سعودی وزارت خارجہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر اپنی حمایت اور خیر مقدم کا اظہار کیا ہے۔ وزارت نے اس معاہدے کو خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور ان تمام کوششوں کو سراہا ہے جو قطر، مصر، اور امریکا کی جانب سے اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کی گئیں۔

بیان میں زور دیا گیا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو غزہ پر جارحیت روکنا ہوگی اور فلسطینی سرزمین پر قبضے کو ختم کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو ان کے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دینا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیےحماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدہ پا گیا، قطری وزیراعظم کا اعلان، غزہ میں جشن

وزارت نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بنیاد فراہم کرتا ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔

سعودی عرب نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ ان وحشیانہ جنگوں کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا، جن میں اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ امن معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے، جسے خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے قیدیوں کی رہائی، فوجی انخلا، انسانی امداد کی بحالی اور مستقل جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیےہم غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اسرائیلی افواج کو غزہ کے حساس علاقوں سے مرحلہ وار واپس بلایا جائے گا، جس کا آغاز سرحدی چوکیوں سے ہوگا۔ یہ عمل 2024 کے وسط تک مکمل ہونے کی توقع ہے، جس میں فوجی تنصیبات کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ معاہدے کے مطابق، انسانی امداد کی فراہمی کو فوری طور پر بحال کیا جائے گا، اور طبی عملے سمیت بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

معاہدے کی ایک اہم شق میں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، جسے یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی ثالثی کا عمل متحرک رکھا جائے گا۔ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں فوری طور پر کارروائی ہوگی تاکہ خطے میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل حماس اسرائیل معاہدہ سعودی عرب سعودی وزارت خارجہ فلسطین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل حماس اسرائیل معاہدہ فلسطین کے لیے

پڑھیں:

بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جنوبی ایشیا کے جوہری طاقت رکھنے والے دو حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان پچھلے پچہتر سال کے دوران کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان بیشتر اوقات تعلقات کشیدہ رہے ہیں، تاہم پانی کے ایک اہم وسیلے سے متعلق چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے قبل کیا گیا سندھ طاس آبی معاہدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

لیکن، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اہم سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ منگل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، نے اس معاہدے کو بھی متاثر کردیا۔ بھارت نے اپنی طرف سے اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟

بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری وکرم مصری نے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "1960 کا سندھ آبی معاہدہ اب سے اس وقت تک غیر نافذ العمل رہے گا، جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور ٹھوس طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا"۔

(جاری ہے)

سن 1960 کا سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں دیرینہ حریف پڑوسیوں کو دریائے سندھ کے پانی تک مشترکہ رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

سندھ طاس آبی معاہدہ کیا ہے؟

ملک کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔

سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت

اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام اور بالخصوص کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔

معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول سونپا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تیار کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن ان منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں "رن آف دی ریور" پروجیکٹ ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان کے پانی کے حقوق بہاو والے ملک کے طور پر بری طرح متاثر نہ ہوں۔

یہ معاہدہ پاکستان کو کسی ایسے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہو۔

معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

پاکستان، جو معاہدے کے ت‍‍حت دریائے سندھ سے تقریباً 80 فیصد پانی حاصل کرتا ہے، ان دریاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سسٹم میں موجود 16.8 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے بھارت کو تقریباً 3.3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا ہے۔

اس وقت، بھارت اپنے اجازت شدہ حصے کا 90 فیصد سے کچھ زیادہ استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے باقی ماندہ حصہ پر پاکستان کا بہت زیادہ انحصار ہے۔

یہ انحصار انتہائی اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ دریا پاکستان کے زرعی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کروڑوں افراد کی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ملک کی 23 فیصد زرعی پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جب کہ تقریباً 68 فیصد دیہی معاش کی براہ راست مدد کرتا ہے۔

اس سپلائی میں کوئی بھی رکاوٹ بڑے پیمانے پر منفی نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ مثلاﹰ فصلوں کی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، اور مزید معاشی عدم استحکام، خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے ہی غربت اور جاری مالیاتی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیموں کا مشترکہ لائیو اسٹوریج صرف 14.4 ملین ایکڑ فٹ ہے جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے سالانہ استحقاق کا محض 10 فیصد ہے۔

پانی کے بہاؤ میں کمی یا موسمی تغیر کے وقت، ذخیرہ اندوزی میں یہ کمی پاکستان کو شدید خطرات سے دوچار کر دیتی ہے۔ بھارتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پردیپ کمار سکسینہ، جنہوں نے چھ سال سے زائد عرصے تک بھارت کی جانب سے سندھ آبی کمشنر کے طور پر کام کیا، کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت (ہند) نے ایسا فیصلہ کیا ہے تو یہ معاہدہ منسوخ کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

"

انہوں نے کہا،"اگرچہ معاہدے میں اس کی منسوخی کے لیے کوئی واضح شق موجود نہیں ہے، لیکن معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن کا آرٹیکل 62 کافی گنجائش فراہم کرتا ہے جس کے تحت حالات کی بنیادی تبدیلی کے پیش نظر معاہدے کو رد کیا جا سکتا ہے جو کہ اس معاہدے کے اختتام کے وقت موجود ہیں"۔

سابق بھارتی انڈس واٹر کمشنر سکسینہ کا کہنا تھا کہ دریا چونکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی جانب بہتے ہیں، اس لیے بھارت کو متعدد اختیارات حاصل ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال، بھارت نے پاکستان کو ایک باضابطہ نوٹس بھیجا تھا، جس میں اس معاہدے پر نظرثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پاکستانی ماہرین کی رائے

سابق پاکستانی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی 1960 میں عالمی بینک کی ضمانت میں طے پانے والے دو طرفہ سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نہ تو معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

انہیں خیالات کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا کیونکہ وہ "سازش کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے"۔

انہوں نے ایک پاکستانی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور ا"گر مودی کی زیر قیادت حکومت پاکستان کا پانی روکتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہو گا۔"

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا، "سندھ طاس معاہدہ تو جنگ میں بھی معطل نہیں ہوتا، پانی تو جنگ میں بھی بند نہیں ہوتا لیکن لگتا ہے بھارت معاملہ انتہا کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

" کیا معاہدہ ختم کرنا ممکن ہے؟

جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدہ ختم کرنا یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔

پاکستانی حکومتی ذرائع نے خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر پاکستان عالمی بینک سے ثالثی عدالت کے لیے رجوع کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں تنزلی آئی ہے۔

تب سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آئی ہے۔ اس تیزی سے غیر مستحکم جغرافیائی سیاسی حالات میں آگے بڑھنے کا سب سے قابل عمل راستہ تعاون کے اس جذبے کی طرف واپسی ہے جس میں سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
  • عالمی برادری مودی حکومت کے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے یکطرفہ اقدام کا نوٹس لے
  • بارہ ہزار افغان باشندوں کا پاکستانی دستاویزات استعمال کرکے سعودی عرب جانے کا انکشاف
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ سعودی عرب کیا معاہدے طے پائے؟
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کا خونی کھیل جاری،وحشیانہ بمباری سے مزید 28 فلسطینی شہید
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی، جامعہ اردو کراچی میں آئی ایس او کی احتجاجی ریلی
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز