’کیا یہ مذاق تھا؟‘، ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق سوال پر جوبائیڈن نے یہ جواب کیوں دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، اس جنگ بندی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ سب سے پہلے امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ غزہ میں موجود اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی ثالثی کا سہرا اپنے سر لیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پیش رفت صرف نومبر 2024 کے صدارتی انتخابات میں ’ہماری تاریخی فتح کے نتیجے‘ کے طور پر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلیوں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پاگیا، ٹرمپ کا دعویٰ
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ پوری دنیا کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ میری انتظامیہ تمام امریکیوں اور ہمارے اتحادیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے امن کی تلاش اور ڈیل پر بات چیت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وائٹ ہاؤس میں رہے بغیر بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اب ذرا ان تمام حیرت انگیز چیزوں کا تصور کریں جو میرے وائٹ ہاؤس واپس آنے پر رونما ہوں گی اور میری انتظامیہ کی مکمل تائید ہوگئی ہے کہ وہ امریکا کے لیے مزید کامیابیاں حاصل کر سکیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے کریڈٹ لینے کے بعد اب امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے معاہدے کو امریکی سفارت کاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم، غزہ میں جشن
جوبائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا مسودہ ان کی انتظامیہ کے دور میں تیار کیا گیا تھا تاہم نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اس کی شرائط پرعملدرآمد کرے گی۔ جوبائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ نئی آنے والی ٹرمپ کی ٹیم کے ساتھ قریبی رابطے قائم کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس معاملے پر ہم سب کا ایک موقف ہے۔
جیسے ہی جوبائیڈن اسٹیج سے روانہ ہونے لگے تو ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ اس معاہدے کا کریڈٹ کس کو جانا چاہیے ڈونلڈ ٹرمپ کو یا جوبائیڈن کو؟ اس کے جواب میں جوبائیڈن نے کہا کہ کیا یہ مذاق تھا؟
Reporter: Who gets credit for this? You or Trump?
Biden: Is that a joke? pic.
— Acyn (@Acyn) January 15, 2025
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں معاہدے کے اعلان کے بعد سے علاقے میں کم از کم 30 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
جنگ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کیا تھا، اس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 تقریباً لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا اور انہیں غزہ لے گئے۔ جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کیے جن میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ غزہ جنگ بندیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر عالمی سطح پر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنے کے لیے بنائے گئے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو ہمیشہ امن، مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام مسائل، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی کا حل مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔
بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان اعلانِ جنگ تصور کرے گا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو یہ بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے یا معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ پاکستان کے لیے پانی ایک بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔
اپنے بیان میں انہوں نے بھارت پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے پر غیرجانبدار تحقیقات کی پیشکش کی تھی، مگر بھارت نے یہ پیشکش مسترد کر کے ایک اور موقع ضائع کر دیا۔
بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس نازک موقع پر ٹرمپ کی مداخلت نے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان تنازعات کے پرامن حل کے لیے کوئی مؤثر مکینزم ہونا چاہیے تاکہ خطے کو غیر یقینی صورتحال سے بچایا جا سکے۔