سرمائی کھیلوں سے چین کے شمال مغربی علاقوں کے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
سرمائی کھیلوں سے چین کے شمال مغربی علاقوں کے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ WhatsAppFacebookTwitter 0 14 January, 2025 سب نیوز
لان ژو(شِنہوا)چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے تعلق رکھنے والے ایک کسان لو چونگ گوئی کو چند سال پہلے تک موسم سرما کے مہینوں میں بہت کم کام کرنا پڑتا تھا تاہم 2021 سے کئی دیگر مقامی کسانوں کے ساتھ انہوں نے موسم سرما کے مقامی کھیلوں کی صنعت سے خاصی آمدنی حاصل کی ہے۔
52 سالہ لیو اور بہت سے دیگر کسان بائی یِن سٹی کی جِنگ تائی کاؤنٹی میں برف کے کھیلوں کے ایک قومی تربیتی مرکز پر سنو میکرز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
رات کے تقریباً 8 بجے لو اور ان کے ساتھی ٹوپیاں، ہیڈ لیمپ اور دستانے پہن کر کام پر نکلتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ سنوگن کھولنے سے پہلے پانی کے پائپ منجمد ہیں یا نہیں۔
کام سے واپسی پر لو نے کہاکہ ہم سورج طلوع ہونے تک ہر آدھے گھنٹے بعد سنوگنز کو چیک کرنے اور ان کے زاویوں کو درست کرنے کے لئے باہر جائیں گے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہوا کی سمت میں اچانک تبدیلی تشویش کا باعث ہے کیونکہ وہ رات کے وقت سنو گنز کو آسانی سے منجمد کرسکتے ہیں۔
لو نے کہا کہ تربیتی مرکز پر کام کرنے سے پہلے میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر مکئی اور آلو لگاتا تھا اور سجاوٹ کرنے والے کے طور پر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ گھر سے کچھ دور تھا۔
برف ساز کے طور پر کام کرنے کے بعد لو اب اپنے آبائی شہر کو چھوڑے بغیر ہر ماہ 4 ہزار یوآن (546 امریکی ڈالر) سے زیادہ کماتاہے۔
لو کے ساتھی دیہاتی اور تربیتی مرکز کے ڈائریکٹر کومنگ فو نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں لو اور دیگر کسسانوں نے آہستہ آہستہ برف بنانے کی مہارت حاصل کر لی ہے اور ان کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کومنگ فو نے کہا کہ جب انہوں نے 2021 کے آخر میں پہلی بار برف بنانا شروع کیا تھا، تو 30سے زیادہ مقامی دیہاتیوں نے برف کی پٹری کے کنارے 24گھنٹے کام کیا تھا۔
بہتر سازوسامان اور زیادہ تجربے کے ساتھ برف بنانے کی ٹیم اب اس موسم سرما میں برف بنانے کی چار گنز کو چلانے والے 5 افراد تک محدود ہوگئی ہے۔
لو نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ سرمائی پیرالمپکس میں شرکت کرنے والے ایتھلیٹس نے ہماری برف کی تعریف کی۔
بیجنگ سرمائی پیرالمپکس شروع ہونے سے قبل پیرا نارڈک اسکیئنگ کی قومی ٹیموں نے یہاں تربیت حاصل کی۔ لیو اور ان کی ٹیم نے 8 میٹر چوڑا، 5 کلومیٹر طویل کراس کنٹری اسکیئنگ ٹریک کو ہموار کیا تھا جو مختلف برفانی کھیلوں کے مقابلوں کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔
ٹریننگ بیس کے جنرل منیجر ژو جیفائی نے کہا کہ تربیتی مرکز اور اسکی ریزارٹ میں 100 سے زائد کارکن کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مقامی کسان ہیں۔
دریں اثنا ہمسایہ صوبہ چھنگائی میں بہت سے اسکی ریزارٹس ہر موسم سرما میں مقامی کسانوں کے لئے مستحکم روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سنکیانگ ویغور خود مختار خطے میں اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023-2024 کے موسم سرما سے اس خطے نے 9 کروڑ 25 لاکھ 80 ہزار مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کا خیرمقدم کیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 147.
آج چین میں 30 کروڑ سے زیادہ افراد موسم سرما کے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں اور برف جیسے “ٹھنڈے وسائل” ملک کے مغربی علاقوں میں “گرم معیشت” کا حصہ بن گئے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی آمدنی
پڑھیں:
غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔
مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔
تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔
یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔
قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔
حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔
اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔
غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔
انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔
اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔
مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔
مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔
اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔
علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)