لاہور: پولیس اہلکاروں کی شہری کو اغوا کرکے لاکھوں لوٹنے کی واردات، مقدمہ درج
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے شہری کو اغوا کرکے اس سے ساڑھے چار لاکھ روپے بٹورنے کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ ڈیفنس پولیس نے واقعے میں ملوث اے ایس آئی سمیت پانچ اہلکاروں اور ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، اے ایس آئی خادم حسین، کلیم بٹ، کاشف، اور عائشہ نامی خاتون نے ساز باز کرکے محسن محبوب نامی شہری سے رقم ہتھیالی۔ محسن محبوب نے پہلے عائشہ سے شادی کی تھی، لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد دونوں میں علیحدگی ہو گئی تھی۔
چند روز قبل عائشہ نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کی مدد سے محسن محبوب کو دھوکے سے ڈیفنس میں بلایا۔ وہاں پہلے سے خادم حسین، کاشف، اور کلیم بٹ موجود تھے۔ ان افراد نے محسن محبوب کو زبردستی اے ٹی ایم سے ایک لاکھ روپے نکلوانے پر مجبور کیا اور مزید ساڑھے تین لاکھ روپے ایک اور اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروائے۔
ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ ملزمان نے دھمکی دی کہ اگر اس واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو مقدمہ درج کروا دیا جائے گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور محمد فیصل کامران نے واقعے کی اطلاع ملنے پر فوری انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری کے بعد پولیس اہلکاروں کے خلاف 155سی، 342 حبس بیجا، اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پولیس اہلکاروں
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔