سائنس اور مذہب: کیسے اور کیوں کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
جہاں تک خیر و شر کا تعلق ہے، اس کا معیار قائم کرنے کے لیے ہمیں بہت گہرائی میں جانا ہو گا۔ اس لیے کہ مغرب نے تو خیر و شر کا معیار یہ قرار دے دیا ہے کہ جس کو سوسائٹی قبول کرے وہ خیر ہے، اور جو چیز سوسائٹی کے لیے قابلِ قبول نہ ہو وہ شر ہے۔ مگر اسلام اس معیار کو قبول نہیں کرتا اور وہ مغرب سے کہیں زیادہ دوسرے تناظر میں خیر و شر کے معیار کا تعین کرتا ہے۔
اسلام صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ایک معاملہ اس کے دو فریقوں کے مابین قابلِ اعتراض نہیں ہے تو وہ درست ہے، بلکہ اسلام اس سے آگے بڑھ کر سوسائٹی کے نفع و نقصان کو بھی دیکھتا ہے۔ اور اگر دو افراد یا طبقات کے مابین کسی باہمی معاملہ پر اتفاق سوسائٹی کے لیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے تو اسلام اس کو جائز معاملہ تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کسی معاملے کے خیر و شر ہونے کو صرف دو افراد یا دو فریقوں کی باہمی رضامندی کے حوالے سے نہیں دیکھتا بلکہ سوسائٹی پر اس کے مجموعی اثرات کے مثبت یا منفی ہونے کا لحاظ بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صرف حال کے نفع و نقصان کی بنیاد پر کسی چیز کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس کے مستقبل کے امکانات کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کا مستقبل صرف اس دنیا میں اس کی باقی ماندہ زندگی کا نام نہیں ہے، بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی انسان کا اصل مستقبل ہے۔ اور اسلام کسی بھی چیز کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کا بھی پوری طرح لحاظ کرتا ہے۔
اس لیے خیر و شر کے تعین میں اسلام کا تناظر انتہائی جامع اور وسیع ہے، اور اسی کی روشنی میں طے کیا جانے والا خیر و شر ہی حقیقی طور پر خیر و شر ہے۔ امام غزالیؒ نے ’’مصلحت‘‘ کا معیار بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصلحت صرف وقتی نفع کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کے فطری مقاصد کی پاسداری کا نام ہے، اور یہ فطری مقاصد امام غزالیؒ کے نزدیک پانچ ہیں: (۱) دین و عقیدہ کا تحفظ (۲) جان کا تحفظ (۳) عزت کا تحفظ (۴) مال کا تحفظ (۵) اور نسب و خاندان کا تحفظ۔ اس لیے جو چیز ان فطری مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی نقصان دیتی ہے اسے مصلحت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں دو مثالوں سے اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا:
مغرب نے سود کو اس بنا پر جائز قرار دے رکھا ہے کہ یہ دو افراد کا معاملہ ہے جس پر سوسائٹی کو اعتراض نہیں۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو افراد کے باہمی رضامندی کے معاملہ اور سوسائٹی کی طرف سے اعتراض نہ ہونے کے باوجود چونکہ سود اپنے حتمی نتیجے کے حوالے سے انسانی سوسائٹی کے لیے نقصان دہ ہے کہ اس سے دولت کا ارتکاز جنم لیتا ہے، جیسا کہ جدید معاشی ماہرین کھلم کھلا کہہ رہے ہیں، اس لیے یہ ایک جائز معاملہ نہیں ہے اور اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح زنا مغرب کے نزدیک دو افراد کی باہمی رضامندی کی صورت میں کوئی جرم نہیں، کہ اسے جرم قرار دینا دو افراد کی باہمی آزادانہ رضامندی میں دخل اندازی تصور ہو گا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو متعلقہ افراد کی باہمی رضامندی کے باوجود چونکہ زنا سے رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ رشتوں کا وجود ہی قائم نہیں رہتا، کیونکہ جہاں سنگل پیرنٹ کے قانون کے ذریعے باپ کے رشتے کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا ہو، وہاں باقی رشتوں کا کون سا تصور باقی رہ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کی تباہی کا سب سے بڑا سبب زنا ہے، اس لیے اسلام اس عملِ بد کی کسی حالت میں اجازت نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں مذہب اور سائنس کے حوالے سے اگر کسی درجہ میں کنفیوژن پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد ہے یا کسی سطح پر کوئی ٹکراؤ ان میں پایا جاتا ہے، بلکہ ہمارا اصل مسئلہ ہماری بے علمی اور بے خبری ہے۔ جو لوگ سائنس کا علم رکھتے ہیں وہ مذہب کے علم سے بے خبر ہیں، اور جو دین کا علم رکھتے ہیں وہ سائنسی علم اور معلومات سے بے بہرہ ہیں، جس کی وجہ سے یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے بلا وجہ اختلاف رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں طبقے اگر ایک دوسرے سے صحیح طور پر استفادہ کریں تو یہ آپس میں معاون ہو سکتے ہیں، اور یہ ملک اور دین دونوں حوالوں سے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: باہمی رضامندی سوسائٹی کے اسلام اس دو افراد کی باہمی نہیں ہے کا تحفظ کے لیے اس لیے
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
پنجاب اسمبلی میں شوگر انڈسٹری ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں آ گئی۔ ضلع فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی راؤ کاشف نے ایوان میں شوگر ملز مالکان کے رویے پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ فیصل آباد شوگر بیلٹ کا مرکز ہے، وہاں کسانوں کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔
راؤ کاشف نے ایوان کو بتایا کہ شوگر ملز مالکان زمینداروں کو ادائیگیاں نہیں کر رہے، حالانکہ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شوگر ملز مالکان تو قیمت بڑھنے کے باوجود بات ماننے کو تیار نہیں، کسان کہاں جائیں؟
مزید پڑھیں: مزید چینی درآمد کرنے کے لیے ٹینڈر جاری، پاکستانی کتنی چینی استعمال کرتے ہیں؟
رکن اسمبلی نے حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسانوں کی فصلیں پانی میں بہہ گئیں، ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں بچا، لیکن شوگر ملز اب بھی ادائیگیوں سے انکاری ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ڈپٹی کمشنر اور مقامی انتظامیہ شوگر ملز مالکان کے سامنے بے بس ہو چکی ہے اور مطالبہ کیا کہ شوگر کین کمشنر کو فوری طور پر اسمبلی میں طلب کیا جائے۔
مزید پڑھیں: لاہور میں چینی کا شدید بحران، سعد رفیق کا شوگر مافیا کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
ایک رپورٹ کے مطابق 25-2024 کے کرشنگ سیزن میں شوگر ملز مالکان نے چینی کی برآمد اور مقامی مارکیٹ پالیسیوں کے ذریعے قریباً 300 ارب روپے منافع کمایا، مگر کسانوں کو بروقت ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے بھی صورتحال پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ شوگر ملز مالکان کسانوں کو ادائیگیاں کیوں نہیں کر رہے؟ نیا کرشنگ سیزن شروع ہونے والا ہے اور پرانے واجبات ابھی تک ادا کیوں نہیں کیے گئے؟ اسپیکر نے شوگر کین کمشنر سے اس معاملے پر فوری جواب طلب کرلیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپیکر پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی رکن صوبائی اسمبلی راؤ کاشف شوگر مافیا فیصل آباد مسلم لیگ ن ملک احمد خان