یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایرانی سفارتکاروں کے مطابق جمعے کے روز یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملات پر''کھلے اور تفصیلی‘‘ مذاکرات ہوئے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ تہران کے ساتھ یورنیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ مزید تعاون سے متعلق پیش رفت ہو۔ یورپی طاقتیںمتنبہ کر چکی ہیں کہ اگر ایران کسی معاہدے تک نہیں پہنچتا تو اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
مذاکرات کا یہ تازہ دور استنبول میں ہوا۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی فوجی اور جوہری اہداف پر حملوں اور امریکی بمبار طیاروں کے تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد یہ پہلے جوہری مذاکرات تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں اعلیٰ ایرانی کمانڈرز، جوہری سائنس دان اور دیگر سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جب کہ متعدد رہائشی اور عسکری علاقے بھی فضائی کارروائیوں کا ہدف بنے۔
(جاری ہے)
ان حملوں نے اپریل میں امریکہ اور ایران کے درمیان مجوزہ جوہری مذاکرات کو بھی متاثر کیا۔ای تھری کہلانے والی تین یورپی طاقتیں یعنی فرانس، جرمنی اور برطانیہ 2015 کے غیر فعال ہو چکے جوہری معاہدے کے احیاء کی کوشش میں ہیں۔ یورپی حکام کے مطابق اگر ایران جوہری معاہدے پر متفق نہیں ہوتا تو اس کے خلاف سخت پابندیوں کا ''اسنیپ بیک میکنزم‘‘ فعال ہو جائے گا۔
یورپی ذرائع کے مطابق یہ میکنزم اگست کے آخر تک فعال ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب تہران نے خبردار کیاہے کہ اگر یورپی ممالک اس میکنزم کو فعال کرتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
جوہری مذاکرات کے اس تازہ دور میں ایرانی وفد میں سینیئر مذاکرات کار مجید تخت روانچی کے ہمراہ نائب ایرانی وزیرخارجہ کاظم غریب آبادی بھی شریک تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے یورپی موقف پر تنقید کی اور اسنیپ بیک میکنزم (پابندیوں کے نفاز کا طریقہ کار) کے یورپی انتباہ کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا گیا۔
ان مذاکرات میں جوہری بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ان مذاکرات سے قبل ایک یورپی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ متفقہ حل پر عدم اتفاق کی صورت میں یہ تینوں یورپی ممالک پابندیوں کی بحالی کے میکنزم کو فعال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یورپی ذرائع کے مطابق یورپی وفد ایران سے یورینیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے سے سے تعاون دوبارہ شروع کرنے کے لیے واضح اشاروں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری مذاکرات کے مطابق کے ساتھ
پڑھیں:
کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے
موجودہ دور میں میڈیا بہت اہم ہے۔اسرائیل مغرب کی مدد سے ہر انتہائی اہم سیکٹر پر چھایا ہوا ہے۔ میڈیا پر اسرائیلی گرفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایران ،اسرائیل جنگ کے دوران ساری دنیا کو وہ کچھ دکھایا ،سنایا اور بتایا گیا جو اسرائیل چاہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے بہت آسانی سے ایرانی ایئر ڈیفنس سسٹم کو مکمل طور پر پہلے دن ہی تباہ کر دیا۔اس میں ایرانی ساختہ ڈیفنس سسٹم کے ساتھ ساتھ وہ ڈیفنس سسٹم بھی ہے جو روس نے ایران کو مہیاکیا تھا۔
اسرائیل، امریکا اور مغربی ممالک نے پروپیگنڈا کیا کہ ایران کی فضاؤں پر اسرائیل کا مکمل راج تھا۔چونکہ مغربی میڈیا یہی کچھ دکھاتا اور بتاتا رہا اس لیے اس پروپیگنڈا پر اعتماد کر لیا گیا۔امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دنیا کو یہ بتایا کہ ایران کی فضاؤں پر اسرائیل کا پورا کنٹرول ہے اس لیے اسرائیلی پروپیگنڈے کو مزید تقویت ملی حالانکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور پروپیگنڈا تھا۔
ایران،اسرائیل پوری جنگ میں ایک بھی ایسی فوٹیج نہیں ہے جس میں اسرائیلی طیارے ایران اور خاص کر تہران کے اوپر بمباری کرتے یا میزائل فائر کرتے دیکھے جا سکتے ہوںلیکن تہران سمیت کسی بھی اہم ایرانی شہر پر اسرائیلی طیارے نہیں دیکھے جاسکتے۔پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسرائیل کے کم و بیش دو سو طیاروں نے ایران پر حملہ کیا،کہ ان اسرائیلی طیاروں نے ایران کے فضائی دفاع کو تباہ کر دیا۔ایسا ہر گز نہیں ہوا۔حملہ آور طیارے بھی حملے کی فوٹیج بنا رہے ہوتے ہیں۔اسرائیلی طیاروں سے لی گئی تصاویر میں سے ایک بھی تصویر ایسی نہیں،جس سے ایرانی فضاؤں میں اسرائیلی طیارے نظر آئیں۔امریکی اسٹیلائٹ جی پی ایس سے بھی ایسی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی۔
اصل میں 13جون2025کو حملے سے بہت پہلے اسرائیلی موساد اور اسرائیلی اسپیشل فورسز کردستان خاص کر اربیل کے علاقے میں اپنے ہتھیاروں اور اسپیشل فورسز کو ایران کے خلاف کارروائی کے لیے پری پوزیشن کر رہی تھیں۔اسرائیل تسلیم کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف علاقوں خاص کر ایران اور عراق کے اندر اس کی اسپیشل فورسز موجود ہیں۔
اسرائیل ایرانی سرحد کے قریب ترین اور خاص کر سرحد کے ان علاقوں میں جہاں ایرانی دفاعی نظام لگا ہواہے وہاں وہاں ڈپلائیمنٹ کر رہا تھا۔شمالی ایران کے انتہائی دشوار گزار، غیر آباد پہاڑی علاقوں کے اوپر سے ہوتے ہوئے آذربائی جان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔
ایران کے اندر سے اسرائیلی اسپیشل فورسز بیلسٹک میزائل فائر کرتی رہیں۔ان اسرائیلی میزائلوں کو امریکی اسٹیلائٹ سسٹم کے ذریعے اہداف کی طرف گائیڈ کیا گیا۔ آذربائی جان سے اسرائیلی طیارے بحیرہء کیسپین کے جنوبی علاقے میں پہنچ کر تہران کے بہت قریب آ گئے اور وہاں سے اپنی فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل تہران میں اہداف پر فائر کرتے رہے۔آذربائی جان سے ایران پر اسرائیلی ڈرونز بھی استعمال ہوئے۔
اسرائیل نے پہلے ہلے میں ایرانی ڈیفنس سسٹم پر سائبر اٹیک کیا۔اسرائیلی سائبر اٹیک بہت کامیاب رہا اور ایرانی ڈیفنس سسٹم وقتی طور پر بالکل ناکارہ ہو گیا لیکن 8گھنٹے کے بعد ایران نے سائبر اٹیک پر بہت کامیابی سے قابو پالیا۔ایران کاڈیفنس سسٹم پورے طور پر فنکشنل ہو گیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی ڈیفنس سسٹم اتنا Vulnerable کیوں تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاسدارانِ انقلابِ ایران نے بہت پہلے سے ملکی لیول کی ایک بڑی فوجی مشق پلان کی ہوئی تھی جس میں تینوں افواج بھی شامل تھیں۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے پہلے ایران اس مشق کو 13جون کو مکمل کرنا چاہتا تھا تاکہ افواج کی طاقت و کمزوریوں سے آگاہ ہو۔ مشق کے لیے ڈیفنس سسٹم کے تمام Assets deployedتھے۔حملے کے وقت تینوں افواج اور پاسداران کی اعلیٰ ترین قیادت ہیڈکوارٹر کے ایک آپریشن روم میں اکٹھی تھی۔
اسرائیل نے اس حملے کی مہینوں تیاری کی۔ اسے ساری ملٹری ٹاپ براس کی ایک جگہ موجودگی کا علم ہوا تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھا کرتقریباً ساری قیادت ہلاک کر دی۔ایرانی اب آگاہ ہو چکے ہیں۔ یہ عمل فوراً دہرایا نہیں جا سکتا۔ایسے حملے کی تیاری کے لیے لمبا عرصہ درکار ہے اور اب جب کہ ایران اسرائیلی موڈس آپرنڈیModus operandiسے آگاہ ہو چکا ہے اس کو دہرانا اور بھی مشکل ہوگا۔ایران کے بارہ سائنس دان شہید ہوئے۔ان سب کو ان کی خواب گاہوں میں نشانہ بنایا گیا۔امریکا کے ساتھ اگلے روز مذاکرات کی وجہ سے ایرانی Complacentبھی تھے۔
اب تمام ایرانی ڈیفنس سسٹم فنکشنل ہے۔ایران چین سے بھی ڈیفنس سسٹم لے رہا ہے۔آذربائی جان کے کردار پر صدر علیوف پہلے ہی بہت دباؤ میں ہیں۔ ایران آذربائی جان سے بہت ناراض اور شاکی ہے۔ ساتھ ہی ماسکو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔آذربائی جان سے روس کے خلاف بھی کارروائیاں ہوئی ہیں اس لیے ماسکو اور تہران دونوں جناب علیوف سے سخت ناراض ہیں۔جنگ ختم ہوتے ہی ایران نے کردستان میں کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ایران نے بلوچیوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کی ہے۔ موساد اور را گٹھ جوڑ کو توڑنا شروع کیا ہے۔
اسرائیل نے یہ خبر بھی پھیلائی کہ اسرائیلی فضائیہ نے حملے کر کے ایرانی فضاؤں میں ایک کوریڈار پیدا کیا جس کو استعمال کر کے امریکا نے ایران پر بی ٹو بمباروں سے ایٹمی تنصیبات پرحملہ کیا۔ اسرائیلی فضائیہ نے جنگ کے دوران کسی بھی لمحے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی۔ایران کی فضائیہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کا ایئر ڈیفنس سسٹم مضبوط ہے۔ امریکی طیاروں کی بمباری سے پہلے امریکا نے ایران کو سوئٹزر لینڈ کے ذریعے بمباری کے صحیح وقت سے آگاہ کر دیا تھا۔
امریکا نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ حملہ صرف ایک ہی بار ہوگا اور دہرایا نہیں جائے گا۔روس نے بھی ایران کو قائل کر لیا تھا کہ اس حملے کی مزاحمت نہ کی جائے اور حملہ ہونے دیا جائے۔ایران نے اطلاع ملتے ہی دفاعی تدابیر کر لی تھیں۔حملہ آور امریکی طیاروں کے پائلٹوں نے رپورٹ کیا کہ انھوں نے حملے کی جگہ سے گرد و غبار اوپر اُٹھتے دیکھا۔یہ غمازی کرتا ہے کہ بنکر بسٹر بم بہت نیچے تک مار نہیں کر سکے اور بہت گہرائی میں ایٹمی تنصیبات محفوظ رہیں۔
جب آپ یورینیم کو ایک خاص حد سے آگے افزودہ کر لیتے ہیں تو اس کے بعد90 فیصد افزودگی بہت آسان اور exponentialہوتی ہے۔تھوڑی محنت اور تھوڑے سے سینٹری فیوجز درکار ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کے بیان کے مطابق اسرائیل کا بہت نقصان ہورہا تھا۔عزت مآب ٹرمپ ایران پر حملہ کر کے اسرائیل کی مدد اور میڈیا میں ایک بڑی ہیڈ لائن لگوانا چاہتے تھے۔
جناب ٹرمپ کو وہ ہیڈ لائن مل گئی۔ اسرائیل،امریکا اور مغربی دنیا کو ایرانی نیوکلیئر پروگرام کسی صورت قبول نہیں ۔یہ اسی صورت ختم ہو سکتا ہے جب موجودہ ایرانی حکومت تبدیل ہو لیکن اسرائیل و امریکا کے حملوں نے رہبرِ معظم علی خامنہ ای کو بہت مقبول کر دیا ہے۔رجیم چینج اب پہلے کے مقابلے میں بہت ہی مشکل بن چکی ہے۔