Express News:
2025-11-03@12:41:02 GMT

پاکستان کی متوازن خارجہ پالیسی

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے چین کے سرکاری دورے کے دوران اعلیٰ چینی قیادت سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کا یہ دورہ پاک چین تعلقات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے سیاسی و عسکری تعلقات کا عکاس ہے، پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطحی روابط کے تسلسل اور علاقائی امن و استحکام کے لیے مشترکہ عزم کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے دارالحکومت بیجنگ میں چین کے نائب صدر ہان ژینگ اور وزیر خارجہ وانگ ژی سے علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں خطے اور عالمی سطح پر بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال، پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت روابط کے منصوبے اور مشترکہ جیوپولیٹیکل چیلنجز پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی دونوں ملکوں کی دوستی کا ڈنکا بجا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کے دورے کے دوران دونوں ممالک کی قیادت نے دو طرفہ تعلقات کی گہرائی اور وسعت پر اطمینان کا اظہار کیا اور خودمختاری، کثیرالجہتی تعاون اور علاقائی استحکام کے فروغ کے لیے اپنے غیرمتزلزل عزم کو دہرایا ہے۔

چین کی قیادت نے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے کردار اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کا یہ دورہ کثیرالجہتی اہداف کا حامل رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے چین کی فوجی قیادت سے بھی تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ نے چین کے وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن جنرل ژانگ یوشیا، سیاسی کمشنر، پیپلز لبریشن آرمی جنرل چن ہوئی اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کائی زائی جن سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں دفاعی و سیکیورٹی تعاون، انسداد دہشت گردی، مشترکہ تربیتی مشقوں، دفاعی جدیدیت اور ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔

ہائبرڈ اور سرحد پار خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشنل ہم آہنگی اور اسٹرٹیجک تعاون کو مزید مؤثر بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔چینی عسکری قیادت نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ دفاعی شراکت داری پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور علاقائی امن و استحکام میں پاکستان کے کلیدی کردار کو سراہا۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چین کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا اور دفاعی و عسکری تعاون کو مزید وسعت دینے کے پاکستانی عزم کا اعادہ کیا۔

پاک فوج کے سربراہ چین کے دورے پر ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے جمعہ کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں پاک امریکا تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستا ن اور امریکا کے وزراء خارجہ کی ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملا قات ہے۔ اس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک روابط تو ہو چکے ہیں لیکن بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پاک امریکا تعلقات اور مختلف شعبہ جات میں ممکنہ تعاون پر تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ دوطرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی، معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی امن کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے میں امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ کے کردار اور کاوشوں کو لائق تحسین قرار دیا جب کہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں کا اعتراف کیا اورکہا کہ عالمی و علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔

مارکو روبیو نے مزید کہا کہ ہم پاک، امریکا دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت اور استحکام کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری ٹریڈ ڈائیلاگ میں مثبت پیش رفت کے حوالے سے بھی پر امید ہیں۔ پاکستان امریکی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش منزل ہے۔

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ علاقائی امن کے حوالے سے دونوں ممالک کے نقطہ نظر اورمفادات میں ہم آہنگی ہے۔ امریکا میں موجود پاکستانی کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ اورمختلف شعبہ جات میں مضبوط اورمنظم روابط استوار کرنے کے ضمن میں مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا پاکستان، واشنگٹن سے امداد نہیں تجارت چاہتا ہے، امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی دینے جا رہے ہیں، امریکا کے ساتھ بہت جلد تجارتی معاہدہ ہو جائے گا۔پاکستان امریکی منڈیوں تک مؤثر رسائی چاہتا ہے۔پاکستان کی سب سے زیادہ برآمدات امریکا جاتی ہیں، امریکی مصنوعات کو پاکستان میں زیادہ رسائی دینے جا رہے ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو سے ملاقات مفید رہی،باہمی شراکت داری پر زور دیا گیا۔انھوں نے کہا پاکستان امن پسند ایٹمی ملک ہے، تنازعات کا پرامن حل چاہتاہے،دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے۔پاکستان اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، بھارت کی خطے میں اپنی برتری اور تسلط کی کوششیں 7 سے 10 مئی کے دوران دفن کردی گئی ہیں۔

اس کی بالاتری، تسلط اور نیٹ سیکیورٹی پرووائیڈر کے دعوے ختم ہوچکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارا خطہ تنازعات کے ہوتے ہوئے ترقی نہیں کر سکتا،مسئلہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع ہے،بھارت نے اگست 2019 ء میں غیرقانونی یکطرفہ اقدامات کیے جو متنازع خطے کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے لیے ہیں، جو بین الاقوامی قانون بشمول جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور یہ کسی کو بھی قابل قبول نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کو گمراہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کا راگ الاپتا ہے اور یہی اقدام رواں برس 22 اپریل کو کیا،پہلگام واقعے پر پاکستان پر الزامات عائد کیے۔ ہم نے کبھی بھی کشیدگی میں پہل نہیں کی بلکہ فضا اور زمین دونوں میدانوں میں جواب اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت اپنے دفاع کے طور پر دیا لیکن ہم قسمت اور آخری وقت میں مداخلت پر انحصار نہیں کرسکتے۔

پاکستان اپنے کسی بھی پڑوسی کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، ہم حریف کے طور پر نہیں بلکہ رابطہ کاری کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں جس کی تازہ مثال 17 جولائی کے دورہ کابل کی ہے جہاں ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے کے معاہدے ٹرانس افغان ریلوے پر دستخط ہوئے۔ انھوں نے کہا مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے، بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوناچاہیے۔

امریکا اور چین دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دونوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہے۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات 76 سال سے بھی زیادہ عرصے سے قائم چلے آ رہے ہیں۔ سرد جنگ کا دور ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محاذ، پاکستان اور امریکا نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

اسی طرح چین کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ان دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا بنیادی اصول ہے۔ آج کا دور تجارت کا دور ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی چپقلش بھی سب کے سامنے ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسی طرح چین کی خارجہ پالیسی میں بھی معیشت کو اولیت حاصل ہے۔ ان حالات میں پاکستان نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آگاہی انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت اپنی معیشت کو بھی بہتر رکھنا ہے اور اپنی دفاعی صلاحیت پر بھی کوئی کمپرومائز نہیں کرنا ہے۔

تجارتی حوالے سے بھی امریکا اور چین پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہیں جب کہ دفاعی حوالے سے بھی دونوں ملک پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو اس انداز میں لے کر آگے بڑھیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا توازن پاکستان کے حق میں رہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت میں چل رہی ہے۔ پاکستان کی قیادت نے تاحال اچھی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاک فوج کے سربراہ ملاقاتیں کی ہیں دونوں ملکوں کے خارجہ پالیسی شعبہ جات میں اسحاق ڈار نے حوالے سے بھی میں پاکستان علاقائی امن اور علاقائی دونوں ممالک کے حوالے سے پاکستان کی پاکستان کے امریکا کے کے درمیان قیادت نے کی قیادت روابط کے کے فروغ میں پاک کرنے کے اور چین کے ساتھ کیا اور چین کے ہے اور امن کے کہا کہ چین کی نے چین نے کہا کے لیے

پڑھیں:

بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔

ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''

انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔

اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع
  • قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
  • پاکستان اور جنوبی افریقا کی ٹیمیں فیصل آباد پہنچ گئیں
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہونا خوش آئند اقدام ہے، حنیف طیب