کے الیکٹرک صارفین سے 8 قسم کے مختلف ٹیکسز وصول کیے جانیکا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزارت توانائی نے کے الیکٹرک صارفین سے 8 مختلف قسم کے ٹیکسز وصول کیے جانے کا اعتراف کر لیا۔ کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی بلوں پر وصول کیے جانے والے ٹیکسز کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئیں جس میں انکشاف ہوا کہ صارفین سے 4 مختلف قسم کے جی ایس ٹی وصول کیے جاتے ہیں۔ دستاویز کے مطابق کے الیکٹرک صارفین سے جی ایس ٹی، مزید جی ایس ٹی،
اضافی جی ایس ٹی اور خوردہ فروش جی ایس ٹی کی مد میں وصولی کی جا رہی ہے۔ کے الیکٹرک صارفین سے گزشتہ ایک سال کے دوران نارمل جی ایس ٹی کی مد میں 102 ارب 43 کروڑ روپے وصول کیے گئے جبکہ مزید جی ایس ٹی کی مد میں 3 ارب 14 کروڑ اور اضافی جی ایس ٹی کی مد میں 11 ارب 87 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ صارفین سے کے الیکٹرک نے خوردہ فروش جی ایس ٹی کی مد میں 1 ارب 83 کروڑ روپے وصول کیے۔ صارفین نے انکم ٹیکس کی مد میں 30 ارب 26 کروڑ روپے بھی ادا کیے۔ کے الیکٹرک صارفین سے ود ہولڈنگ نیٹ میٹررنگ کی مد میں 61 کروڑ اور ٹی وی لائسنس فیس کی مد میں 1 ارب 15 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے الیکٹرک صارفین سے جی ایس ٹی کی مد میں کروڑ روپے وصول کیے
پڑھیں:
صیہونی فوج کو 10,000 سے زائد اہلکاروں کی کمی کا سامنا، ترجمان کا انکشاف
بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہمیں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں، بشمول 6,000 لڑاکا اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب ریاست اسرائیل کی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اسے 10,000 سے زائد فوجیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے، جن میں تقریباً 6,000 لڑاکا اہلکار شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہمیں 10 ہزار سے زیادہ فوجیوں، بشمول 6,000 لڑاکا اہلکاروں کی ضرورت ہے، یہ ایک حقیقی آپریشنل ضرورت ہے اور اسی لیے ہم تمام ممکنہ اقدامات کر رہے ہیں۔ صہیونی فوج کے ترجمان نے یہ بیان قدامت پسند یہودیوں کی فوج میں شمولیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں دیا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں یہ معاملہ طویل عرصے سے متنازع بنا ہوا ہے، کیونکہ قدامت پسند یہودیوں کو فوج میں شمولیت سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اسرائیلی حکومت اور عدالتیں اب قدامت پسند یہودیوں کو فوج میں بھرتیوں کے دائرے میں لانے پر غور کر رہی ہیں، تاکہ موجودہ جنگی حالات کے پیشِ نظر فوجی قوت کو برقرار رکھا جا سکے۔