القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) ماہرین کا ماننا ہے کہ سیاسی فیصلے ملک میں قانون کی عملداری اور جمہوری روایات کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور حالیہ فیصلہ بھی سیاسی انتقام پر مبنی ہے، کیونکہ اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو فیصلہ تین دفعہ مؤخرکرنے کے بعد سنایا گیا ہے صرف اور صرف پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر جھکانے کے لیے کیا گیا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا اس فیصلے کے پیچھے خاص کردار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیصلہ قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک کرمنل کیس نہیں تھا اسے ایک بڑے جرم کے طورپر ڈیل کیا گیا ہے۔القادر ٹرسٹ کیس سے عمران خان اور ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟
ملک کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں، ''میرے علم میں نہیں کہ آج تک کسی سیاسی کیس کا میرٹ پر فیصلہ کیا گیا ہو اور اس ملک میں قانون ایک مذاق بن چُکا ہے۔
(جاری ہے)
کون نہیں جانتا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور ایسے فیصلوں سے ملک میں کوئی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات میں اپوزیشن کو کیا دے سکتی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ مؤخر کیا جا رہا تھا اور اب وہ بھی سنا دیا گیا۔ اب مذاکرات کامیاب ہو بھی جائیں تو کورٹ سے سنائے گئے فیصلے کو حکومت کیسے ختم کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس کے لیے دوبارہ عدالت کا ہی رخ کرنا پڑے گا کیونکہ اس کیس کے فیصلے کا پتہ اب حکومت کے پاس موجود نہیں۔‘‘پی ٹی آئی کے رہنما بھی یہ سمجھتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ فیصلے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں خلل پیدا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی سینیٹرفلک ناز کہتی ہیں ،''یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ یہ عدالت کا فیصلہ ہے ہی نہیں، کوئی اور طاقت اس کے پیچھے ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہاریں گے اور تمام فورمز پر اپنے دفاع کا حق استعمال کریں گے۔
اس طرح کے ہتھکنڈوں سے حکومت مذاکرات کے دوران اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کر سکتی۔‘‘القادر ٹرسٹ فیصلے کی تفصیلات اور قانونی حیثیت کیا ہے؟
بروز جمعہ انسداد بدعنوانی کی عدالت نے عمران خان کو چودہ برس اور ان کی اہلیہ کو سات برس کی قید سنائی۔ القادر ٹرسٹ کیس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی ایک سو نوے ملین پاونڈ کی رقم برطانیہ کی حکومت نے منی لانڈرنگ کے جرم میں ضبط کر لی تھی اور کیونکہ وہ رقم پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے اور منی لانڈرنگ کے زریعے برطانیہ بھجوائی گئی تھی اس لیے وہ رقم پاکستان کی حکومت کو واپس کی جا سکتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک ریاض پر سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پر ہتھیائی گئی سرکاری زمین کے ایک کیس میں چار سو ساٹھ ارب کا جرمانہ دینے کا فیصلہ دیا ہوا تھا جو کہ ملک ریاض کو سات سال میں ادا کرنی تھی اور اس سلسلے میں کھولے گئے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھی۔القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد
عمران خان نے بطور وزیراعظم اس بات کی منظوری دی کہ برطانیہ سے حاصل شدہ رقم ملک ریاض کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جائے۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے یہ فائدہ ملک ریاض کو کیوں دیا کیونکہ برطانیہ سے آنے والی رقم تو حکومت کی تھی اور جرمانہ تو ملک ریاض نے علیحدہ سے ادا کرنا تھا۔ یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس فائدے کو دینے کے بدلے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ نے القادر ٹرسٹ جس کے ٹرسٹی دونوں میاں بیوی ہیں، کے نام پر اربوں روپے مالیت کی زمین حاصل کی۔عمران خان کی ضمانت منظور
پی ٹی آئی ہی کے کیس لڑنے والے قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسے ایک تکنیکی بے ضابطگی مانا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کے معاملات صرف تکنیکی غلطیوں کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کی بنیا د پر اس طرح سزا نہیں دی جا سکتی۔ سینئر وکیل حامد خان کا کہنا ہے ''یہ ایک تکنیکی غلطی ہے۔ اسے رشوت کا کیس ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی رقم دوبارہ حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جا سکتی تھی اور ملک ریاض کو پابند کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے جرمانے کی رقم علیحدہ سے ادا کریں۔ یہ ایک قانونی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ ہے اور طاقتور حلقوں کی طرف سے دبائو ڈال کر کروایا گیا ہے۔‘‘عمران خان کا گرفتاری کے بعد عدالتوں میں مصروف دن
مزید قانونی راستے کیا ہیں اور انصاف کی کتنی اُمید ہے؟
حامد خان کا کہنا تھا کہ اب اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ ایک اچھی شہرت رکھنے والی عدالت ہے جس کے بہت سے جج اپنے بےباک فیصلوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا،''یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ججوں پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کا بہت زیادہ پریشر ہے اور ہائیکورٹ کے چھ جج پچھلے سال اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں تو اب کیس فائل کرنے کے بعد پتا چلے گا کہ کیا صورت حال بنتی ہے۔‘‘.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے القادر ٹرسٹ کیس عمران خان اور سپریم کورٹ پی ٹی آئی ملک ریاض فیصلہ ہے کا فیصلہ جا سکتی کیا گیا تھی اور گیا ہے یہ ایک کیا جا اور ان ہے اور
پڑھیں:
سزا غیر قانونی ہیں، علی امین گنڈاپور،شاہ محمود کی جلد رہائی ممکن نہیں، سلمان اکرم راجہ
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کی گرفتاری اور سزا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، ہم ان فیصلوں کو نہیں مانتے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ سزائیں عوامی رائے اور آئین پر حملہ ہیں، اور تمام غیر قانونی فیصلے واپس لینے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:علی امین گنڈاپور کے ذریعے پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کا پیغام آتا ہے، لطیف کھوسہ
ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست سے پاکستان کی حقیقی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوگا، اور پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوششیں کرنے والے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سچ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما اور وکیل سلمان اکرم راجہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے۔
ان کے مطابق قریشی پر ابھی بھی 8، 9 مقدمات زیر التوا ہیں، اس لیے یہ تاثر درست نہیں کہ وہ جلد آزاد ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نظامِ انصاف کنٹرول میں ہے، اور یہ پورے معاشرے کے لیے ایک چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عوام کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ گیا: پی ٹی آئی کا 9 مئی کے ملزمان کو سزاؤں پر ردعمل
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم عدلیہ کی آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کے شیرپاؤ پل جلاؤ گھیراؤ کیس میں شاہ محمود قریشی سمیت 6 افراد کو بری کیا جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ اور دیگر کو 10-10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ علی امین گنڈاپور گنڈاپور