گریٹر اسرائیل، امریکہ یا ظہور مہدی عج
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںرہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ 8 جنوری کو قم میں خطاب کا تجزیہ و تحلیل
شام میں بدلتی ہوئی صورتِ حال ۔۔۔۔۔ کیا ہونے والا ہے؟
تجزیہ نگار: انجنیئر سید علی رضا نقوی
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
تاریخ: 13 جنوری 2025
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
دشمن کا کام جھوٹ بولنا اور حقیقت اور رائے عامہ کے افکار کے درمیان فاصلہ رکھنا ہے (رہبر معظم)
امید کو زندہ رکھنا میڈیا کا سب سے اہم کام ہے کہ دشمن کی حاکمیت کا بھرم توڑا جائے (رہبرِ معظم)
دشمن کا کام تباہی کی دھمکیاں دینا ہے ،یہ پروپیگنڈہ ہے جس سے کچھ لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔(رہبرِ معظم)
ذرائع ابلاغ میں موجود افراد کاکام بنیادی اور اہم کام دشمن کی حاکمیت کے جھوٹے بھرم کے راز فاش کرنا ہے، اسے توڑنا ہے، دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانا ہے (رہبرِ معظم)
رہبر معظم کا کہنا کہ میڈیا کے افراد جھوٹ کو پکڑ کر اس کا تجزیہ کرکے عوام کو حقیقت سے آشنا کریں
میدان جنگ سے زیادہ بڑی جنگ میڈیا پہ ہورہی ہے
صیہونی اور مغربی میڈیا اپنے جھوٹے پراپیگنڈہ کے ذریعے دُنیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کرتا ہے
حق تو یہ ہے کہ دشمن کے بیانات کے باہمی تضادات ان کے جھوٹ کا بھانڈہ پھوڑ دیتے ہیں
دنیا میں سچ بولنے والے میڈیا کی پہچان مبالغہ آرائی نہ کرنا ہے
دشمن کے حکومتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے موقف کا فرق سچائی سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے
صیہونی جھوٹا پراپیگنڈہ گریٹر اسرائیل کی بات تو کرتا ہے، مگر وہاں کی رائے عامہ اس کے ساتھ نہیں
اسرائیل کے عوام اس وقت اپنی حکومت اور فوج کی کاروائیوں کے خلاف ہیں
اردگان کاخواب سلطنت عثمانیہ کا قیام کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا
اُردگان کی ترک حکومت آج بھی صیہونی حکومت کی سب سی بڑی پشت پناہ ہے
اُردگان گریٹر ترکی یاسلطنت عثمانیہ کا بے معنی خواب دیکھ رہا ہے
اسرائیل کی لائف لائن تو ترکی اور اُردگان کی وجہ سے قائم ہے
لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں گریٹر اسرائیل اور گریٹر ترکی کا قضیہ کھڑا ہوگا ہے
گریٹیسٹ اسرائیل کا جغرافیہ اور گریٹرترکی کا جغرافیہ ایک ہی ہے
اور ترکی یہ خام خیالی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس کی مدد کریں گے
مستقبل میں جب بھی گریٹر اسرائیل اور گریٹر ترکی کا جھگڑا کھڑا ہوگا امریکہ اسرئیل کی حمایت کریگا
ترکی عراق ایران شام میں موجود "کرد" بھی اپنی سلطنت کا خواب ایک عرصہ سے دیکھ رہے ہیں
کرد کبھی بھی گریٹر ترکی اور گریٹر اسرائیل کی حمایت نہیں کرسکتے
کردوں کے ساتھ جو وعدے کئے جارہے ہیں ، گریٹر کردستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا
لگ یہ رہا ہے کہ ترکی اسرائیل ہنی مون پیریڈ ختم ہونے والا ہے
اس ساری کشمکش میں یمنی حوثی مجاہدین بہت اہم کرادر ادا کررہے ہیں
مستقبل میں بھی یمنی مجاہدین کی مزاحمت مزید طاغوت دشمن بن کر اُبھرے گی
یمنی مجاہدین اپنی جدو جہد کوظہور امام مہدی عج کا مقدمہ جان کر مزاحمت جاری رکھیں گے
شام میں بدلتی ہوئی صورتِ حال میں
چار خواب ۔۔۔ خواہشیں
شیطانی قوتوں کا خواب گریٹر اسرائیل
اردگان کا سلطنت عثمانیہ کا خواب
حماس کا خواب قدس و فلسطین کی آزادی
شیعان علی ؑ کا خواب ظہورِ مہدی عج
فیصلہ مستقبل میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
کس کے خواب کی تعمیر ہورہی ہے؟؟؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گریٹر ترکی اور گریٹر کا خواب
پڑھیں:
غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس کو نئی دھمکیاں دی ہیں۔ کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط نہ مانیں تو غزہ میں مزید شدت اختیار کرنے والے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل اپنی دھمکی پر عمل کرے گا۔
غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام مذمتوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید گہرا کرنے جا رہا ہے۔ ادارے نے مزید بتایا کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب وزیر رون ڈیرمر کا لندن میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کا شیڈول ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بات کی جا سکے۔
قطری اعلیٰ حکام بھی لندن میں موجود ہیں اور ایلچی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ ایک باخبر ذریعہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی اس وقت اسرائیل اور قطر کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے جو دوحہ میں حماس کے اعلیٰ حکام کے خلاف اسرائیلی حملے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور دوحہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے کردار میں واپس لایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور قطر کے ساتھ بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب میدان میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور اپنے ہتھیار نہ ڈالے تو غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا اور غزہ حماس کو ختم کرنے والوں کے لیے ایک یادگار بن جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر زمینی کارروائیاں اور سیاسی و فوجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غزہ میں ایک فوری انسانی بحران کے بارے میں وارننگ دی جا رہی ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کے شہر سے نکلنے کے لیے ایک “عارضی منتقلی کا راستہ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس کے بعد ہوا جب فوج نے حماس کے ساتھ تقریباً دو سال کی جنگ کے بعد پٹی کے سب سے بڑے شہر پر زمینی حملے اور بمباری میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی فوج نے پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی کے رہائشیوں کو شدید انتباہات دیے ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر پٹی کے جنوب میں قائم کردہ ایک “انسانی علاقے” میں منتقل ہو جائیں کیونکہ وہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فوج نے منگل کو بھی کہا تھا کہ اس نے اس شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور غزہ میں مسلسل اور شدید بمباری ہو رہی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کی رات سے 150 سے زیادہ اہداف پر بمباری کی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں غزہ شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ بتائی تھی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگ پیدل، کاروں، گاڑیوں اور زرعی ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہوئے شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کو اندازہ لگایا ہے کہ غزہ سٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد 350,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی دوران بہت سے فلسطینی وہیں رہنے پر مصر ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
Post Views: 5