نظام میں تبدیلی کے امکانات
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ سسٹم پر اس کا کنٹرول ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کے مفادات کا پہلو کمزور ہو گیا ہے، سسٹم کے خلاف جو کچھ سامنے آتا ہے اور جو طبقے اس نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، سسٹم کو ان کی پرواہ نہیں ہے۔
عوامی طبقوں کا گلا کسی ایک سیاسی جماعت یااس کی قیادت سے نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی ریاستی ادارے پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں بلکہ ان کو تو لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا ریاستی اور حکومتی نظام اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور نظام میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔
ادھر طاقت کے مراکز ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، ایسے میں عوام کے مفادات کی طرف کسی کا کوئی دھیان نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنے مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر پا رہے اور مرض کو معمولی نوعیت کا مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا نعرہ مذاق بن گیا ہے، ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ صاف وشفاف ہے اور وہ ملک چلانے کا مستحق ہے۔ سیاست، جمہوریت، معیشت، سیکیورٹی اور گورننس کے بحران نے ہمیں تنہا کر دیا ہے۔
ہمارا بحران صرف حکومتی یا سیاست کا نہیں بلکہ یہ ایک ریاستی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جہاں اشرافیہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے اور بداعتمادی کے اس ماحول میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
سیاست، جمہوریت، معیشت ،سیکیورٹی اور گورننس کی زوال پذیری نے ہمیں بے دست و پا کر دیا ہے۔ داخلی اور خارجی معاملات میں مسائل کو نظر انداز کر کے ہم سمجھ رہے ہیں کہ مسائل حل ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت بتدریج کمزور ہو رہی ہے، قانون کی حکمرانی کا پہلو بھی کئی طرح کی کمزوریاں دکھا رہا ہے۔ میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔
حالات نے ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھا دی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مختلف شرپسند گروپوں اور گروہوں نے بھی ڈیجٹل میڈیا تک رسائی حاصل کرکے ریاستی نظام کے لیے خطرات پید اکردیے ہیں۔ اب دنیا بھر میں حکومتی ترجیحات میں ڈیجیٹل میڈیا کو منفی قوتوں سے بچانے کے لیے قوانین بنانا شامل ہورہا ہے۔ آج کی دنیا ایک گلوبل دنیا ہے جہاں ایک دوسرے سے کٹ کر نہیں جی سکتے، ہمیں جدید تصورات کی بنیاد پر نئے نظاموں کا ماڈل تلاش کرنا ہے جو حقیقی طور پر ہمارے پہلے سے موجود مسائل حل تلاش کر سکیں گے۔
طاقتور طبقے کی حکمرانی ،ایک طبقاتی قسم کا سیاسی انتظامی قانونی اور معاشی نظام ہم پر مسلط ہے ۔ایک موثر اور مضبوط نظام کے لیے ہمیں ایک قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جو سب کو جوڑ کر ایک متبادل حل کی طرف لے کر جا سکے، یہ کام کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں کر سکتی بلکہ اس کے لیے ساری سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک ایسا لائحہ عمل دینا ہوگا جو معاشرے میں لوگوں کو ریاستی نظام کے ساتھ جوڑ سکے، اسی طرز کی ریاستیں آج جدید تصورات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، ہمیں بھی اسی راستے کو اختیار کرنا ہے۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہم اپنی سمت درست کر لیں تو بہت سے مسئلے خود سے حل ہو سکتے ہیں۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں، موجودہ نظام اب نہیں چل سکے گا، لوگ اس نظام میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایک ایسی تبدیلی جو ان کے بنیادی مسائل کا حل سامنے لا سکے اور لوگوں کو لگے کہ یہ نظام حکومت عوامی مفادات کے ساتھ کھڑا ہے۔
اسی طرح سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے آئین اور قانون کی حکمرانی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے اور اسی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا کر ہم دنیا میں اپنی جمہوریت کے اعلیٰ معیارات قائم کر سکتے ہیں وگرنہ جمہوریت اور سیاست کا یہ کھیل اس ملک میں ایک تماشے کے طور پر موجود رہے گا عوام اس میں غیر اہم ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قانون کی حکمرانی ایک دوسرے نظام کے رہے ہیں نہیں ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور معروف سیاست دان پرویز خٹک وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر بننے کے بعد ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں اور اپنے حلقے نوشہرہ میں غیر جماعتی بنیادوں پر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ عام انتخابات میں شکست کی بنا پر عوام سے بدستور ناراض ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پرویز خٹک بادام نہیں توڑ سکتا پی ٹی آئی کو کیا توڑے گا، اختیار ولی کی شدید تنقید
پرویز خٹک کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں تاہم ہفتہ اور اتوار کو آبائی علاقے منکی شریف نوشہرہ آتے ہیں اور ووٹرز سے ملتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی پرویز خٹک نوشہرہ ائے اور کارنر میٹنگ سے خطاب بھی کیا۔ جس میں انہوں نے حلقے کے ووٹرز سے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
’جن کو ووٹ دیا ہے وہ جانیں ترقیاتی کام‘پرویز خٹک نے کہا کہ جن کو ووٹ دیا ہے، وہی جانیں، اور جنہوں نے ترقیاتی کام دیکھے ہیں، انہیں بھی جانچنا ہوگا۔ میں نے آپ لوگوں کی خدمت کی، لیکن اس کا صلہ کچھ اور ملا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے، میں بھی ہر حد تک ان کا ساتھ دوں گا۔
اپنے خطاب میں پرویز خٹک نے واضح بتا دیا کہ اب وہ کوئی کام نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کام کرنے کے لیے کسی عہدے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ انہیں دکھ اس وقت ہوا انہیں ان کی خدمات اور کاموں کا صلہ نہیں دیا گیا۔
انہوں نے اپنے ووٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو نوکریاں دیں، لیکن ووٹ کے وقت کسی نے انہیں یاد نہیں رکھا۔
پرویز خٹک حلقے کے ووٹرز سے خفا کیوں؟سال 2023 میں عمران خان سے راہیں جدا کرنے کے بعد پرویز خٹک نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی اور عام انتخابات کے لیے مہم شروع کی، وہ جیت کر وزیر اعلیٰ بننے کا کھلم کھلا اعلان کررہے تھے، وہ پُر امید تھے کہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی بنیاد لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ لیکن انتخابات میں نتائج یکسر مختلف آئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد انہوں نے اپنی ہی جماعت کی سربراہی اور رکنیت سے استعفی دیا اور سیاست سے دوری اختیار کر لی۔
پرویز خٹک کافی عرصے تک سیاسی منظر نامے سے غائب رہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہاب الرحمن بتاتے ہیں پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں۔ اور پہلے کی طرح حلقے پر توجہ نہیں دے رہے۔
یہ بھی پڑھیں:عوام خیبرپختونخوا حکومت سے مایوس، عام انتخابات میں لوگ اندھے بہرے ہوگئے تھے، پرویز خٹک
انہوں نے کہا پرویز خٹک کی ناراضگی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عام انتخابات میں شکست ہے۔ اور اسی وجہ سے حلقے میں آنا بھی کم کر دیا تھا اور اسلام آباد میں رہائش کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم مشیر بننے کے بعد وہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں اور حلقے کا رخ بھی کر رہے ہیں۔
خوشی اور غم میں شرکتشہاب نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے کے عوام کے خوشی اور غم میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ لیکن شکست کے بعد اب لوگوں کا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پرویز خٹک حلقے میں اپنے مخالفیں کو بتا رہے ہیں کہ انہیں ووٹ کی ضرورت نہیں اور ووٹ کے بغیر بھی وہ عہدہ لے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے میں غیر سیاسی بنیادوں پر سرگرم ہیں اور ابھی تک کسی سیاسی جماعت میں باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔
پرویز خٹک اپنی سیاست زندہ رکھنا چاہتے ہیںشہاب کے مطابق پرویز خٹک ناراض ضرور ہیں لیکن وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ہفتے میں 2 دن باقاعدگی سے حلقے میں گزرتے ہیں۔ اور لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں کنتے ترقیاتی کام ہو رہے تھے اور اب کیا صورت حال ہے۔ پرویز خٹک کے پاس اب عہدہ ہے۔ اب وہ ووٹرز کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پرویز خٹک کا مختصر سیاسی پس منظرپرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما رہے اور 2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ 2018 سے 2023 تک وفاقی وزیر دفاع بھی رہے۔ ان کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا
پروی
2023 کے بعد انہوں نے اپنی الگ سیاسی راہ اختیار کی۔ اور پی ٹی آئی پی کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت بنا کر الیکشن میں حصہ لیا۔ لیکن انہیں بری طرح شکست ہوئی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خیبر پختونخوا میں لانج لیا گیا تھا،مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک نے سیاست سے آرام لینے کا اعلان کیا اور کافی عرصے تک سیاست سے دور رہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ بن گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پرویز خٹک پی ٹی آئی پی ٹی آئی پی عمران خان نوشہرہ