حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات؛ کیا برف پگھل رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
پاکستانی سیاست بنیادی طور پر تنازعات کے ایسے دیو قامت پلرز پہ کھڑی ہے کہ جو ہمیشہ زلزلے کی زد میں رہتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ان تنازعات کو ہی کامیابی کی ضمانت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ان تنازعات کو ختم کرنے کے بجائے ان کو مختلف بیانات، نعروں اور فیصلوں سے نا صرف ہوا دی جاتی ہے بلکہ سلگتے انگاروں پہ پنکھا جھلا جاتا ہے کہ آگ بھڑکے نہیں تو پاکستان کی سیاست میں مزا نہیں آتا۔ کچھ ایسا ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حالیہ مذاکرات کے درمیان دیکھنے میں آیا۔
پاکستان کی سیاست میں 16 جنوری 2025 ایک اہم دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جب حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ یہ مذاکرات ایک عرصے سے جاری ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی امید کے ساتھ ہورہے ہیں، جہاں ملک کی دونوں بڑی قوتوں کے درمیان کشیدگی نے عوام کو مایوسی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ عوام کےلیے یہ خبریں کسی راحت سے کم نہیں تھیں، کیونکہ سیاسی استحکام کی طرف کوئی بھی قدم ملک کو درپیش معاشی اور سماجی چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس مثبت پیش رفت کے باوجود، سیاسی میدان میں احتیاط کا دامن چھوڑنا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ ماضی میں ایسی کوششیں بارہا ناکام ثابت ہوچکی ہیں۔
پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے تحریری صورت میں رکھے، جو بلاشبہ ماضی کے واقعات کی تحقیقات اور انصاف کے حصول کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان مطالبات میں خاص طور پر 9 مئی 2024 کے واقعات، مظاہرین پر طاقت کے استعمال، اور انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن جیسے معاملات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ گرفتار کارکنوں اور ان پر ہونے والے تشدد کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ میڈیا پر ممکنہ سنسر شپ اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تحقیقات کی درخواست بھی سامنے آئی۔ یہ مطالبات سننے میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایک سیاسی پہلو بھی منسلک ہے جو سوال اٹھاتا ہے کہ ان مطالبات کے پیچھے مقاصد کتنے حقیقی ہیں؟
حکومت نے مذاکرات کے دوران کسی بھی قسم کی سختی یا غیر لچکدار رویہ اپنانے کے بجائے مثبت انداز اپنایا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے نہ صرف پی ٹی آئی کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا بلکہ یہ عندیہ بھی دیا کہ ان نکات پر مزید مشاورت کے لیے اپنی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ حکومتی رویہ اس بار نرم اور دانشمندانہ محسوس ہوا، جو موجودہ حالات میں بہت ضروری تھا۔ ماضی کی سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی نے سیاسی فریقین کے درمیان ایک وسیع خلا پیدا کر دیا تھا، اور اسے کم کرنے کے لیے ایسی ہی عملی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے اس نرمی نے عوامی حلقوں میں امید کی کرن پیدا کی ہے کہ شاید اب صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔
ایک اور بڑی پیش رفت تب ہوئی جب بانی تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پہلے انکار اور پھر اقرار کی صورت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ یہ بیان کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کے علاوہ دیگر سطحوں پر بھی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ ملاقات اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہے کہ معاملات کو بہتر سمت میں لے جانے کی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم، اس انکشاف کے بعد عوامی اور سیاسی حلقوں میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں۔
اس سوال کا جواب مکمل طور پر مثبت تو نہیں دیا جا سکتا، لیکن مذاکرات کے موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ برف پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی بحالی ایک مشکل لیکن ممکنہ عمل ہے، اور موجودہ حالات میں جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ اس اعتماد سازی کی جانب پہلا قدم ہو سکتی ہے۔ اگر یہ پیش رفت جاری رہی اور مذاکرات کے دوران اخلاص کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ بحران کا حل نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اگر کوئی بھی فریق اپنی سیاسی برتری کے لیے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے نتائج مزید پیچیدگی پیدا کریں گے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ موجودہ مذاکراتی عمل مکمل طور پر محاذ آرائی کو ختم کر دے گا۔ ماضی میں بھی دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن وہ جلد ہی بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ تاہم، موجودہ حالات میں دونوں طرف سے نرمی کا مظاہرہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کا اعتماد ان پر کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اگر موجودہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اس کا منفی اثر دونوں پر پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔
پی ٹی آئی کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا ان کے نزدیک انصاف صرف ان کے کارکنوں کے لیے محدود ہے؟ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، لیکن کیا اس میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ مظاہروں کے دوران عوامی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار کون تھے؟ اگر واقعی انصاف کی بات کی جا رہی ہے تو اسے مکمل طور پر غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ یہ حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو نہ صرف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں بلکہ عوام کو یہ پیغام بھی دیں کہ قانون سب کےلیے برابر ہے۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات میں پی ٹی آئی کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اکثر اوقات اپنی ہی باتوں سے انحراف کیا۔ اگر موجودہ مذاکرات کو کامیاب بنانا ہے تو دونوں طرف سے اس بات کا مظاہرہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے۔ عوام نے دونوں سیاسی جماعتوں سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور اگر وہ ایک بار پھر مایوس ہوئے تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ان مذاکرات کو کامیاب بناتے ہوئے ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے جائے۔ موجودہ مذاکرات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہوگا کہ کیا حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے کر ایک جامع حکمت عملی اختیار کرے گی؟ اگر تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس بحران سے نکلنے کی کوشش کریں تو اس کا فائدہ پورے نظام کو ہوگا۔ تاہم، اگر یہ عمل صرف حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان محدود رہا تو اس کے اثرات محدود ہو سکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مذاکرات مکمل طور پر کامیاب ہوں گے یا نہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ موجودہ عمل نے دونوں فریقین کو مکالمے کی میز پر واپس بٹھایا ہے۔ اگر دونوں جانب سے مثبت رویہ برقرار رہا اور سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی گئی، تو موجودہ بحران کا حل ممکن ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ہر لمحہ جو ضائع ہو رہا ہے، وہ عوام کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے بالاتر ہو کر عوامی مسائل پر توجہ دیں۔ عوام ایک طویل عرصے سے اس سیاسی محاذ آرائی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو اس بحران سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ یہ فیصلہ کن لمحہ ہے، اور اگر دونوں فریقین نے موقع سے فائدہ اٹھایا تو یہ دن پاکستان کی تاریخ میں مثبت تبدیلی کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: موجودہ حالات میں موجودہ مذاکرات پی ٹی آئی کے مذاکرات کے حکومت اور کے درمیان ثابت ہو ہوگا کہ پیش رفت کی کوشش جائے گا ملک کو کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کی متوازن خارجہ پالیسی
پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کے سرکاری دورے کے دوران اعلیٰ چینی قیادت سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کا یہ دورہ پاک چین تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے سیاسی و عسکری تعلقات کا عکاس ہے، پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطحی روابط کے تسلسل اور علاقائی امن و استحکام کے لیے مشترکہ عزم کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے دارالحکومت بیجنگ میں چین کے نائب صدر ہان ژینگ اور وزیر خارجہ وانگ ژی سے علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں خطے اور عالمی سطح پر بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال، پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت روابط کے منصوبے اور مشترکہ جیوپولیٹیکل چیلنجز پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی دونوں ملکوں کی دوستی کا ڈنکا بجا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کے دورے کے دوران دونوں ممالک کی قیادت نے دو طرفہ تعلقات کی گہرائی اور وسعت پر اطمینان کا اظہار کیا اور خودمختاری، کثیرالجہتی تعاون اور علاقائی استحکام کے فروغ کے لیے اپنے غیرمتزلزل عزم کو دہرایا ہے۔
چین کی قیادت نے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے کردار اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ کثیرالجہتی اہداف کا حامل رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے چین کی فوجی قیادت سے بھی تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ نے چین کے وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن جنرل ژانگ یوشیا، سیاسی کمشنر، پیپلز لبریشن آرمی جنرل چن ہوئی اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کائی زائی جن سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں دفاعی و سیکیورٹی تعاون، انسداد دہشت گردی، مشترکہ تربیتی مشقوں، دفاعی جدیدیت اور ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
ہائبرڈ اور سرحد پار خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشنل ہم آہنگی اور اسٹرٹیجک تعاون کو مزید مؤثر بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔چینی عسکری قیادت نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ دفاعی شراکت داری پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور علاقائی امن و استحکام میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سراہا۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چین کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا اور دفاعی و عسکری تعاون کو مزید وسعت دینے کے پاکستانی عزم کا اعادہ کیا۔
پاک فوج کے سربراہ چین کے دورے پر ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے جمعہ کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں پاک امریکا تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستا ن اور امریکا کے وزراء خارجہ کی ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملا قات ہے۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک روابط تو ہو چکے ہیں لیکن بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پاک امریکا تعلقات اور مختلف شعبہ جات میں ممکنہ تعاون پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ دوطرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی امن کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے میں امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے کردار اور کاوشوں کو لائق تحسین قرار دیا جب کہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف کیا اورکہا کہ عالمی و علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔
مارکو روبیو نے مزید کہا کہ ہم پاک، امریکا دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت اور استحکام کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری ٹریڈ ڈائیلاگ میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے بھی پر امید ہیں۔ پاکستان امریکی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش منزل ہے۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ علاقائی امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے نقطہ نظر اورمفادات میں ہم آہنگی ہے۔ امریکا میں موجود پاکستانی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اورمختلف شعبہ جات میں مضبوط اورمنظم روابط استوار کرنے کے ضمن میں مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا پاکستان، واشنگٹن سے امداد نہیں تجارت چاہتا ہے، امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی دینے جا رہے ہیں، امریکا کے ساتھ بہت جلد تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔پاکستان امریکی منڈیوں تک مؤثر رسائی چاہتا ہے۔پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات امریکا جاتی ہیں، امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی دینے جا رہے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو سے ملاقات مفید رہی،باہمی شراکت داری پر زور دیا گیا۔انھوں نے کہا پاکستان امن پسند ایٹمی ملک ہے، تنازعات کا پرامن حل چاہتاہے،دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے۔پاکستان اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، بھارت کی خطے میں اپنی برتری اور تسلط کی کوششیں 7 سے 10 مئی کے دوران دفن کردی گئی ہیں۔
اس کی بالاتری، تسلط اور نیٹ سیکیورٹی پرووائیڈر کے دعوے ختم ہوچکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ تنازعات کے ہوتے ہوئے ترقی نہیں کر سکتا،مسئلہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع ہے،بھارت نے اگست 2019 ء میں غیرقانونی یکطرفہ اقدامات کیے جو متنازع خطے کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے لیے ہیں، جو بین الاقوامی قانون بشمول جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور یہ کسی کو بھی قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کو گمراہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کا راگ الاپتا ہے اور یہی اقدام رواں برس 22 اپریل کو کیا،پہلگام واقعے پر پاکستان پر الزامات عائد کیے۔ ہم نے کبھی بھی کشیدگی میں پہل نہیں کی بلکہ فضا اور زمین دونوں میدانوں میں جواب اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت اپنے دفاع کے طور پر دیا لیکن ہم قسمت اور آخری وقت میں مداخلت پر انحصار نہیں کرسکتے۔
پاکستان اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، ہم حریف کے طور پر نہیں بلکہ رابطہ کاری کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں جس کی تازہ مثال 17 جولائی کے دورہ کابل کی ہے جہاں ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے کے معاہدے ٹرانس افغان ریلوے پر دستخط ہوئے۔ انھوں نے کہا مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے، بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوناچاہیے۔
امریکا اور چین دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دونوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہے۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 76 سال سے بھی زیادہ عرصے سے قائم چلے آ رہے ہیں۔ سرد جنگ کا دور ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محاذ، پاکستان اور امریکا نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
اسی طرح چین کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ان دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا بنیادی اصول ہے۔ آج کا دور تجارت کا دور ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی چپقلش بھی سب کے سامنے ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسی طرح چین کی خارجہ پالیسی میں بھی معیشت کو اولیت حاصل ہے۔ ان حالات میں پاکستان نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آگاہی انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت اپنی معیشت کو بھی بہتر رکھنا ہے اور اپنی دفاعی صلاحیت پر بھی کوئی کمپرومائز نہیں کرنا ہے۔
تجارتی حوالے سے بھی امریکا اور چین پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں جب کہ دفاعی حوالے سے بھی دونوں ملک پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو اس انداز میں لے کر آگے بڑھیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا توازن پاکستان کے حق میں رہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت میں چل رہی ہے۔ پاکستان کی قیادت نے تاحال اچھی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔