پاکستان، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سب سے پیچھے
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
پاکستان خطے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت، فلپائن، ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔
پاکستان نے ایک سال میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.
وزیر اعظم شہباز شریف نے لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقعے کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اس بات کو تسلیم کیا کہ دوکروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں اور صرف 48 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو نیوٹریشن Nutrition اور غذائی قلت Food Securityکے شدید چیلنجزکا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک بھر میں 22 فیصد افراد کو مناسب غذا کی دستیابی کے بحران کا سامنا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 38 فیصد بچے ماں کے دودھ پر زندہ ہیں اور 5 سال کی عمر تک نے 40 فیصد کی بچوں کی گروتھ Stunted نہیں ہو پاتی۔ اسی طرح 28.9 فیصد بچے انڈر ویٹ اور آدھے بچے Anemic ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر تحریرکیا گیا ہے کہ حکومت نے فوڈ سیکیورٹی کے اس سنگین بحران پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو Sustainable Development Goals (SDGS) 2030 کا ٹارگٹ پورا نہیں کرسکے گا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 25.3 فیصد ہے۔
اس تناظر میں پاکستان خطِ غربت کے عالمی انڈیکس میں 192 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ دنوں میں شایع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ممالک میں 52ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے مگر مردوں اور خواتین میں خواندگی کے حوالے سے بہت بڑا فرق ہے۔
مردوں میں خواندگی کا تناسب 8 فیصد اور خواتین میں 54.84 فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں عمرکا تناسب 66.43 فیصد ہے۔ پاکستان میں شوگر، دل کے امراض، فالج اورگردوں کی بیماریاں عام ہیں۔ پاکستان میں تعلیم اور صحت اور صد فی صد خواندگی اور خطِ غربت کی شرح کم نہ ہونے سے ملک خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تعلیم اور صحت کبھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ سابق چیف سیکریٹری اور ملک میں تبدیلی کی تحریک کے معروف کارکن تسنیم صدیقی نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ جب پاکستان کے قیام کے بعد وزیر خزانہ غلام محمد نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس بجٹ میں سب سے کم رقم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی گئی اور اب تک اسی روایت پر عمل ہورہا ہے۔
معروف ماہرِ معاشیات شاہد جاوید نے ایک آرٹیکل میں تعلیم اور صحت اور پاکستانی ریاست کی پسماندگی کے حوالے سے لکھا تھا کہ آل انڈیا کانگریس نے آزادی کے بعد نئے بھارت میں تعلیم اور صحت کی ترقی کے لیے ایک قابلِ عمل منصوبہ تیارکیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت سیکڑوں نوجوانوں کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے برطانیہ بھیجا گیا تھا اور یہ نوجوان جب پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس آئے تو انھوں نے بھارت کی ترقی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
ایک اور ماہرِ تعلیم انیتا غلام علی کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک ماہرِ تعلیم کی قیادت میں نئے ملک کے تعلیمی نظام کی تعمیر کے لیے ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا گیا مگر جب پاکستان وجود میں آیا تو برسرِ اقتدار حکومت نے اس رپورٹ پر توجہ نہ دی۔
دراصل پاکستان کے قیام کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے رہنماؤں کے ذہنوں میں ملک کی ترقی کا کوئی وژن ہی نہیں تھا۔ ان حکمرانوں نے نجات کا راستہ امریکا کے سائے میں تلاش کیا۔ قبائلی پٹھانوں کا ایک لشکر کشمیر میں داخل ہوگیا۔ اس لشکرکی کارروائی کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ ترقی کا سارا معاملہ برطانیہ اور امریکا کی امداد تک محدود ہوا۔ یوں شعبہ تعلیم میں جو ترقی ہوئی وہ پہلے کولمبو پلان کے تحت ہوئی اور پھر امریکا کی امداد سے تعلیم و صحت کے شعبوں میں ترقی کی کچھ منازل طے ہوئیں۔
غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق وغیرہ کے ذہنوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کی اہمیت کا ادراک نہیں تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان جب مغربی پاکستان کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے تو ڈاکٹر محبوب الحق کو مغربی پاکستان سیکریٹریٹ میں سیکریٹری خزانہ تعینات تھے۔ ڈاکٹر محبوب الحق جب بھی مغربی پاکستان کا بجٹ بناتے تو تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرتے مگر گورنر صاحب یہ رقم اپنے ہاتھوں سے کم کردیتے۔
جب ڈاکٹر محبوب الحق نے تیسری دفعہ یہ کوشش کی تو نواب آف کالا باغ نے ڈاکٹر محبوب الحق کو طلب کیا۔ نواب آف کالا باغ نے پنجابی لہجہ میں ڈاکٹر محبوب الحق سے پوچھا کہ وہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیوں کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ملک کو زیادہ تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے تو گورنر صاحب نے فوراً کہا کہ اتنے تعلیم یافتہ افراد کافی نہیں لگتے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں تعلیم کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا تھا۔ جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو تعلیمی پالیسی پیش کی جس کے تحت تعلیمی اداروں کو قومیایا گیا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے علاوہ نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اہم ادارے قائم ہوئے۔ اساتذہ کو وہی اسکیل دیا گیا جو سی ایس پی افسروں کو ملتا تھا جس کی بناء پر اسکولوں کا استاد بھی گریڈ 19 اور گریڈ 20 تک پہنچ سکتا تھا۔
اس پالیسی کے تحت چاروں صوبوں میں جنرل یونیورسٹیاں قائم کی گئیں مگر پیپلزپارٹی کی حکومت نے تعلیم پر خرچ ہونے والے اخراجات پر رقم بڑھا دی، البتہ یہ رقم یونیسکو کے بین الاقوامی معیار کے مطابق جی ڈی پی کے 5 فیصد تک نہیں پہنچ سکی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صحت کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کیں۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں کی لوٹ مار کو روکنے کے لیے ادویات کی جنرک اسکیم نافذ کی گئی۔ یہ اسکیم یورپی ممالک کے علاوہ بھارت میں بھی نافذ ہے۔
چاروں صوبوں میں نئے اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ سرکاری شعبے میں فرائض انجام دینے والے جونیئر ڈاکٹروں کو گریڈ 17 تفویض کیا گیا، یوں ڈاکٹرگریڈ 22 کی اسامی تک کے حقدار قرار پائے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت برسر اقتدار آئی تو نجی شعبے کو تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کی اس پالیسی کے نتیجے میں تعلیم اور صحت کموڈٹی کے طور پر مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے 1988 اور 1993کے انتخابی منشوروں میں وعدہ کیا تھا کہ تعلیم کا بجٹ یونیسکو کے معیار کے مطابق 5 فیصد جی ڈی پی کیا جائے گا مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ یہی صورتحال مسلم لیگ، پرویز مشرف اور تحریک انصاف کے ادوار میں رہی۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ نہ ہونے سے پاکستان بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے رہ گیا۔ ایسی ہی صورتحال صحت کے شعبہ میں ہوئی۔
موجودہ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کی رائے ہے کہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے مگر وزیر خزانہ نیو لبرل ازم کے نظریے کے تحت تعلیم اور صحت کے لیے مختص رقم میں اضافہ کے لیے تیار نہیں۔
وزیر اعظم نے عالمی کانفرنس میں ناخواندہ خواتین اور کروڑوں بچوں کے اسکول نہ جانے کا تو ذکر کیا مگر انھوں نے یونیسکو کے معیار کے مطابق تعلیم کے بجٹ میں خاطر خوا اضافہ کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو اپنانا ہوگا اور بجٹ کا بیشتر حصہ تعلیم ، صحت اور غربت کے خاتمے پر خرچ ہونا چاہیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں تعلیم اور صحت ڈاکٹر محبوب الحق تعلیم کے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے ہے کہ پاکستان پاکستان میں اور صحت پر رپورٹ میں میں اضافہ حکومت نے کا تناسب کے مطابق اس رپورٹ ممالک کے جی ڈی پی فیصد ہے نے اپنے کیا گیا کے تحت تھا کہ نے ایک کے لیے
پڑھیں:
بابر اعظم کا ٹی20 کرکٹ میں ایک اور ریکارڈ، روہت کے بعد کوہلی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
لاہور:قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابراعظم نے سابق کپتان روہت شرما کا سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ توڑنے کے بعد ویرات کوہلی کا ٹی20 کرکٹ میں ایک اننگز میں 50 سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرے اور آخری ٹی20 میچ میں پاکستان 4 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے سیریز بھی جیت لی اور وہی تجربہ کار بیٹر بابراعظم نے ٹی20 ٹیم میں واپسی کے بعد سیریز میں دوسرا ریکارڈ اپنے نام کرلیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے پاکستان کو میچ اور سیریز جیتنے کے لیے 140 رنز کا ہدف دیا تو صاحبزادہ فرحان اور صائم ایوب ایک مرتبہ پھر بڑی اوپننگ شراکت کرنے میں ناکام رہے تاہم بابراعظم نے اچھی بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کو جیت پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔
بابراعظم نے میچ میں 9 چوکوں کی مدد سے 68 رنز کی اننگز کھیلی جو ان کے کیریئر کی 40 اننگز تھی، جس میں انہوں نے 50 سے زائد رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
قبل ازیں بھارت کے ٹی20 سے ریٹائرمنٹ لینے والے بھارتی بیٹر ویرات کوہلی نے 125 میچوں میں 39 مرتبہ 50 سے زائد رنز بنانے کا ریکارڈ بنایا تھا۔
روہت شرما یہ کارنامہ اپنے ٹی20 کیریئر میں 37 مرتبہ انجام دے چکے ہیں اور 159 میچوں میں انہوں نے یہ ریکارڈ بنایا تھا۔
پاکستان کے محمد رضوان نے صرف 106 میچوں میں 31 مرتبہ 50 سے زائد رنز کی اننگز کھیلنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے، پانچویں نمبر پر آسٹریلیا کے سابق بیٹر ڈیوڈ وارنر ہیں جنہوں نے 29 مرتبہ 50 رنز سے بڑی اننگز کھیلی۔
پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ٹی20 سیریز میں 1-2 سے شکست دے، بابراعظم کو ذمہ دارانہ بیٹنگ پر میچ اور فہیم اشرف کو بولنگ میں اچھی کارکردگی پر ٹی20 سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔