مذاکرات، ہچکچاہٹ اور سیاسی مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے مذاکرات اور اختلافات کے درمیان متوازن رہتی ہے، لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ انتہائی حساس اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر میں ہونے والا اجلاس بے نتیجہ رہا۔ اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنے سے کیوں گریز کررہی ہے، اور اس ہچکچاہٹ کے پیچھے ممکنہ وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟
تحریری مطالبات ہمیشہ ایک مضبوط دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، جو بعد میں بطور حوالہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو شاید یہ خدشہ ہو کہ ان کے تحریری مطالبات کو مستقبل میں ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان مطالبات کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرے، جس سے پی ٹی آئی کے موقف کو نقصان پہنچے۔
پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کے خاتمے جیسی حساس امور شامل ہیں۔ ان مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنا شاید پارٹی کےلیے مشکل ہو، کیونکہ یہ عوامی اور عدالتی دائرہ کار میں تنازع کا باعث بن سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی قیادت اور مذاکراتی ٹیم کے اندر ممکنہ اختلافات بھی اس ہچکچاہٹ کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور جیسے رہنما عمران خان کے حوالے سے بنی گالہ منتقلی کی آفر لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر مختلف حلقے مختلف حکمت عملیاں تجویز کر رہے ہیں۔
عمران خان کے مطالبات میں شامل مقدمات کا خاتمہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اگر واقعی سیاسی کارکنان شرپسندی میں ملوث تھے تو عدالتوں سے ان مقدمات کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی شاید ان نکات پر حکومت کے ساتھ کوئی کمزور مؤقف اپنانا نہیں چاہتی۔
عمران خان کی ممکنہ ہاؤس اریسٹ میں بنی گالہ منتقلی بھی موجودہ مذاکرات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ان کی بہن کے مطابق یہ پیشکش علی امین گنڈاپور کے ذریعے پہنچی، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تجویز حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ رعایت کا اشارہ ہے یا پارٹی کے اندر کسی نئے فیصلے کا۔ عمران خان کو بنی گالہ میں محدود رکھنے کی پیشکش نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کےلیے ایک اقدام ہوسکتی ہے بلکہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی پر ہے۔ اس عمل میں دونوں فریقین کو اپنے مؤقف میں نرمی دکھانی ہوگی۔ مذاکرات کے اہم نکات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم، یہ نکات تبھی موثر ثابت ہوں گے جب دونوں فریقین ان پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو متوقع ہے۔ یہ کیس نہ صرف عمران خان بلکہ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کےلیے بھی اہم ہے۔ اس مقدمے میں تاخیر کے پیچھے شاید مذاکراتی عمل کے لیے وقت پیدا کرنا ہوسکتا ہے تاکہ دونوں فریقین کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچ سکیں۔
پاکستان اس وقت سنگین اقتصادی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ مذاکرات کی ناکامی ملک کو مزید انتشار کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ دونوں فریقین کو ہٹ دھرمی ترک کرکے ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ موجودہ حالات میں ایک قابل قبول معاہدے پر پہنچنا ہی سیاسی استحکام اور اقتصادی بحالی کا راستہ ہموار کرسکتا ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کی بحالی کےلیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ اس کے بغیر مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ فوج، عدلیہ، اور دیگر ادارے مذاکرات میں غیر جانبدار رہ کر ایک سہولت کار کا کردار ادا کریں تو سیاسی بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی جانب سے دونوں فریقین پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں فریقین کو اپنی اپنی ہچکچاہٹ اور تحفظات کو پس پشت ڈال کر مل بیٹھنا ہوگا۔ مذاکرات کی کامیابی کےلیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو واضح طور پر تحریری شکل میں پیش کرے، اور حکومت ان مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔ یہ وقت ہٹ دھرمی کا نہیں بلکہ اتحاد اور سمجھوتے کا ہے تاکہ ملک کو سیاسی انتشار سے بچایا جا سکے۔
موجودہ حالات میں کوئی بھی فیصلہ یا معاہدہ، چاہے وہ کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے ایک اہم قدم ہوسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کے مطالبات کو کے درمیان حکومت اور ملک کو
پڑھیں:
بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی ایڈوائزری کونسل نے ملک میں جاری سیاسی اختلافات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں آئندہ ایک ہفتے میں جولائی نیشنل چارٹر اور مجوزہ آئینی اصلاحات پر اتفاق نہ کر سکیں، تو حکومت خودمختارانہ طور پر فیصلہ کرے گی۔
یہ اعلان پیر کے روز چیف ایڈوائزر کے دفتر (تیجگاؤں، ڈھاکا) میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے قانونی مشیر پروفیسر آصف نذرل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت ’خود اپنا راستہ اختیار کرے گی۔‘
اجلاس میں دیگر مشیروں میں محمد فوزالکبیر خان، عادل الرحمان خان اور پریس سیکریٹری شفیع الحق عالم بھی شریک تھے۔
سیاسی پس منظر اور تنازعہ کی نوعیتگزشتہ ہفتے نیشنل کنسینس کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی آرڈر جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق، اگر ریفرنڈم کامیاب ہوتا ہے تو آئندہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیمی ادارہ کے طور پر تشکیل دیا جائے گا، جو 270 دن کے اندر اصلاحات مکمل کرے گی۔
تاہم ریفرنڈم کے انعقاد کے وقت پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ بعض جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم عام انتخابات کے ساتھ کرایا جائے، جبکہ دیگر جماعتیں اسے انتخابات سے قبل منعقد کرنے کی حامی ہیں۔ یہی اختلافات عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
پروفیسر آصف نذرل کا بیانپروفیسر نذرول نے کہا ’ہم کوئی الٹی میٹم نہیں دے رہے، بلکہ مکالمے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق پر نہیں پہنچتیں تو حکومت اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گی۔‘
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مزید مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
’ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام جمہوری اور اینٹی فاشسٹ جماعتیں مل بیٹھ کر رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے پاس تعاون اور مفاہمت کی طویل تاریخ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پہلے سے طے شدہ نکات سے مختلف ہیں، تو پروفیسر نذرل نے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم امید کرتے ہیں کہ جماعتیں خود اپنے اختلافات حل کریں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘
انتخابات کے شیڈول کی تصدیقایڈوائزری کونسل نے اس بات کی بھی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ قومی انتخابات فروری 2026 کے اوائل میں منعقد کیے جائیں گے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر فریقین کے درمیان آئندہ چند دنوں میں اتفاق نہ ہوا تو عبوری حکومت کا یکطرفہ اقدام ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں