خیبر پختونخوا میں دہشتگردی، سیاسی و عسکری قیادت کی اہم بیٹھک
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دہشتگردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، ریاست کا یہ دعویٰ کہ ملک میں ایسا کوئی علاقہ نہیں، جہاں دہشتگردوں کی عملدراری ہے اور ریاستی رٹ نہیں، درست نہیں۔ کیونکہ گذشتہ روز کرم کے علاقہ بگن میں مقامی دہشتگردوں نے ریاستی رٹ کو سرعام چیلنج کرتے ہوئے سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملہ کیا اور فورسز کی موجودگی میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کیساتھ ساتھ لوٹ مار کرتے ہوئے متعدد ٹرکوں کو نذر آتش کر دیا۔ رپورٹ: سید عدیل زیدی
 
 صوبہ خیبر پختونخوا میں جاری دہشتگردی اور بدامنی دن بدن ریاستی کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے، اس حوالے سے صوبائی، وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے مابین رابطوں کا فقدان بھی ایک وجہ قرار دیا جا رہا تھا، گذشتہ دنوں پشاور میں صوبہ کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور عسکری حکام کی ایک اہم بیٹھک ہوئی، جس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ’’انسداد دہشتگردی‘‘ تھا۔ اس اہم ملاقات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی، مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی سمیت صوبے کی دیگر جماعتوں کے رہنماء موجود تھے۔ اس موقع پر صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر مفصل گفتگو ہوئی۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس بیٹھک میں سیاسی قائدین نے اپنے خدشات اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔
 
 ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل قلع قمع کرنے کے حوالے سے ملاقات میں شریک تمام جماعتوں کا موقف واضح اور ایک نظر آیا، سینیئر صحافی صفی اللہ کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا، عام طور پر ایسے اجلاس میں وزیراعلیٰ، گورنر اور پولیس کے سربراہ شریک ہوتے ہیں، مگر اس ملاقات میں سیاسی قائدین کے علاوہ سابق وزراء اعلیٰ کو بھی بلایا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا یہ سارے وہ لوگ ہیں، جو کسی نہ کسی اہم منصب میں رہ چکے ہیں، اسی لیے یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر ایک تو اندرونی معاملات کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی، دوسرا خطے کی بدلتے صورتحال پر بھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سابق اور موجودہ وزراء اعلیٰ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا۔ صفی اللہ کا کہنا تھا کہ ایک طرف افغان حکام کیجانب سے سخت بیانات آ رہے ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ بھی کابل کے حوالے سے سخت موقف اپنا رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں آرمی چیف کی سیاسی قائدین سے ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے، جس کا ان تمام معاملات سے براہ راست تعلق ہے۔
 
 ملاقات میں اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ رسمی اور غیر رسمی طور پر افغان حکام کے ساتھ رابطے رہنے چاہئیں۔ اجلاس میں شریک سیاسی رہنماؤں کی رائے تھی کہ ریاست کی رٹ قائم کرنا اور عوام کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے گذشتہ کئی ماہ سے صوبے بالخصوص ضلع کرم میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران صوبہ میں روزانہ اوسطاً دہشتگردی کے دو واقعات رونما ہوئے۔ اس لیے اس حوالے سے بیٹھک کی ضرورت تھی، تاکہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس ملاقات کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات میں کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے، افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کرتے۔
 
 آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صرف انٹیلیجینس کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے سوال کیا کہ کیا فساد فی الارض، اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں، سب کو بلا تفریق اور تعصب دہشت گردی کے خلاف یکجا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا، جب متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی۔ انسان خطا کا پتلا ہے، سب غلطیاں کرتے ہیں، لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اُس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ پاک فوج کی پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔
 
 پاکستان کی سابق اور موجودہ حکومت اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ افغانستان کی عبوری حکومت اور اس کی ناقص بارڈر مینجمنٹ پالیسیوں کو قرار دیتی رہی ہے۔ درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، ریاست کا یہ دعویٰ کہ ملک میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی عملدراری ہے اور ریاستی رٹ نہیں، درست نہیں۔ کیونکہ گذشتہ روز کرم کے علاقہ بگن میں مقامی دہشتگردوں نے ریاستی رٹ کو سرعام چیلنج کرتے ہوئے سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملہ کیا اور فورسز کی موجودگی میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کیساتھ ساتھ لوٹ مار کرتے ہوئے متعدد ٹرکوں کو نذر آتش کردیا۔ دہشتگرد کرم سمیت صوبہ کے کئی علاقوں میں ریاستی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں، تاہم اب تک ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کی جانب سے دہشتگردی کو کنٹرول نہ کیا جانا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں امن و امان کی خیبر پختونخوا سیاسی قائدین ملاقات میں کرتے ہوئے ریاستی رٹ حوالے سے گردی کے ہے اور
پڑھیں:
پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-26
 لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) پی ٹی آئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہوگئی‘ حکومتی و سیاسی قیادت سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی پرانی قیادت ’ ریلیز عمران خان‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہے، تحریک میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنما موجود ہوں گے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو میڈیکل چیک اپ کے لیے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) اسپتال لاہور لایا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں فواد چودھری، مولوی محمود اور عمران اسماعیل نے اُن سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اہم فیصلے کیے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اِسی طرح ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کا فیصلہ کیا گیا، عمران خان سے ملاقات بھی کی جائے گی، پی ٹی آئی کی سابق قیادت شاہ محمود قریشی کی رہائی کے لیے بھی سرگرم ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے شاہ محمود قریشی کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی کو تمام تر معاملات کو حل اور درست کرنے کے کردار ادا کرنے پر گفتگو ہوئی۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کو باہر نہیں نکال سکتی‘ سابق سینیٹر اعجاز چودھری، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملاقات کی گئی‘ ملاقات کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فواد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی وفد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کرے گا۔ فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور دیگر رہنماوں سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی قیدیوں کو باہر لانے کی کوشش کی تائید کی ہے۔ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہٰذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا‘ اس وقت ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جاسکے، جس میں کم از کم بات چیت کا راستہ کھولا جا سکے، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور باقی دوستوں کے سامنے دوران ملاقات اپنا یہی نقطہ نظر رکھا اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی اسی نقطہ نظرکے حامی ہیں۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے اس کے لیے اقدامات ہوں گے، سیاسی ماحول کیسے بہتر ہوگا، وہ ایسے ہی بہتر ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف ملے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو رہیں، اعجاز چودھری، یاسمین راشد، عمر چیمہ، محمود رشید، سیاسی ورکرز اور خواتین کا حق ہے کہ انہیں ضمانت ملے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا آخر میں کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے اہم وزرا سے بات ہوئی ، وہ بھی مفاہمت کے حامی ہیں‘، ہم نے جو کوشش شروع کی ہے اگلے دو تین ہفتوں میں نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے، یہ سارے معاملات ہوں گے تو سیاسی فضا بہتر ہوگی، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے، فوری طور پر عمران اسمٰعیل، محمود مولوی اور میں باہر نکلے ہیں، آئندہ ملاقاتوں میں آپ کو پی ٹی آئی کی مزید سینئر لیڈر شپ نظر آئی گی اور یہ ماحول مزید بہتر ہو گا۔