کتب بینی بہت عمدہ ذوق اور وصف ،جبکہ کتاب لکھنا اک عظیم عمل ہے۔ باشعور اور مہذب معاشروں میں ان دونوں کا رواج عام ہے۔ جہاں کتاب کی بڑی قدر کی جاتی ہے ۔کسی کو کتاب کا تحفہ دینا انتہائی عزت افزا انداز سمجھا جاتا ہے۔یوں تحفے میں ملی کتاب کی الگ ہی خوشی ہوتی ہے۔ معاشرے میں آج علم و ادب کے دلدادہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کتاب کلچر کو زندہ و جاوید رکھا ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا کی آندھی میں بھی کتاب کلچر کا چراغ بجھنے نہیں دیا۔ ان میں ایک مکرمی عزیز الرحمن مجاہد بھی ہیں۔ جو ہمارے علاقے کے اک منجھے ہوئے صحافی اور بڑے سرگرم سماجی کارکن ہیں۔ یہ اکثر اپنی علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں کی رپورٹ مجھ سے شئیر کرتے رہتے ہیں ۔چند روز قبل بذریعہ پارسل انہوں نے مجھے ایک کتاب بھیجی۔ جس کو بصد شوق اور قلبی شکریے سے میں نے وصول کیا ۔کتاب کا تحفہ میرے لئے ویسے بھی بڑا معنی و مقام رکھتا ہے ۔
سٹر یس مینجمنٹ پر لکھی یہ بڑی شاندار کتاب ہے جس کو دور حاضر کی ابھرتی قلم کار عائشہ فیصل نے تخلیق کیا ہے ۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ مصنفہ عزیز الرحمن مجاہد کی ہمشیرہ ہیں ۔جس نے ہمارے ذوق اور اشتیاق مطالعہ کو بڑھا دیا ۔قلت وقت کے باوجود میں نے فوراً ورق گردانی شروع کردی ۔ عائشہ فیصل کی یہ پہلی کاوش ہے۔ اتنا مشکل موضوع چن کر اس پر خامہ فرسائی ہمالیہ سر کرنے سے کم نہیں ۔لیکن مصنفہ نے اپنی عمدہ صلاحیتوں سے اس کو بڑے احسن اور متاثر کن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔ کتاب کا ہر باب اور پیرا گراف دلچسپی اور مقناطیسی اثرات سے لبریز ہے۔قاری کو ابتدا سے لے کر آخر تک ساتھ باندھے رکھتا ہے ۔ مصنفہ نے کمال ذہانت و فطانت سے خشک موضوع کو دلچسپ اور پرکشش بنایا ہے۔ زبان و بیان کی سادگی اور سہل فہمی نے اس کی اہمیت اور مقبولیت کو مزید اٹھا دیا ہے ۔ اس موضوع پر لکھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ لیکن زیر تبصرہ کتاب سادگی ، سہل فہمی اور جاذبیت کے لحاظ سے سب سے منفرد ہے ۔
نفسیات اور طب پہ لکھی تحریریں پیچیدہ اور ناقابل فہم اصطلاحات کے باعث بڑی ثقیل اور روکھی ہوتی ہیں۔تاہم عائشہ فیصل کے اس تخلیقی شاہکار کا معاملہ بالکل منفرد ہے ۔ نوجوان مصنفہ نے مادیت کی شاہراہ پر دوڑتے اس دور کو قریب سے دیکھا ہے ۔اس کے دامن میں پرورش پاکر اس کی تلخیوں کو محسوس کیا ہے ۔ معاشرے کو درپیش نفسیاتی اور طبی مسائل سے خود کو بخوبی آگاہ رکھا ۔ اس کے علاوہ اپنے دل میں خدمت انسانیت کا جذبہ ہمیشہ زندہ و متحرک رکھا ہے۔حساس دل اور بیدار مغز کی یہ لڑکی ہر لمحہ دکھی انسانیت کے دکھ دور کرنے کا سوچتی رہتی تھی ۔اسی سوچ اور جذبے کی شدت سے مغلوب ہو کر اس نے شبانہ روز محنت و ریاضت سے اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔اس کے کل چھیانوے صفحات ہیں ۔ اس میں مواد کو خاص مقصدیت اور حکمت کے مطابق مختلف ذیلی موضوعات میں بانٹ کر چھوٹے چھوٹے پیرا گراف اور ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کتاب نفسیاتی مسائل کو جہاں بڑے احسن طریقے سے اجاگر کرتی ہے وہاں قاری اپنی ذہنی صحت کا بھی آسانی سے جائزہ لے سکتا ہے۔اس میں کچھ سوالات پر مبنی خود آزمائشی کی اک خاص مشق ہے۔جس سے گزر کر قاری اپنے ذہنی تنائو اور ڈپریشن کی حقیقت کا اندازہ کر سکتا ہے۔
ذہنی مسائل زیادہ طرح جذباتی اتار چڑھا، من اور مزاج پر ہونے والے منفی اثرات سے جنم لیتے ہیں ۔ اگرچہ طبی و نفسیاتی سائنس کی ترقی کے اس دور میں ایسی الجھنوں کے بڑے مستند اور مجرب نسخے اور علاج موجود ہیں ۔ مگر زیر نظر کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں تنائو اور یاسیت کی تاریکی مٹانے کے بڑے قیمتی حوالے دئیے گئے ہیں۔جن کے بیج چمن حیات میں بو کر انسان معمول کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ جس سے ہمارا دل قوی اور عزم صمیم ہو کر تنائو اور مایوسی کو شکست دے سکتا ہے ۔اس کے علاوہ طرز حیات میں کچھ تبدیلیاں بھی تجویز کی گئی ہیں جن سے سٹریس کا جن قابو کیا جا سکتا ہے ۔ دور حاضر کے سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں ایسی کتاب کی بڑی افادیت اور اہمیت ہے ۔اس کی تخلیق خدمتِ خلق ِخدا سے کم نہیں ۔ نیک اور عظیم کام کی جتنی بھی مصنفہ کو داد دی جائے کم ہے۔ کسی بھی ذہنی تنائو یا جذباتی مسائل سے دوچار شخص اس کتاب سے بھر پور استفادہ کر سکتا ہے ۔اس میں بتلائے گئے اصول اور طریقوں پر عمل پیرا ہوکر درپیش نفسیاتی الجھنوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ بس ایک بار ’’سٹریس مینجمنٹ‘‘ پر لکھی اس شاندار کتاب کا مطالعہ شرط ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر سکتا ہے؟
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرصدارت بھارتی کابینہ کے اجلاس کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔جیو نیوز کے مطابق سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ 1960 کا سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کو دیے گئے تھے جبکہ معاہدے کے تحت راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دیے گئے تھے۔
پنجاب میں کلینک آن وہیل کیلئے جدید گاڑیاں خریدنے کی منظوری، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں مانیٹرنگ، رپورٹنگ اینڈ ایلویشن ڈیپارٹمنٹ کا الگ شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ
بھارت کی طرف سے ماضی میں متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین سال سے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا، دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہو نا ضروری ہے۔ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرکی طرف سے بھارتی ہم منصب کو اجلاس بلانے کے لیے متعدد بار خط لکھا گیا لیکن کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
وزیراعلیٰ مریم نواز سے فیصل آباد ڈویژن کے ارکان صوبائی اسمبلی کی ملاقات
مزید :