Express News:
2025-04-26@03:50:38 GMT

مذاکرات، ہچکچاہٹ اور سیاسی مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے مذاکرات اور اختلافات کے درمیان متوازن رہتی ہے، لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ انتہائی حساس اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر میں ہونے والا اجلاس بے نتیجہ رہا۔ اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنے سے کیوں گریز کررہی ہے، اور اس ہچکچاہٹ کے پیچھے ممکنہ وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

تحریری مطالبات ہمیشہ ایک مضبوط دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، جو بعد میں بطور حوالہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو شاید یہ خدشہ ہو کہ ان کے تحریری مطالبات کو مستقبل میں ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان مطالبات کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرے، جس سے پی ٹی آئی کے موقف کو نقصان پہنچے۔

پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کے خاتمے جیسی حساس امور شامل ہیں۔ ان مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنا شاید پارٹی کےلیے مشکل ہو، کیونکہ یہ عوامی اور عدالتی دائرہ کار میں تنازع کا باعث بن سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت اور مذاکراتی ٹیم کے اندر ممکنہ اختلافات بھی اس ہچکچاہٹ کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور جیسے رہنما عمران خان کے حوالے سے بنی گالہ منتقلی کی آفر لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر مختلف حلقے مختلف حکمت عملیاں تجویز کر رہے ہیں۔

عمران خان کے مطالبات میں شامل مقدمات کا خاتمہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اگر واقعی سیاسی کارکنان شرپسندی میں ملوث تھے تو عدالتوں سے ان مقدمات کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی شاید ان نکات پر حکومت کے ساتھ کوئی کمزور مؤقف اپنانا نہیں چاہتی۔

عمران خان کی ممکنہ ہاؤس اریسٹ میں بنی گالہ منتقلی بھی موجودہ مذاکرات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ان کی بہن کے مطابق یہ پیشکش علی امین گنڈاپور کے ذریعے پہنچی، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تجویز حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ رعایت کا اشارہ ہے یا پارٹی کے اندر کسی نئے فیصلے کا۔ عمران خان کو بنی گالہ میں محدود رکھنے کی پیشکش نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کےلیے ایک اقدام ہوسکتی ہے بلکہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی پر ہے۔ اس عمل میں دونوں فریقین کو اپنے مؤقف میں نرمی دکھانی ہوگی۔ مذاکرات کے اہم نکات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم، یہ نکات تبھی موثر ثابت ہوں گے جب دونوں فریقین ان پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو متوقع ہے۔ یہ کیس نہ صرف عمران خان بلکہ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کےلیے بھی اہم ہے۔ اس مقدمے میں تاخیر کے پیچھے شاید مذاکراتی عمل کے لیے وقت پیدا کرنا ہوسکتا ہے تاکہ دونوں فریقین کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچ سکیں۔

پاکستان اس وقت سنگین اقتصادی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ مذاکرات کی ناکامی ملک کو مزید انتشار کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ دونوں فریقین کو ہٹ دھرمی ترک کرکے ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ موجودہ حالات میں ایک قابل قبول معاہدے پر پہنچنا ہی سیاسی استحکام اور اقتصادی بحالی کا راستہ ہموار کرسکتا ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کی بحالی کےلیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ اس کے بغیر مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ فوج، عدلیہ، اور دیگر ادارے مذاکرات میں غیر جانبدار رہ کر ایک سہولت کار کا کردار ادا کریں تو سیاسی بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی جانب سے دونوں فریقین پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں فریقین کو اپنی اپنی ہچکچاہٹ اور تحفظات کو پس پشت ڈال کر مل بیٹھنا ہوگا۔ مذاکرات کی کامیابی کےلیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو واضح طور پر تحریری شکل میں پیش کرے، اور حکومت ان مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔ یہ وقت ہٹ دھرمی کا نہیں بلکہ اتحاد اور سمجھوتے کا ہے تاکہ ملک کو سیاسی انتشار سے بچایا جا سکے۔

موجودہ حالات میں کوئی بھی فیصلہ یا معاہدہ، چاہے وہ کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے ایک اہم قدم ہوسکتا ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کے مطالبات کو کے درمیان حکومت اور ملک کو

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • آسٹریلین جونیئر اوپن اسکواش میں کامیابی کے بعد علی سسٹرز وطن واپس پہنچ گئیں
  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • رجب طیب اردوگان کا مستقبل تاریک
  • بھارت میں ایشیاکپ، ٹی20 ورلڈکپ اور چیمپئینز ٹرافی کا مستقبل کیا ہوگا؟
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • حکومت کا دورہ افغانستان میرے پلان کے مطابق نہیں ہوا، پتا نہیں کوٹ پینٹ پہن کر کیا ڈسکس کیا، علی امین گنڈاپور
  • مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جس سے دو کروڑ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے