی بہتری کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو مختلف نوعیت کے اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے بڑی مشکل قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ حکومت نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختلف مالیاتی اقدامات کیے ہیں، جن میں قرضوں کے نئے معاہدے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی شرائط میں نرمی کے لیے مذاکرات شامل ہیں۔مہنگائی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا اثر عوام کی زندگی پر پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت نے مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول، روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات، اور مارکیٹ کی طلب و رسد کو متوازن کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی ہے تاکہ عوام کو سستی اشیاء مل سکیں۔پاکستان میں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا تعلق تعلیم اور ہنر کی کمی سے ہے۔ حکومت نے بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں نوجوانوں کےلیےروزگار کےمواقع بڑھانے،ہنرمندتربیت فراہم کرنے،اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیناشامل ہے۔حکومت نے مختلف پروگرامز شروع کیے ہیں جیسے ”میکنیکل انجینئرنگ کورسز”، ”اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز” اور ”یوتھ ایمپاورمنٹ اسکیمز” تاکہ نوجوانوں کو ہنر سیکھنے کے مواقع ملیں اور وہ خود کفیل بن سکیں۔پاکستان میں توانائی کے بحران نے بھی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ بجلی کی کمی اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت کو حکومت نے تسلیم کیا اور اس بحران کے حل کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع اوربجلی کی پیداوار بڑھانےکے لیے اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے مختلف منصوبوں پر کام شروع کیا ہے جیسے ”سیفر انرجی پالیسی”، ”شمسی توانائی کے منصوبے”، اور ”ڈیموں کی تعمیر” تاکہ توانائی کے بحران کو حل کیا جا سکے۔ موجودہ حکومت نےجو سب سے اہم کام کیا ہے وہ عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان کی معیشت دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا ملک کی معیشت کے لیے ضروری ہے۔ حکومت نے مختلف تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نے مقامی صنعتوں کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنانے کے لیے اصلاحات کی ہیں تاکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔پاکستان کی معیشت میں زراعت کا شعبہ بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اورحکومت نے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے سبسڈی فراہم کرنے، کھادوں اور بیجوں کی قیمتوں میں کمی کرنے اور کسانوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کے پروگرامز شروع کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت نے زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ حکومت نے مالیاتی پالیسیوں میں بہتری کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں ٹیکس کے نظام کی اصلاحات، کرپشن کے خلاف کارروائیاں اور حکومتی اخراجات میں کمی شامل ہیں۔ ان اقدامات کامقصد ملک کےمالیاتی نظام کو مضبوط کرنا اور حکومتی اخراجات کو کنٹرول کرنا ہے اور مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے نئے ٹیکس اقدامات متعارف کرائے ہیں تاکہ حکومتی خزانے کو مضبوط کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ، حکومت نے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیاں وضع کی ، ملکی اورغیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور مختلف فورمز پر پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے سرگرمیاں شروع کی ہیں۔ معیشت کی بحالی ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے تاہم، حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات ایک مثبت سمت کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ بتانے کا موقع دیتے ہیں کہ پاکستان اپنی معیشت کو استحکام اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، اور اس میں حکومت کے ساتھ عوام کا بھی کردار انتہائی اہم ہے۔ اگر عوام اپنے مالی امور میں بہتری لائیں، ٹیکسوں کی ادائیگی کریں، اور اقتصادی ترقی کے عمل میں شامل ہوں، تو یہ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی معیشت میں تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ء کی دہائی میں موجودہ حکومت عالمی سطح پر کو فروغ دینے کرنے کے لیے کی معیشت کو اقدامات کی اور عالمی میں حکومت ہے جس میں شامل ہیں حکومت نے معیشت کی کی ترقی شروع کی ہیں اور ترقی کے ملک کی اور اس کے بعد
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر صدر ایف پی سی سی آئی کا شدید ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-6
کراچی (کامرس رپورٹر)صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شر ح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ”ناقابلِ فہم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور مجموعی قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ موجودہ معاشی حقائق، خصوصاً مہنگائی میں نمایاں کمی، شرح سود میں فوری کمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:”جب اگست 2025 میں حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح صرف 3 فیصد تک آ گئی ہے تو پالیسی ریٹ کو کم کر کے اصولی طور پر 6 سے 7 فیصد کے درمیان لایا جانا چاہیے تھا؛ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ”۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر شرح سود میں کمی کی جاتی تو حکومت کا قرضوں کا بوجھ تقریباً 3,500 ارب روپے تک کم ہو سکتا تھا؛ جوکہ، مالیاتی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت اہم ہے۔سینئر نائب صدر، ایف پی سی سی آئی، ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بلند شرح سود پیداواری لاگت کو بڑھاتی ہے ؛جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سنگل ڈیجٹ شرح سود کے ذریعے اشیاء سستی ہوں گی؛ عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کرنسی کی گردش کو بھی محدود کرتی ہے؛ جس سے معاشی سرگرمیوں میں جمود پیدا ہوتا ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنا بزنس کانفیڈنس کو بری طرح متاثر کرے گا؛ سرمایہ کاری میں کمی لائے گا اور معیشت کی بحالی کی رفتار کو سست کر دے گا۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسی پالیسی اپنائے جوکاروبار دوست ہو؛قرضوں کی لاگت کو کم کرے؛صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ، ایف پی سی سی آئی،عبدالمہیمن خان نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ میں لائے ؛نجی شعبے کے لیے قرضوں کی رسائی آسان بنائے اورکاروباری برادری کو پالیسی سازی میں شامل کرے۔ عبدالمہیمن خان نے واضح کیاکہ کاروباری برادری پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے لیے ایک مثبت، کاروبار دوست اور حقیقت پسندانہ مالیاتی پالیسی ناگزیر ہے۔ اسٹیٹ بینک کو اب معیشت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے ۔