بمبار بمقابلہ فائٹر جیٹ؛ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل بمبار میں کیا فرق ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران امریکا کے بی-2 اسٹیلتھ بمبار کے استعمال سے دنیا میں بمبار سسٹم کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور رپورٹس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک جدید بمبار سسٹمز کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکا کا بی-2 بمبار اپنی ہیبت اور جدت کے اعتبار سے دنیا کا خطرناک ترین بمبار مانا جاتا ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر 13.
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد متعدد ممالک کی جانب سے جدید بمبار طیاروں کے حصول کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن فائٹر جیٹ اور طویل رینج کا ٹیکٹیکل یا اسٹریٹجک بمبار میں کیا فرق ہے؟ آئیے جانتے ہیں؛
فائٹر جیٹس اور بمبار کو مختلف مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے، فائٹر جیٹس بنیادی طور پر فضائی بالادستی، فضا سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے اور فوجی بیسز، زیرزمین بنکرز اور کمانڈ سینٹرز اور بحری اہداف تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
دوسری جانب فائٹر جیٹ کا بنیادی مقصد دشمن کے جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے، اپنی فضائی حدود کے دفاع اور فضائی بالادستی قائم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فائٹر جیٹس عام طور پر بمبار طیاروں سے تیز رفتار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی جوہری اور روایتی ہتھیاروں پر مشتمل میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں اور سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر دور دشمن کے اہداف پر حملے کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بمبار طیارے قدرے سست ہوتے ہیں ایک پرواز میں 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک پرواز کرسکتے ہیں۔
گوکہ اسٹریٹجک یا ٹیکٹیکل بمبار کے ڈیزائن اور آرکیٹکچر میں بنیادی طور پر بڑا فرق نہیں ہوتا بلکہ اصل فرق دونوں بمبار طیاروں میں ہتھیار لے جانے کی صلاحیت ہے کیونکہ اسٹریٹجک بمبار روایتی مواد لے جاتا ہے جیسا کہ ہیوی بم وغیرہ۔
دوسری طرف ٹیکٹیکل بمبار جوہری بمبار گرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بمبار دونوں روایتی اور ٹیکٹیکل جوہری بم گرانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے تین ممالک امریکا، روس اور چین کے پاس جدید بمبار طیارے ہیں اور اس کی وجہ جدید بمبار طیاروں پر ہونے والے اخراجات ہیں، اسی لیے یہ تین ممالک تک محدود ہے۔
مزید بتایا گیا کہ امریکا کے پاس بی-2 اسپرٹ اور بی-21 ریڈر، روس کے پاس ٹی یو-160 جیسے جدید بمبار ہیں اور چین کے پاس ایچ-20 بمبار ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بمبار طیاروں ہیں اور کے لیے کے پاس
پڑھیں:
کیا عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھ پائیں گی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کے مدنظر، کچھ علاقائی رہنما کئی دہائیوں پرانے 'بنکاک معاہدے‘ کو سفارتی اقدام کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے فروغ کو روکنا ہے۔
جب کہ عالمی طاقتیں جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کر رہی ہیں، ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) نے جوہری تخفیف اسلحے کی سلسلے میں اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔
آسیان طویل عرصے سے چین، امریکہ، برطانیہ، روس اور فرانس پر زور دے رہی ہے کہ وہ جنوب مشرقی ایشیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون معاہدے (SEANWFZ ) ٹریٹی پر دستخط کریں۔ اس معاہدے کو 'بنکاک معاہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
آسیان نے اس معاہدے کو، 1995 میں منظور کیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد علاقے کو ''جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی کے دوسرے ہتھیاروں‘‘ سے پاک رکھنا جبکہ جوہری توانائی کے شہری استعمال کی اجازت دینا ہے۔
گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں آسیان کے علاقائی فورم کا اجلاس ہوا، جس میں اس کے موجودہ سربراہ ملائیشیا نے جوہری طاقتوں پر زور دیا کہ وہ ''جوہری ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کریں۔‘‘
ملائیشیا کے وزیر خارجہ محمد حسن کے مطابق، بیجنگ نے پہلے ہی تصدیق کر دی ہے کہ وہ 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کرے گا۔
حسن نے گزشتہ ہفتے آسیان کی ایک سفارتی تقریب کے موقع پر صحافیوں کو بتایا، ''چین نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے کہ وہ بغیر کسی تحفظات کے معاہدے پر دستخط کرے گا۔‘‘
کیا امریکہ اور روس بھی اس معاہدے کی توثیق کریں گے؟حسن نے یہ عندیہ بھی دیا کہ روس، جو دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے، بھی اس معاہدے پر دستخط کرے گا۔
اگرچہ ماسکو نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جولائی کے اوائل میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا جس میں کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی کئی کثیرالجہتی اور دو طرفہ مذاکرات کے لیے گزشتہ ہفتے کوالالمپور میں تھے۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ آیا امریکہ ’بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
واشنگٹن اور ماسکو دونوں خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو، بشمول جوہری توانائی کے شعبے میں، محفوظ بنانے کے خواہاں ہیں، کیونکہ کئی آسیان ریاستیں سویلین جوہری پروگرام تیار کرنے کے لیے بیرونی شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔
ایک مبہم عالمی آرڈرتاہم، واشنگٹن کے ساتھ شراکت داری اتنی قابل اعتماد نہیں ہو سکتی جتنی پہلے تھی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غیر معمولی اور بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی پر گامزن ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں عمومی احساس ہے کہ بین الاقوامی نظام کے اصول و ضوابط تباہ ہو رہے ہیں، اور خطے میں امریکہ کی ساکھ اور دلچسپی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔بیشتر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے گزشتہ چند مہینوں میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔
وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روس کے اعلیٰ ترین سفارت کار سرگئی لاوروف کا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایک ''کثیر قطبی عالمی نظام‘‘ میں منقسم رہی ہے۔اس سے چین کے لیے واشنگٹن کے خرچ پر اپنی سفارتی طاقت کو بڑھانے کی گنجائش بنتی ہے۔ خارجہ تعلقات کونسل میں جنوب مشرقی ایشیا کے سینئر فیلو جوشوا کرلانٹزک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین 'بنکاک معاہدے‘ کی توثیق کر کے، یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اسے ’’آسیان کا خیال ہے جب کہ امریکہ ممکنہ طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں پر محصولات عائد کر رہا ہے اور انہیں چین کو الگ تھلگ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''چین کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسے جنوب مشرقی ایشیا میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پڑے۔‘‘
نیز، بیجنگ اب اپنی پالیسی اور امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل اے یو کے یو ایس معاہدے کے درمیان تضاد پر زور دے سکتا ہے۔ تینوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ایشیا بحرالکاہل میں جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں چینی آبدوزوں کی تعیناتیواشنگٹن میں نیشنل وار کالج کے پروفیسر ذاکری ابوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ''چین 'بنکاک معاہدے‘ کی شرائط کی قطعاً پابندی نہیں کرے گا۔‘‘
یہ معاہدہ اپنے دستخط کنندگان کو خطے یا اس کے آبی راستوں سے جوہری ہتھیار منتقل نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، چین پر اپنی آبدوزوں کو بحیرہ جنوبی چین میں ''ذخیرہ‘‘ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ ایک متنازعہ سمندری علاقہ ہے جس کا بیجنگ کے ساتھ کئی جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کا تنازعہ ہے۔دو سال قبل روئٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا تھا کہ چین نے ہر وقت کم از کم ایک جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوز کو سمندر میں رکھنا شروع کر دیا ہے، جب کہ بہت سے ہینان سے لے کر جنوبی بحیرہ چین تک کے پانیوں میں گشت کر رہے ہیں۔
پچھلے سال، امریکی فوج نے زور دے کر کہا تھا کہ بیجنگ بحیرہ جنوبی چین میں اپنے مصنوعی جزیروں کے قریب تیرتے جوہری ری ایکٹر نصب کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
بیجنگ کی خود کو قابل اعتماد کے طور پر پیش کرنے کی کوششخیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس سینکڑوں آپریشنل جوہری وار ہیڈز ہیں، اور پینٹاگون کے مطابق اس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ابوزا کا کہنا تھا کہ بیجنگ 'بنکاک معاہدے‘ پر دستخط کرنے والا پہلا ملک بننے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایک سفارتی چالاکی ہے۔ بیجنگ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ آسیان کے ساتھ ہے، خواہ زبانی ہی سہی۔
ابوزا نے کہا، ''چین اپنے آپ کو خطے میں ذمہ دار اسٹیک ہولڈر کے طور پر پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، ایک ایسا ملک، جو کہ قواعد و ضوابط کا پابند ہے۔
بیجنگ واشنگٹن کو خطے میں جمود اور اقتصادی ترقی میں خلل ڈالنے والے کے طور پر دکھانا چاہتا ہے۔‘‘’آسیان وونک‘ نیوز لیٹر کے بانی ماہر سیاسیات پرشانت پرمیشورن کا کہنا یے کہ، عدم پھیلاؤ کی حقیقی کوششوں کے لیے معاہدے پر دستخط سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ علاقائی نیوکلیئر فری زون کا وژن ملائیشیا سمیت آسیان کی کچھ ریاستوں میں ''تاریخی طور پر اصولی اہمیت کا حامل ہے۔
‘‘تاہم، پرمیشورن بتاتے ہیں۔ ''خطے میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہیں ہے کہ صرف یہی معاہدہ جوہری طاقتوں کو روک سکے گا یا جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی تشویشناک حالت کو عام طور پر تبدیل کر دے گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین