WE News:
2025-11-03@18:12:17 GMT

اداکار یاسر حسین نے اپنی موت کی خبر دیکھ کر کیا کہا؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

اداکار یاسر حسین نے اپنی موت کی خبر دیکھ کر کیا کہا؟

پاکستانی اداکار اور ہدایتکار یاسر حسین نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں ان کے انتقال کی خبر دی گئی تھی اور لکھا تھا ’اقراء عزیز کے شوہر اچانک انتقال کر گئے‘۔ اپنے ہی انتقال کی جھوٹی خبر دیکھ کر یاسر حسین سیخ پا ہوگئے۔

اداکار نے اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ خبر جس نے بھی لگائی ہے اسے اگلی خبر اپنی والدہ کے بیوہ ہونے کی بھی لگانی چاہیے‘۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Amna Rasool (@allpakshowbizstarz)

پوسٹ کے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے ڈیجیٹل کریئٹر اور یاسر حسین دونوں کو آڑے ہاتھوں لیا، کسی نے لکھا کہ یاسر حسین نے پوسٹ کرنے والے کو بالکل ٹھیک جواب دیا ہے ایسے لوگوں کو ایسی ہی زبان سمجھ آتی ہے جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ یاسر حسین نے مزاحیہ انداز میں جواب نہیں دیا بلکہ پوسٹ کرنے والے کو بددعا دی ہے اور ان کا یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اداکار یاسر حسین شرکا کے کون سے سوال پر شرما گئے

یاد رہے کہ یاسر حسین اور اقرا عزیز دسمبر 2019 ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد جولائی 2021 میں ان کے ہاں بیٹے کبیر حسین کی پیدائش ہوئی تھی۔

اداکار یاسر حسین نے اپنی پہلی ہٹ فیچر فلم کراچی سے لاہور کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ ان کے دیگر قابل ذکر منصوبوں میں لاہور سے آگے، شادی مبارک، بادشاہ بیگم، بندی، جھوک سرکار، باغی، ٹیکسالی گیٹ اور دیگر ہیں۔ انہوں نے کوئل اور ایک تھی لیلیٰ کی ہدایت کاری کی، جنہیں ان کے مداحوں نے خوب سراہا تھا۔ آج کل وہ ایک اور ڈرامہ جنت کی ہدایت کاری کر رہے ہیں۔ جنت کی کاسٹ میں ان کی اہلیہ اقرا عزیز بھی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقراء عزیز پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری یاسر حسین یاسر حسین انتقال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقراء عزیز پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری یاسر حسین یاسر حسین انتقال یاسر حسین نے

پڑھیں:

ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-5

 

عارف بہار

علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔

دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟

اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔

عارف بہار

متعلقہ مضامین

  • ’تمام سوشل میڈیا کریئیٹرز جہنم میں جلیں گے‘، اداکار زاہد حسین نے اپنے بیان کی کیا وضاحت کی؟
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے چالان نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • ’نئے فون کا ٹیکس ادا کرنے کے لیے پرانا فون بیچنا پڑا‘، قاسم گیلانی کی پوسٹ پر شدید تنقید
  • محسن نقوی کی چودھری شجاعت سے ملاقات، بہنوئی کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • محسن نقوی کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات، بہنوئی کے انتقال پر تعزیت
  • وزیر داخلہ محسن نقوی کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات، بہنوئی کے انتقال پر تعزیت
  • وزیر داخلہ کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات، بہنوئی کے انتقال پر اظہار افسوس
  • محسن نقوی کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات ، بہنوئی کے انتقال پر تعزیت
  • ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟
  • ارشد وارثی کو زندگی کے کونسے فیصلے پر بےحد پچھتاوا ہے؟