Nai Baat:
2025-09-18@13:22:43 GMT

میری آواز سنو

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

میری آواز سنو

ہالی وڈ میں 2005ء میں ایک فلم بنی۔ اْس کا نام تھا میونخ۔ فلم کا موضوع یہ تھا کہ 1972ء کے میونخ اولمپکس میں گیارہ عرب دہشت گردوں نے گیارہ اِسرائیلی کھلاڑیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ فلم حقیقی واقعات کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ فلم میں یہ بتایا گیا کہ جب عرب دہشت گردوں نے اِسرائیلی کھلاڑیوں کو قتل کردیا تو موساد نے کس نے طرح اْن گیارہ دہشت گردوں کو چن چن کر مارا۔اِسرائیل کی اْس وقت کی وزیراعظم گولڈا میئر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے اَور دْنیا کو بتائیں گے کہ ہم کتنے طاقت ور ہیں۔یہ فلم بے حد مقبول ہوئی اَور اِس نے ساری دْنیا میں 131ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ اِس فلم کو اگر ایک مسلمان بھی دیکھے گا تو اِس کے اَندر گم ہوجائے گا اَور اْس کی تمام تر ہمدردیاں اِسرائیل کے ساتھ ہوجائیں گی۔ یہ اِس فلم کی خوبی ہے۔ گویا یہ فلم ایک بہت کامیاب پروپیگنڈا مشین ثابت ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اِس قسم کا پروپیگنڈا کیوں نہیں کرپاتے۔ کیا وجہ ہے کہ دْنیاوالے صرف ایک طرف کی آواز ہی سنتے ہیں اَور اْسی کے مطابق اَپنی رائے قائم کرلیتے ہیں؟
اِس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمان آج بھی اِس تذبذب کا شکار ہیں کہ تصویر، کیمرا، فلم وغیرہ حلال ہیں یا حرام۔ آج بھی کم از کم پچاس فی صد مسلمان اَیسے ہیں جو فلم کو حرام قرار دیتے ہیں۔ فلم میں کام کرنا اْن کے نزدِیک ایک گناہ کا کام ہے۔ چنانچہ ڈرامے، فلمیں، موسیقی وغیرہ سے یہ لوگ دْور بھاگتے ہیں اَور اْن لوگوں کوپسندنہیں کرتے جویہ کام کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے کوئی مسلمان ملک عمدہ فلمیں نہیں بنا پاتا۔ چند ایک مثالوں کو چھوڑ کر پوری اسلامی دْنیا میں اچھی فلمیں نہیں بنتیں۔ یہاں ایک کمال بات یہ ہے کہ آج سے چالیس سال پہلے تک پاکستان میں بہت اعلیٰ معیار کے ڈرامے پی ٹی وی پر نشر کیے جاتے تھے۔ اْس کے بعد اچانک کچھ اَیسا ہوا کہ ہماری یہ صنعت بھی زوال کا شکار ہوگئی۔

دْوسری وجہ یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقت ور ہوچکی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اَب ایٹم بم بنایا تو جاسکتا ہے ا َور دْوسروں کو ڈرانے کے کام بھی آسکتا ہے لیکن اِسے چلانا شاید ممکن نہیں رہا۔ لیکن میڈیا ہر وقت، ہر جگہ لوگوں پراثر انداز ہوسکتا ہے اَور ہوتا ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں۔ اْس نے اَپنی فلموں کے ذریعے ہی ساری دْنیامیں اپنی بات، اپنا مؤقف پہنچایا ہے۔ ساری دْنیا یہ سمجھتی ہے کہ بھارت ایک محبت والا اَور امن پسند ملک ہے۔ دراصل یہ پاکستان ہے جس نے اِنہیں مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں پاکستان میں کیا کیا مصیبتیں بھارت کی وجہ سے آئیں۔ پانی کے مسئلے پر ہم اقوام متحدہ میں چیختے چلاتے رہتے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کا زمانہ نہیں ہے۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ وہاں اپنی بات پہنچانا ضروری ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ پانی کے مسئلے پر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی اِس کام کو اِتنی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں کہ ہم دْنیا میں اپنا نقطہ نظر پھیلائیں۔ پاکستان میں آرمی پبلک اسکول، پشاور کا اِتنا بڑا سانحہ ہوا۔ یہ سانحہ میونخ اولمپکس یا بھارت میں تاج محل ہوٹل کے واقعے سے زیادہ بڑا اَور دردناک تھا۔ کیا ہم نے اِس پر ایک مؤثر فلم بنائی؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ساری دْنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کلبھوشن یادیو کے اْوپر ایک نہایت عمدہ فلم بن سکتی ہے۔ اْس نے جیسے جیسے پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ ساری دْنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے سوا ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارے دْشمن کون ہیں۔ کیا طالبان پاکستان کے دْشمن ہیں؟ کیا اسرائیل پاکستان کا دْشمن ہے؟ ہم کبھی طالبان کی محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں اَور ہمارے منہ بولے دانش وریہ بتاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مددکرنی ہے۔ پھر جب ہمیں بہت مار پڑی تو ہمیں سمجھ آئی کہ ہم غلط سمجھا کرتے تھے۔ لیکن اْس وقت تک بہت دیر ہوگئی تھی۔

اِس بات کی پاکستان کو بالخصوص اَور مسلمانوں کو بالعموم اشد ضرورت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو ساری دْنیا ہمارے بارے میں سمجھے گی۔ صحیح یا غلط، حق یا ناحق وغیرہ پر کون ہے کون نہیں، اِس سے کسی کو واسطہ نہیں۔ اَب وہ زمانہ ہے کہ آپ سچ بولیں یا جھوٹ ، نہایت زوردار طریقے سے بولیں۔ ہمیں تو جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ اِتنی زیادتیاں ہوئی ہیں کہ اگر ہم صرف اْن کا تذکرہ ہی کردیں تو بہت فرق پڑے گا۔ صرف اپنی بات، اپنے مؤقف، اپنی طرف کی کہانی بہترین طریقے پر سنانی آنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انگریزی میں فلمیں بنائیں اَور اْنہیں ساری دْنیا میں ریلیزکریں۔ Netflixیا اِسی قسم کے دْوسرے پلیٹ فارموں کا اِنتخاب کریں اَور وہاں اَپنی بات پہنچائیں۔ بھارت کتنی ہی ہندی فلمیں اِن پلیٹ فارموں پر ریلیزکرتا ہے۔ حال ہی میں اْس نے بمبئی حملوں پر ایک فلم بنائی ہے۔ آپ اْسے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ بھارتی تو بہت اچھے ہیں۔ وہ تو اِسلام کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آج جو ساری دْنیااسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے تو اِس کے پیچھے میڈیا کی صنعت کا بہت ہاتھ ہے۔ وہ یہودی جن کو ساری دْنیا میں کوئی منہ نہیں لگاتا تھا آج سب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں اَور دْنیا کے نزدیک اِن سے زیادہ مظلوم قوم اَور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ سارے مسلمان ممالک غزہ میں ہونے والی زیادتیوں پر چیخ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں سن رہا۔

یہ بھی جان لیں کہ اِسلام ہرگز کسی نئی چیز کو حرام قرار نہیں دیتا۔ اْس نے حلال اَور حرام کے چندایک قاعدے مقرر کردیئے ہیں۔ اْن کے اَندررہ کر ہر کام حلال ہے۔ آپ غور کریں کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ سیاسی پروگرام، خبرنامہ، مذہبی پروگرام کرنا حرام ہے۔ تب تصویر کی حرمت کہاں جاتی ہے؟ ہمیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت میڈیا سے دْور رکھا گیا تاکہ ہماری آواز دْنیا میں نہ پھیل سکے۔ ہم اَیسے بے وقوف ہیں کہ اَیسی ہر سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی آواز دْنیا تک پہنچانا بیحد ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اَیسے اسکرپٹ لکھوائیں جن پر اَیسی فلمیں بن سکیں جو ہماری بات کو زوردار اَنداز میں دْنیا میں پھیلاسکیں۔ اِس پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ فلم خواہ انگریزی میں ہو یا اْردو میں، اْسے اِتنا اچھا ہونا چاہیے کہ جو بھی دیکھے اْس میں گم ہوجائے۔ اْسے ساری دْنیا تک پہنچانے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ یہ پیار محبت، شادی، ساس کے مظالم، عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے موضوعات کو چھوڑ کر ہمیں اِس طرف آنا ہوگا تاکہ دْنیا کو معلوم ہوسکے کہ پاکستان اَور مسلمانوں کے کیا مسائل ہیں۔ دْنیا کو ہمارے اندرونی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں اب بین الاقوامی سطح پر اپنا نقطہ نظر بتانا ہوگا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ساری د نیا د نیا میں ہیں ا ور د نیا کو ہے کہ ا ہیں کہ

پڑھیں:

ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت

انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔

انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔


عالمی تحقیق اور ابتدا

ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔

 

پاکستان میں ضرورت

پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔


سماجی اور مذہبی رکاوٹیں

پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔


اسلامی ممالک اور علما کا موقف

کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • لازوال عشق
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • نادرا لاہور ریجن میں ’’میری شناخت، میرا تحفظ‘‘ کے موضوع پر خصوصی آگاہی ہفتہ شروع
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage