Nai Baat:
2025-06-01@13:00:25 GMT

190ملین پاؤنڈ!

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

190ملین پاؤنڈ!

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کیا گیا جس کی بازگشت ہمارے اخباری صفحات سے لیکر ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پیجز پر بھرپور طریقے سے سنائی دے رہی ہے۔ سابق وزیراعظم پر درجنوں مقدمات ہیں جن کا وہ سامنا بھی کر رہے ہیں مگر یہ معاملہ برطانیہ میں ایک پراپرٹی کے حوالے سے ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کی وصولی سے متعلق ہے اور سابق وزیراعظم اپنی اہلیہ سمیت اس میں شامل ہیں۔ نہ جانے کیوں بار بار اس کا فیصلہ مؤخر کردیا جاتا ہے۔ ہر مرتبہ نئی وجہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اب کی بار تو ملزمان کا پیش نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ وکلا ء کی عدم حاضری ان کی عدم دلچسپی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ ایک لمبی کہانی کا دلچسپ موڑ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیس نہ صرف قانونی اور سیاسی حلقوں میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے بلکہ عوامی حلقوں میں بھی اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ حکومت کو اپنی سطح پر اس حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا بلا وجہ ایک مہم برپا کردیتا ہے اور لا ء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
جہاں تک اس کیس کی بنیاد کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ معاملہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے 2019 ء میں تحقیقات کے بعد سامنے آیا۔ این سی اے نے برطانیہ میں موجود ایک پاکستانی شخصیت کے اکاؤنٹس اور پراپرٹیز کو غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ اثاثہ جات قرار دیتے ہوئے منجمد کیا تھا۔ بعد ازاں، یہ رقم برطانوی حکومت کی طرف سے پاکستان کو واپس کر دی گئی۔ عمران خان کی حکومت نے اس رقم کو سپریم کورٹ کے جرمانے کی مد نجی ہاؤسنگ کالونی کے مالک ایک بڑے بلڈر کے اکائونٹ میں منتقل کیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیا گیا اور اسے ایک سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حکومت کے جانے کے بعد جب اس پر تحقیقات کا آغاز ہوا تو بہت سے حیران کن پہلو سامنے آئے۔
190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم کی واپسی اور اس کے استعمال پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس قانونی جواز کے تحت ایک پرائیویٹ شخص کے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کی گئی؟ کیا یہ عمل شفافیت کے اصولوں پر پورا اترتا تھا یا اس میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا؟
قانونی ماہرین کے مطابق، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حکومت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا یا اس رقم کو کسی ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ عمران خان جو ہمیشہ کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتے اور دوسروں کو مسلسل چور چور کہتے رہے ہیں، اب خود مبینہ طور پر ایک ایسے کیس میں ملوث ہیں جس میں شفافیت اور احتساب کے اصولوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اس کیس کو ان کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب جبکہ اس کا فیصلہ سنائے جانے کا وقت تھا تو اس سے قبل فیصل واوڈا اور سینئر وفاقی وزیر خواجہ آصف کی پریس کانفرنسز نے مزید سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت تمام حکومت کی حمایتی سیاسی جماعتیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے اس معاملے میں غیر قانونی طریقے سے فائدہ اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس عمران خان کے ’’کرپشن کے خلاف جدوجہد‘‘کے بیانیے کو جعلی اور جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
عوامی سطح پر بھی اس کیس کے حوالے سے ملا جلا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عمران خان کے حامی ان الزامات کو سیاسی انتقام کا حصہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری جانب، ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ کیس عمران خان کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے اور ان کے دعوؤں کی قلعی کھولتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس وقت عالمی سطح پر جن پیچیدہ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یہ کیس بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ پر اثر ڈال سکتا ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیقات اور رقم کی واپسی کے عمل کو دنیا بھر میں شفافیت اور احتساب کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں اس رقم کا غلط استعمال ہوا، تو یہ عالمی سطح پر پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ کیس عمران خان کے سیاسی مستقبل اور تحریک انصاف کی ساکھ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر عدالتوں میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کوئی غیر قانونی عمل ہوا، تو عمران خان کو سنگین قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی جماعت کی مقبولیت اور ان کے بیانیے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کا یہ کیس نہ صرف عمران خان کے لیے بلکہ پاکستان کی سیاست اور قانون کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ کیس اس بات کا تعین کرے گا کہ پاکستان میں احتساب اور شفافیت کے دعوے کس حد تک حقیقی ہیں۔ عوام کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ معاملہ ایک نئی تبدیلی کی طرف لے جائے گا یا پھر یہ بھی دیگر کیسز کی طرح سیاسی بھنور میں گم ہو جائے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عمران خان کے ملین پاو نڈ حوالے سے کے خلاف رہے ہیں ثابت ہو سکتا ہے کے لیے یہ کیس

پڑھیں:

عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) عید سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ممکنہ رہائی کے حوالے سے افواہوں کی قومی احتساب بیورو اور حکومتی ذرائع نے بھرپور تردید کردی ہے۔

حتیٰ کہ پی ٹی آئی کوبھی ایسا ہونے کی توقع نہیں ۔ یہ تردید میڈیا میں اور بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے ان قیاس آرائیوں کے دوران سامنے آئی ہے جو کہ عمران خان کی جلد رہائی کے حوالے سے قانونی پیشرفت یاممکنہ ڈیل کے حوالے سے گردش میں تھیں۔

نیب عہدیدار کے مطابق کسی عدالت میں فی الوقت ایسا کوئی بھی مقدمہ نہیں ہے جس سے عمران خان کی رہائی کا امکان بنتا ہو۔ نیب کے ایک ذریعے نے تصدیق کی کہ ابھی تک نیب کو کسی ایسے معاملے میں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا جو عید سے پہلے ان کی ضمانت یا رہائی کا سبب بنے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ضابطوں کے تحت کسی سزا یافتہ فرد کو ریلیف دینے سے قبل پراسیکیوشن کو سنا جانا ضروری ہوتا ہے، جو اب تک نہیں ہوا۔

ادھر حکومتی ذرائع نے بھی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عمران خان کو کسی قسم کی ڈیل کی پیشکش نہیں کی گئی، اور ان کی رہائی کے لیے پس پردہ کوئی انتظام یا مفاہمت زیرِ غور نہیں۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نہ کوئی مفاہمت ہے، نہ کوئی بات چیت اور نہ ہی کوئی پیشکش موجود ہے۔

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے ہفتے کے روز راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ عمران خان کی فوری رہائی کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نہ کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی نرمی برتی جا رہی ہے، یہ سب افواہیں بے بنیاد ہیں۔

نعیم حیدر پنجوتھا نے یہ بیان 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق سماعت کے بعد دیا۔

ان وضاحتوں کے باوجود کچھ پی ٹی آئی رہنما اور میڈیا تجزیہ کار اب بھی امید رکھتے ہیں کہ عمران خان کو عید سے قبل ضمانت مل جائے گی۔

ان کی امیدیں 5 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے وابستہ ہیں، جہاں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کی معطلی کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

تاہم نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ تاحال اس معاملے میں بھی کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا۔

قانونی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی درخواستوں میں عمومی طور پر طریقہ کار کے مطابق تاخیر ہوتی ہے اور کئی سماعتیں درکار ہوتی ہیں قبل اس کے کہ کوئی حتمی ریلیف دیا جا سکے۔

دوسری جانب، موجودہ قانونی صورتحال بھی سابق وزیر اعظم کے لیے کسی فوری ریلیف کی نوید نہیں دیتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ عمران خان کی £190 ملین کے القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سالہ سزا کے خلاف اپیل سننے کا امکان 2025ء میں نہیں۔

ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ایک ڈویژن بینچ کو جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ اپیل جنوری 2025 میں دائر کی گئی تھی اور یہ اب بھی موشن اسٹیج پر ہے جبکہ کیسز کی سماعت کے لیے ایک پالیسی موجود ہے جو پرانے مقدمات کو ترجیح دیتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا یافتہ قیدیوں کی 279 اپیلیں زیرِ التواء ہیں جن میں 63 سزائے موت اور 73 عمر قید کی اپیلیں شامل ہیں۔

نیشنل جوڈیشل (پالیسی ساز) کمیٹی کی ہدایت کے تحت پرانے کیسز کو ترجیح دی جا رہی ہے لہٰذا عمران خان کی اپیل موجودہ کیلنڈر سال میں باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔
انصار عباسی

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ ’’مذاکرات‘‘ میں ڈیڈ لاک
  • عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں
  • عمران خان کا حکومت مخالف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان
  • عمران خان حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے، بیرسٹرسیف
  • عمران خان نے حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا، بیرسٹر علی ظفر
  • عمران خان کا اپنی قیادت میں حکومت مخالف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • عمران خان کا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی کوئی مجبوری نہیں کہ وہ عمران خان سے بات کریں، فیصل چوہدری نے پی ٹی آئی کی اندرونی کمزوریوں کا پول کھول دیا
  •  2 سال پہلے عمران خان سے کہا گیا کہ آپ 3 سال تک چپ رہیں اور چوری شدہ مینڈیٹ کی حکومت کو چلنے دیں: علیمہ خان
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ،190ملین پاونڈ کیس میں عمران خان، بشری بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر