Daily Ausaf:
2025-11-05@01:13:11 GMT

سائنس اور مذہب: کیسے اور کیوں کا سوال

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
جہاں تک خیر و شر کا تعلق ہے، اس کا معیار قائم کرنے کے لیے ہمیں بہت گہرائی میں جانا ہو گا۔ اس لیے کہ مغرب نے تو خیر و شر کا معیار یہ قرار دے دیا ہے کہ جس کو سوسائٹی قبول کرے وہ خیر ہے، اور جو چیز سوسائٹی کے لیے قابلِ قبول نہ ہو وہ شر ہے۔ مگر اسلام اس معیار کو قبول نہیں کرتا اور وہ مغرب سے کہیں زیادہ دوسرے تناظر میں خیر و شر کے معیار کا تعین کرتا ہے۔
اسلام صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ایک معاملہ اس کے دو فریقوں کے مابین قابلِ اعتراض نہیں ہے تو وہ درست ہے، بلکہ اسلام اس سے آگے بڑھ کر سوسائٹی کے نفع و نقصان کو بھی دیکھتا ہے۔ اور اگر دو افراد یا طبقات کے مابین کسی باہمی معاملہ پر اتفاق سوسائٹی کے لیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے تو اسلام اس کو جائز معاملہ تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کسی معاملے کے خیر و شر ہونے کو صرف دو افراد یا دو فریقوں کی باہمی رضامندی کے حوالے سے نہیں دیکھتا بلکہ سوسائٹی پر اس کے مجموعی اثرات کے مثبت یا منفی ہونے کا لحاظ بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صرف حال کے نفع و نقصان کی بنیاد پر کسی چیز کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس کے مستقبل کے امکانات کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کا مستقبل صرف اس دنیا میں اس کی باقی ماندہ زندگی کا نام نہیں ہے، بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی انسان کا اصل مستقبل ہے۔ اور اسلام کسی بھی چیز کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کا بھی پوری طرح لحاظ کرتا ہے۔
اس لیے خیر و شر کے تعین میں اسلام کا تناظر انتہائی جامع اور وسیع ہے، اور اسی کی روشنی میں طے کیا جانے والا خیر و شر ہی حقیقی طور پر خیر و شر ہے۔ امام غزالیؒ نے ’’مصلحت‘‘ کا معیار بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصلحت صرف وقتی نفع کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کے فطری مقاصد کی پاسداری کا نام ہے، اور یہ فطری مقاصد امام غزالیؒ کے نزدیک پانچ ہیں: (۱) دین و عقیدہ کا تحفظ (۲) جان کا تحفظ (۳) عزت کا تحفظ (۴) مال کا تحفظ (۵) اور نسب و خاندان کا تحفظ۔ اس لیے جو چیز ان فطری مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی نقصان دیتی ہے اسے مصلحت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں دو مثالوں سے اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا:
مغرب نے سود کو اس بنا پر جائز قرار دے رکھا ہے کہ یہ دو افراد کا معاملہ ہے جس پر سوسائٹی کو اعتراض نہیں۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو افراد کے باہمی رضامندی کے معاملہ اور سوسائٹی کی طرف سے اعتراض نہ ہونے کے باوجود چونکہ سود اپنے حتمی نتیجے کے حوالے سے انسانی سوسائٹی کے لیے نقصان دہ ہے کہ اس سے دولت کا ارتکاز جنم لیتا ہے، جیسا کہ جدید معاشی ماہرین کھلم کھلا کہہ رہے ہیں، اس لیے یہ ایک جائز معاملہ نہیں ہے اور اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح زنا مغرب کے نزدیک دو افراد کی باہمی رضامندی کی صورت میں کوئی جرم نہیں، کہ اسے جرم قرار دینا دو افراد کی باہمی آزادانہ رضامندی میں دخل اندازی تصور ہو گا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو متعلقہ افراد کی باہمی رضامندی کے باوجود چونکہ زنا سے رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ رشتوں کا وجود ہی قائم نہیں رہتا، کیونکہ جہاں سنگل پیرنٹ کے قانون کے ذریعے باپ کے رشتے کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا ہو، وہاں باقی رشتوں کا کون سا تصور باقی رہ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کی تباہی کا سب سے بڑا سبب زنا ہے، اس لیے اسلام اس عملِ بد کی کسی حالت میں اجازت نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں مذہب اور سائنس کے حوالے سے اگر کسی درجہ میں کنفیوژن پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد ہے یا کسی سطح پر کوئی ٹکراؤ ان میں پایا جاتا ہے، بلکہ ہمارا اصل مسئلہ ہماری بے علمی اور بے خبری ہے۔ جو لوگ سائنس کا علم رکھتے ہیں وہ مذہب کے علم سے بے خبر ہیں، اور جو دین کا علم رکھتے ہیں وہ سائنسی علم اور معلومات سے بے بہرہ ہیں، جس کی وجہ سے یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے بلا وجہ اختلاف رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں طبقے اگر ایک دوسرے سے صحیح طور پر استفادہ کریں تو یہ آپس میں معاون ہو سکتے ہیں، اور یہ ملک اور دین دونوں حوالوں سے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: باہمی رضامندی سوسائٹی کے اسلام اس دو افراد کی باہمی نہیں ہے کا تحفظ کے لیے اس لیے

پڑھیں:

شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟

محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔

’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔

فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘

اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘

شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔

جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔

شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • کراچی میں کیمرے چالان کر سکتے ہیں، دندناتے مجرموں کو کیوں نہیں پکڑ سکتے؟ شہریوں کے سوالات
  • سی ڈی اے نے نیشنل کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی اور ارتھ ڈویلپرز کو فائنل شوکاز نوٹس جاری کر دیا،کاپی سب نیوز پر
  • سائنس آن ویلز” چائنا میڈیا گروپ کا اسلام آباد میں شاندار تعلیمی اقدام
  • علی امین گنڈاپور کو کیوں ہٹایا گیا؟ گورنرخیبر پختونخوا کا سوال
  • گنڈاپور کو کیوں نکالا، کرپٹ تھے، نااہل یا میر جعفر؟ گورنر خیبر پختونخوا کا سوال
  • کوہسار زون میں لینڈ مافیا سرکاری زمین پر قبضے میں مصروف
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟