Nai Baat:
2025-07-26@21:17:59 GMT

میری آواز سنو

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

میری آواز سنو

ہالی وڈ میں 2005ء میں ایک فلم بنی۔ اْس کا نام تھا میونخ۔ فلم کا موضوع یہ تھا کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس میں گیارہ عرب دہشت گردوں نے گیارہ اِسرائیلی کھلاڑیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ فلم حقیقی واقعات کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ فلم میں یہ بتایا گیا کہ جب عرب دہشت گردوں نے اِسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کردیا تو موساد نے کس نے طرح اْن گیارہ دہشت گردوں کو چن چن کر مارا۔اِسرائیل کی اْس وقت کی وزیراعظم گولڈا میئر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے اَور دْنیا کو بتائیں گے کہ ہم کتنے طاقت ور ہیں۔یہ فلم بے حد مقبول ہوئی اَور اِس نے ساری دْنیا میں 131ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ اِس فلم کو اگر ایک مسلمان بھی دیکھے گا تو اِس کے اَندر گم ہوجائے گا اَور اْس کی تمام تر ہمدردیاں اِسرائیل کے ساتھ ہوجائیں گی۔ یہ اِس فلم کی خوبی ہے۔ گویا یہ فلم ایک بہت کامیاب پروپیگنڈا مشین ثابت ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اِس قسم کا پروپیگنڈا کیوں نہیں کرپاتے۔ کیا وجہ ہے کہ دْنیاوالے صرف ایک طرف کی آواز ہی سنتے ہیں اَور اْسی کے مطابق اَپنی رائے قائم کرلیتے ہیں؟
اِس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آج بھی اِس تذبذب کا شکار ہیں کہ تصویر، کیمرا، فلم وغیرہ حلال ہیں یا حرام۔ آج بھی کم از کم پچاس فی صد مسلمان اَیسے ہیں جو فلم کو حرام قرار دیتے ہیں۔ فلم میں کام کرنا اْن کے نزدِیک ایک گناہ کا کام ہے۔ چنانچہ ڈرامے، فلمیں، موسیقی وغیرہ سے یہ لوگ دْور بھاگتے ہیں اَور اْن لوگوں کوپسندنہیں کرتے جویہ کام کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے کوئی مسلمان ملک عمدہ فلمیں نہیں بنا پاتا۔ چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر پوری اسلامی دْنیا میں اچھی فلمیں نہیں بنتیں۔ یہاں ایک کمال بات یہ ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے تک پاکستان میں بہت اعلیٰ معیار کے ڈرامے پی ٹی وی پر نشر کیے جاتے تھے۔ اْس کے بعد اچانک کچھ اَیسا ہوا کہ ہماری یہ صنعت بھی زوال کا شکار ہوگئی۔

دْوسری وجہ یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اَب ایٹم بم بنایا تو جاسکتا ہے ا َور دْوسروں کو ڈرانے کے کام بھی آسکتا ہے لیکن اِسے چلانا شاید ممکن نہیں رہا۔ لیکن میڈیا ہر وقت، ہر جگہ لوگوں پراثر انداز ہوسکتا ہے اَور ہوتا ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں۔ اْس نے اَپنی فلموں کے ذریعے ہی ساری دْنیامیں اپنی بات، اپنا مؤقف پہنچایا ہے۔ ساری دْنیا یہ سمجھتی ہے کہ بھارت ایک محبت والا اَور امن پسند ملک ہے۔ دراصل یہ پاکستان ہے جس نے اِنہیں مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں پاکستان میں کیا کیا مصیبتیں بھارت کی وجہ سے آئیں۔ پانی کے مسئلے پر ہم اقوام متحدہ میں چیختے چلاتے رہتے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کا زمانہ نہیں ہے۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ وہاں اپنی بات پہنچانا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ پانی کے مسئلے پر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اِس کام کو اِتنی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں کہ ہم دْنیا میں اپنا نقطہ نظر پھیلائیں۔ پاکستان میں آرمی پبلک اسکول، پشاور کا اِتنا بڑا سانحہ ہوا۔ یہ سانحہ میونخ اولمپکس یا بھارت میں تاج محل ہوٹل کے واقعے سے زیادہ بڑا اَور دردناک تھا۔ کیا ہم نے اِس پر ایک مؤثر فلم بنائی؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ساری دْنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کلبھوشن یادیو کے اْوپر ایک نہایت عمدہ فلم بن سکتی ہے۔ اْس نے جیسے جیسے پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ ساری دْنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے سوا ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارے دْشمن کون ہیں۔ کیا طالبان پاکستان کے دْشمن ہیں؟ کیا اسرائیل پاکستان کا دْشمن ہے؟ ہم کبھی طالبان کی محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں اَور ہمارے منہ بولے دانش وریہ بتاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مددکرنی ہے۔ پھر جب ہمیں بہت مار پڑی تو ہمیں سمجھ آئی کہ ہم غلط سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اْس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔

اِس بات کی پاکستان کو بالخصوص اَور مسلمانوں کو بالعموم اشد ضرورت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو ساری دْنیا ہمارے بارے میں سمجھے گی۔ صحیح یا غلط، حق یا ناحق وغیرہ پر کون ہے کون نہیں، اِس سے کسی کو واسطہ نہیں۔ اَب وہ زمانہ ہے کہ آپ سچ بولیں یا جھوٹ ، نہایت زوردار طریقے سے بولیں۔ ہمیں تو جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ اِتنی زیادتیاں ہوئی ہیں کہ اگر ہم صرف اْن کا تذکرہ ہی کردیں تو بہت فرق پڑے گا۔ صرف اپنی بات، اپنے مؤقف، اپنی طرف کی کہانی بہترین طریقے پر سنانی آنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انگریزی میں فلمیں بنائیں اَور اْنہیں ساری دْنیا میں ریلیزکریں۔ Netflixیا اِسی قسم کے دْوسرے پلیٹ فارموں کا اِنتخاب کریں اَور وہاں اَپنی بات پہنچائیں۔ بھارت کتنی ہی ہندی فلمیں اِن پلیٹ فارموں پر ریلیزکرتا ہے۔ حال ہی میں اْس نے بمبئی حملوں پر ایک فلم بنائی ہے۔ آپ اْسے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ بھارتی تو بہت اچھے ہیں۔ وہ تو اِسلام کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آج جو ساری دْنیااسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے تو اِس کے پیچھے میڈیا کی صنعت کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ یہودی جن کو ساری دْنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا آج سب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں اَور دْنیا کے نزدیک اِن سے زیادہ مظلوم قوم اَور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ سارے مسلمان ممالک غزہ میں ہونے والی زیادتیوں پر چیخ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا۔

یہ بھی جان لیں کہ اِسلام ہرگز کسی نئی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا۔ اْس نے حلال اَور حرام کے چندایک قاعدے مقرر کردیئے ہیں۔ اْن کے اَندررہ کر ہر کام حلال ہے۔ آپ غور کریں کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ سیاسی پروگرام، خبرنامہ، مذہبی پروگرام کرنا حرام ہے۔ تب تصویر کی حرمت کہاں جاتی ہے؟ ہمیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت میڈیا سے دْور رکھا گیا تاکہ ہماری آواز دْنیا میں نہ پھیل سکے۔ ہم اَیسے بے وقوف ہیں کہ اَیسی ہر سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی آواز دْنیا تک پہنچانا بیحد ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اَیسے اسکرپٹ لکھوائیں جن پر اَیسی فلمیں بن سکیں جو ہماری بات کو زوردار اَنداز میں دْنیا میں پھیلاسکیں۔ اِس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم خواہ انگریزی میں ہو یا اْردو میں، اْسے اِتنا اچھا ہونا چاہیے کہ جو بھی دیکھے اْس میں گم ہوجائے۔ اْسے ساری دْنیا تک پہنچانے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ یہ پیار محبت، شادی، ساس کے مظالم، عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے موضوعات کو چھوڑ کر ہمیں اِس طرف آنا ہوگا تاکہ دْنیا کو معلوم ہوسکے کہ پاکستان اَور مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں۔ دْنیا کو ہمارے اندرونی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر اپنا نقطہ نظر بتانا ہوگا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ساری د نیا د نیا میں ہیں ا ور د نیا کو ہے کہ ا ہیں کہ

پڑھیں:

کیا یہ ہے وہ پاکستان

بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا تھا’’ اقلیتیں جہاں بھی ہوں، ان کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا، میں نے ہمیشہ یقین کیا اور میرا یقین غلط نہیں ہے۔ کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیرکامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی، کوئی حکومت ناانصافی اور جانبداری کی بنیادوں پرکھڑی نہیں رہ سکتی، اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدد اس کی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا۔

اقلیتوں میں انصاف و آزادی، امن و مساوات کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرز حکومت کی بہترین آزمائش ہے، ہم دنیا کے کسی متمدن ملک سے پیچھے نہیں رہ سکتے، مجھے یقین ہے جب وقت آئے گا تو ہمارے ملکی خطوں کی اقلیتوں کو ہماری روایات، ثقافت اور اسلامی تعلیم سے نہ صرف انصاف و صداقت ملے گی بلکہ انھیں ہماری کریم النفسی اور عالی ظرفی کا ثبوت بھی مل جائے گا، ہم مول تول نہیں کرتے، ہم لین دین کے عادی نہیں، ہم صرف یقین پر عمل رکھتے ہیں اور صرف تدبر اور عملی سیاست پر اعتماد رکھتے ہیں۔‘‘

 قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مذکورہ خطبہ کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو سب کچھ برعکس نظر آتا ہے، یہاں تو معماران پاکستان اور محبان وطن کا تحفظ نظر نہیں آتا ہے، قائد اعظم کی توقعات اور ان کی تعلیمات کا مذاق لوگوں پر ظلم و ناانصافی کرکے اڑایا جا رہا ہے، قائد اعظم نے ایک مضبوط پاکستان کا خواب دیکھا تھا کہ تعمیر وطن کے لیے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ یہ ملک پاکستان جوکہ نوزائیدہ مملکت ہے آنے والے دنوں میں یہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگا ہر کسی کو اس کے حقوق دیے جائیں گے اور انصاف کا پرچم بلند ہوگا، خواتین کا احترام ہوگا۔

قائد اعظم قومی زندگی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کے کس قدر قائل تھے انھوں نے ایک موقع پرکہا کہ زندگی کی جدوجہد میں خواتین کو شریک ہونے کا موقعہ فراہم کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انھوں نے یاد دلایا آپ کو یاد ہوگا کہ پٹنہ کے اجلاس میں خواتین کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی انھوں نے خواتین کے حقوق اور ان کی ذمے داریوں کے بارے میں فرمایا خواتین اپنے گھروں میں اور باپردہ رہ کر بھی بہت زیادہ کام کر سکتی ہیں۔ 

ہم نے یہ کمیٹی اسی غرض سے بنائی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے کاموں میں حصہ لے سکیں۔ اس کمیٹی کے فرائض میں عورتوں میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور بیدار کرنا تھا۔ قائد اعظم نے 22 نومبر 1942 کو اسلامیہ کالج فار ویمن کوپر روڈ لاہور میں طالبات سے خطاب کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کیا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ اس کی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف کار نہ ہوں، ہم ناپسندیدہ اور بری رسوم کا شکار ہیں۔ 

یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم کے مترادف ہے، ہماری خواتین قیدیوں کی طرح چار دیواری میں بند ہیں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ مغربی طرز زندگی کی خامیوں اور برائیوں کو اپنا لیں، ہمیں کم ازکم اپنی خواتین کو وہ معیار اور وقار تو مہیا کرنا چاہیے جو اسلامی نظریات کی روشنی میں انھیں ملنا چاہیے۔ اسلام میں اس قابل مذمت صورت حال کی کہیں اجازت نہیں، جس میں ہماری خواتین اس وقت زندگی گزار رہی ہیں۔

پاکستان کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر محمد اقبال نے عورتوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔’’ عمومیات کو چھوڑکر اگر خصوصیات پر نظر کی جائے تو عورت کی تعلیم سب سے زیادہ توجہ کی محتاج ہے۔ عورت حقیقت میں تمدن کی جڑ ہے، ماں اور بیوی دو ایسے پیارے الفاظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں مستور ہیں، اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔‘‘ وہ اپنے کلام میں اس کی عظمت اور اس کی موجودگی اس کی اہمیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی دُرّج کا درِّ مکنوں

قائد اعظم نوجوانوں کے جوش و خروش اور ایک علیحدہ وطن اور آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے وہ جانی و مالی ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہے تھے۔ قائد اعظم نے ان کے عزم صمیم اور ہمت مرداں مدد خدا کے جذبے سے بے حد خوش تھے۔تحریک پاکستان کے ایک کارکن حکیم آفتاب حسن قرشی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران میں نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ قائد اعظم ! مسلمان نوجوان حصول پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ 

آپ کی قیادت پر کامل یقین رکھتے ہیں، جب بھی آپ نوجوانوں کو پکاریں گے، انھیں آپ فوج کے ہر اول دستے میں پائیں گے۔ انھوں نے جواباً کہا کہ نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، مجھے ان سے یہی توقع ہے کہ وہ جنگ آزادی میں بیش از بیش حصہ لیں گے، قائد اعظم نے نوجوانوں کی قومی خدمات پر اظہار ستائش کرتے ہوئے فرمایا’’ مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور نوجوان ہی میرے قابل اعتماد سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔

اب ہم قائد اعظم کی جہد مسلسل اور علامہ اقبال کے افکارکا جائزہ لیں تو ہمیں آج کا پاکستان اس میں بسنے والے نوجوان اور خواتین کا استحصال نظر آتا ہے، ظلم و بربریت کی کہانی نے پاکستان کی سرزمین کو خون سے نہلا دیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے، لوٹ مارکی جاتی ہے، قدم قدم پر دشمنان پاکستان گھات لگائے بیٹھے ہیں، قائد اعظم کا بنایا ہوا پاک ملک جس کی بنیاد کلمہ پر قائم ہوئی ہے وہ ملک ناپاک ہو چکا ہے، عزت و تحفظ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ 

اب خواتین کو معمولی اور سیاسی و اصولی جنگ کے دوران مارا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، مرد و زن پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں، وڈیرے اور سردار عورت کو سر راہ بہیمانہ قتل کی اجازت دیتے ہیں، باقاعدہ جرگہ بٹھایا جاتا ہے یہاں قانون ہے نہ اسلام ہے نہ انسانیت ہے اور نہ ہمدردی، نکاح کو جرم قرار دے کر صرف ایک عورت اور اس کے شوہر کو ببانگ دہل پچاس لوگوں کا گروہ بیابان و سنسان جگہ لے جا کر قتل کر دیتے ہیں۔

بلوچستان کا واقعہ انسانیت کے پرخچے اڑانے میں آگے رہا، اس سے قبل بھی کارا کاری، نوجوان جوڑوں کو محض پسند کی شادی کرنے پر قتل کیا جاتا رہا ہے ادھر انصاف اور قانون خاموشی اختیار کر لیتا ہے لیکن بے قصور اور محب وطن لوگوں کو بغیر ثبوت کے گرفتار کیا جاتا ہے جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے، جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں محض اپنی حکومت کی بقا کے لیے۔کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان؟ انھوں نے اس مقصد کے لیے قربانی دی تھی؟ لوگ اپنا مال و اسباب اور اپنوں کے لاشے بے گور و کفن چھوڑ کر اپنے ملک میں آئے تھے کہ وہ اب آزاد قوم ہیں لیکن آج جو پاکستان کا حال ہے اسے دیکھ کر ہر ذی شعور آنسو بہا رہا ہے۔ بڑی مشکل میں زندگی کے دن گزار رہا ہے، بھوک، افلاس، بے روزگاری اور عدم تحفظ نے جیتے جی مار دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • میری بیوی ڈاکٹر مشعل حافظہ تھیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُسے دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے نوازا ہوا تھا، ڈاکٹر سعد اسلام
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • رائے عامہ
  • ملتان : میٹرک کے امتحان میں رکشا ڈرائیور کے بیٹے کی پہلی پوزیشن
  • قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں اور باپ کی رہائی کیلیے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے، عمران خان
  • بانی نے کہا سلیمان، قاسم میری اولاد ہیں، باپ کیلئے آواز اٹھانا انکا حق ہے، علیمہ خان
  • پاکستان اور چین کے درمیان میری ٹائم تعاون کے نئے باب کا آغاز،معاہدے پردستخط  
  • ’اسلام کا دفاع‘