اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے مدنظر، کچھ علاقائی رہنما کئی دہائیوں پرانے 'بنکاک معاہدے‘ کو سفارتی اقدام کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے فروغ کو روکنا ہے۔

جب کہ عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کر رہی ہیں، ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) نے جوہری تخفیف اسلحے کی سلسلے میں اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

آسیان طویل عرصے سے چین، امریکہ، برطانیہ، روس اور فرانس پر زور دے رہی ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون معاہدے (SEANWFZ ) ٹریٹی پر دستخط کریں۔ اس معاہدے کو 'بنکاک معاہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آسیان نے اس معاہدے کو، 1995 میں منظور کیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد علاقے کو ''جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی کے دوسرے ہتھیاروں‘‘ سے پاک رکھنا جبکہ جوہری توانائی کے شہری استعمال کی اجازت دینا ہے۔

گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں آسیان کے علاقائی فورم ک‍ا اجلاس ہوا، جس میں اس کے موجودہ سربراہ ملائیشیا نے جوہری طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ''جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کریں۔‘‘

ملائیشیا کے وزیر خارجہ محمد حسن کے مطابق، بیجنگ نے پہلے ہی تصدیق کر دی ہے کہ وہ 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کرے گا۔

حسن نے گزشتہ ہفتے آسیان کی ایک سفارتی تقریب کے موقع پر صحافیوں کو بتایا، ''چین نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے کہ وہ بغیر کسی تحفظات کے معاہدے پر دستخط کرے گا۔‘‘

کیا امریکہ اور روس بھی اس معاہدے کی توثیق کریں گے؟

حسن نے یہ عندیہ بھی دیا کہ روس، جو دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے، بھی اس معاہدے پر دستخط کرے گا۔

اگرچہ ماسکو نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جولائی کے اوائل میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا جس میں کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی کئی کثیرالجہتی اور دو طرفہ مذاکرات کے لیے گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں تھے۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ آیا امریکہ ’بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

واشنگٹن اور ماسکو دونوں خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو، بشمول جوہری توانائی کے شعبے میں، محفوظ بنانے کے خواہاں ہیں، کیونکہ کئی آسیان ریاستیں سویلین جوہری پروگرام تیار کرنے کے لیے بیرونی شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔

ایک مبہم عالمی آرڈر

تاہم، واشنگٹن کے ساتھ شراکت داری اتنی قابل اعتماد نہیں ہو سکتی جتنی پہلے تھی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غیر معمولی اور بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں عمومی احساس ہے کہ بین الاقوامی نظام کے اصول و ضوابط تباہ ہو رہے ہیں، اور خطے میں امریکہ کی ساکھ اور دلچسپی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

بیشتر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے گزشتہ چند مہینوں میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔

وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روس کے اعلیٰ ترین سفارت کار سرگئی لاوروف کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایک ''کثیر قطبی عالمی نظام‘‘ میں منقسم رہی ہے۔

اس سے چین کے لیے واشنگٹن کے خرچ پر اپنی سفارتی طاقت کو بڑھانے کی گنجائش بنتی ہے۔ خارجہ تعلقات کونسل میں جنوب مشرقی ایشیا کے سینئر فیلو جوشوا کرلانٹزک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کر کے، یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اسے ’’آسیان کا خیال ہے جب کہ امریکہ ممکنہ طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں پر محصولات عائد کر رہا ہے اور انہیں چین کو الگ تھلگ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''چین کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسے جنوب مشرقی ایشیا میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑے۔‘‘

نیز، بیجنگ اب اپنی پالیسی اور امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل اے یو کے یو ایس معاہدے کے درمیان تضاد پر زور دے سکتا ہے۔ تینوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ایشیا بحرالکاہل میں جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین میں چینی آبدوزوں کی تعیناتی

واشنگٹن میں نیشنل وار کالج کے پروفیسر ذاکری ابوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ''چین 'بنکاک معاہدے‘ کی شرائط کی قطعاً پابندی نہیں کرے گا۔‘‘

یہ معاہدہ اپنے دستخط کنندگان کو خطے یا اس کے آبی راستوں سے جوہری ہتھیار منتقل نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، چین پر اپنی آبدوزوں کو بحیرہ جنوبی چین میں ''ذخیرہ‘‘ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

یہ ایک متنازعہ سمندری علاقہ ہے جس کا بیجنگ کے ساتھ کئی جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کا تنازعہ ہے۔

دو سال قبل روئٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا تھا کہ چین نے ہر وقت کم از کم ایک جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوز کو سمندر میں رکھنا شروع کر دیا ہے، جب کہ بہت سے ہینان سے لے کر جنوبی بحیرہ چین تک کے پانیوں میں گشت کر رہے ہیں۔

پچھلے سال، امریکی فوج نے زور دے کر کہا تھا کہ بیجنگ بحیرہ جنوبی چین میں اپنے مصنوعی جزیروں کے قریب تیرتے جوہری ری ایکٹر نصب کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

بیجنگ کی خود کو قابل اعتماد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش

خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس سینکڑوں آپریشنل جوہری وار ہیڈز ہیں، اور پینٹاگون کے مطابق اس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

ابوزا کا کہنا تھا کہ بیجنگ 'بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے والا پہلا ملک بننے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک سفارتی چالاکی ہے۔ بیجنگ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ آسیان کے ساتھ ہے، خواہ زبانی ہی سہی۔

ابوزا نے کہا، ''چین اپنے آپ کو خطے میں ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کے طور پر پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، ایک ایسا ملک، جو کہ قواعد و ضوابط کا پابند ہے۔

بیجنگ واشنگٹن کو خطے میں جمود اور اقتصادی ترقی میں خلل ڈالنے والے کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔‘‘

’آسیان وونک‘ نیوز لیٹر کے بانی ماہر سیاسیات پرشانت پرمیشورن کا کہنا یے کہ، عدم پھیلاؤ کی حقیقی کوششوں کے لیے معاہدے پر دستخط سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ علاقائی نیوکلیئر فری زون کا وژن ملائیشیا سمیت آسیان کی کچھ ریاستوں میں ''تاریخی طور پر اصولی اہمیت کا حامل ہے۔

‘‘

تاہم، پرمیشورن بتاتے ہیں۔ ''خطے میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہیں ہے کہ صرف یہی معاہدہ جوہری طاقتوں کو روک سکے گا یا جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی تشویشناک حالت کو عام طور پر تبدیل کر دے گا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنوب مشرقی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں بنکاک معاہدے اس معاہدے کر رہا ہے کے طور پر کو بتایا ہے کہ وہ کے ساتھ کرنے کی کرے گا ا سیان کے لیے

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • تہران کاایٹمی تنصیبات زیادہ قوت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنےکا اعلان
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • 33 سال بعد واشنگٹن کا جوہری تجربات بحال کرنے کا فیصلہ
  • امریکا کا جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ غیرذمہ دارانہ ہے: ایرانی وزیرخارجہ
  • روس کا جوہری صلاحیتوں سے لیس بحری ڈرون کا تجربہ
  • ہتھیار چھوڑنے کا معاملہ پیچیدہ ہے، اتفاق رائے کی ضرورت ہے: حماس