اسلام میں انسانی شرف و وقار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نزدیک آجر اور اجیر کا تعلق آقا اور خادم کا نہیں بلکہ دو بھائیوں جیسا ہے کہ جن کے مابین فرائض اور حقوق کی ایک خوشگوار فضاء قائم ہو تاکہ ملک کی صنعتی، پیداواری، کاروباری، تجارتی اور دیگر شعبوں کی ترقی میں اضافہ ممکن ہوسکے۔ کارکنوں سے حسن سلوک سے متعلق ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ
’’تمہارے ہاتھ کے نیچے کام کرنے والے تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو‘‘۔
(سنن ابن ماجہ۔3690)

کائنات کے ابدی اصولوں کے مطابق انسان کے رزق کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں وسائل رزق بلا امتیاز تمام انسانوں کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ دنیا پر مفاد پرست اور ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ہشت پا کی طرح مسلط ہوگیا جس نے اپنی بے پناہ دولت اور زبردست طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کا استحصال کرتے ہوئے دنیا کے تقریباً تمام مادی، ارضی، فضائی، آبی اور انسانی وسائل پر اپنا جابرانہ قبضہ جمالیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب دنیا بھر کی دولت اور جملہ وسائل محض چند طاقت ور گروہوں کی مٹھی میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کے کثیر الاقوامی صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں نے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کے اصل مستحق کروڑوں مظلوم کارکنوں کو ان کے جائز رزق سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سرمایہ داروں کی دولت اور جملہ وسائل کی اصل بنیاد انہی جفاکش کارکنوں کی بے پناہ محنت کا ہی ثمر ہے۔

کارکنوں کی اجرتیں(Wages) وہ ادائیگیاں ہیں جو کارکنوں کی جانب سے ان کی خدمات کی تفویض کردہ مالی قدر (Monetary value) ہے۔ چنانچہ اجرت کو “مزدور کی قیمت” بھی کہا جاتا ہے۔اجرت مزدور کا حق ہے،آجر کی طرف سے کوئی احسان نہیں۔ قرآن و سنہ کی تعلیمات کے مطابق کارکنوں کی اجرت کے تعین اور مقدار کے لیے چھ زریں اصول متعین کیے گئے ہیں۔ جن میں مزدور کو کام کی اجرت طے کیے بغیر بھرتی کرنے اور کام لینے سے منع، مزدور کے لیے معقول اجرت جو اس کی بنیادی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے کافی ہو، اجرت موجودہ حالات جیسے شدید مہنگائی، اشیائے صرف کی بلند قیمتوں اور اس کے کنبہ کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کی جانی چاہیے، اجرت کی بروقت اور پوری ادائیگی کیونکہ امیر شخص کا دولت پاس ہوتے ہوئے بھی مزدور کی اجرت کی ادائیگی میں تاخیر ظلم کے مترادف ہے، اجرت کی یکمشت ادائیگی اور مساوی کام کے لیے مساوی اجرت کی ادائیگی کا حکم شامل ہے۔

لیکن آج ملک کے کروڑوں محنت کشوں کا سب سے دیرینہ مسئلہ ان کی محنت و مشقت کے باوجود منصفانہ اجرتوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے محرومی ہے۔
اسلام اپنی آفاقی تعلیمات کے لحاظ سے ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام اجرت کا داعی ہے۔ جس میں آجر اور اجیر بنیادی ضروریات زندگی کے لحاظ سے برابر کے تصور کیے گئے ہیں۔ اسلامی قانون محنت و اجرت کے مطابق کوئی آجر کسی اجیر کی مزدور منڈی (Labour Market) کے مطابق اجرت یا اس طرح کی خدمات کے لیے جو اجرت حکومت نے مقرر کی ہو، نہ اس سے کم اجرت ادا کرے گا اور نہ ہی کارکن کو کسی اور طریقہ سے استحصال کا موقعہ دے گا اور حکومت بھی کارکنوں کو ان کی محنت کے عوض جائز اجرت دلانے کی پابند ہوگی۔ اسی طرح کارکنوں کو بھی اتنے مطالبہ کا حق نہیں دیا جائے گا کہ جس کے نتیجہ میں اس کے آجر کے کام کو فائدے کے بجائے اسے نقصان میں تبدیل کر دے۔

عالمی بینک کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا آٹھ کروڑ حصہ افرادی قوت(Labour Force) پر مشتمل ہے جو ایک عظیم افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا میں دسویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ وطن عزیز کی یہ عظیم افرادی قوت شب و روز محنت و مشقت کرکے ملک کی معاشی، پیداواری، کاروباری اور تجارتی ترقی میں نہایت فعال ادا کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کروڑوں نفوس پر مشتمل یہ محنت کش طبقہ درجہ سوم کے محروم شہری کی حیثیت سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ المیہ ہے کہ ملک کے اس کثیر طبقہ کو ملک کی کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت سمیت کسی عوامی ایوانوں میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے جس کے باعث سخت ظلم و جبر اور نا انصافی کا شکار اس مظلوم طبقہ کی کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال کے نتیجہ میں ملک کے کروڑوں کارکن اپنے بنیادی حقوق خوراک، رہائش، پینے کے صاف پانی، علاج و معالجہ، بچوں کی تعلیم اور ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروری سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں۔

جبکہ اس کے برعکس دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں صنعتی، پیداواری، کاروباری اور تجارتی شعبوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کو ان کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر انسانی وسائل(Human Resource) کا درجہ دیا گیا ہے جو دیگر قدرتی و مادی وسائل کی طرح ملک کے لیے ایک قیمتی انسانی سرمایہ(Human Capital) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان ترقی یافتہ ممالک میں انسانی وسائل کے فروغ اور ترقی کو ترجیحی طور پر اہمیت حاصل ہے۔ جہاں کارکنوں کو ضروری پیشہ ورانہ فنی تربیت کی فراہمی کے ذریعہ ملک اور بیرون ملک باوقار روزگار کے ذرائع پیدا کیے جاتے ہیں اور کارکنوں کے حالات کار کو بہتر بنانے اور انہیں منصفانہ اجرتوں اور ضروری سہولیات فراہم کرکے معاشرہ میں ایک باعزت اور باوقار مقام عطا کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ معاشرہ میں طبقاتی لحاظ سے کسی قسم کے امتیازی سلوک کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
(جاری ہے)\

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے نتیجہ میں اللہ تعالی کارکنوں کو کارکنوں کی کے مطابق کی اجرت اجرت کی اور ان ملک کے کے لیے

پڑھیں:

ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں مسترد

اسلام آباد:

ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے دائر کی گئیں کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں عدالت نے مسترد کردیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے  اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کمپٹیشن کمیشن کو ٹیلی کام سمیت تمام شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے۔

واضح رہے کہ کمپٹیشن کمیشن  نے گمراہ کن مارکیٹنگ پر ٹیلی کام کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ یہ شوکاز  نوٹسز پری پیڈ کارڈز پر اضافی فیس ’’سروس مینٹیننس‘‘  فیس پر کیے گئے   تھے جب کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء  سے نوٹس پر اسٹے حاصل کر رکھا تھا ۔

موبائل کمپنیوں کے ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ پیکیجز کو گمراہ کن مارکیٹنگ قرار  دیا گیا تھا۔

پی ٹی سی ایل نے فکسڈ لوکل لوپ سروسز میں امتیازی قیمتوں پر انکوائری پر اسٹے لیا  تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کے قانون کا دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک ہے۔ ریگولیٹری ادارے بھی کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آ سکتے ہیں۔ عدالت نے ٹیلی کام کمپنیوں کی ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کردیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹی ایل پی کے مزید 30 کارکنوں کو مقدمات سے ڈسچارج کر دیا گیا
  • کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری
  • پنجاب کے 3 حلقوں میں ضمنی انتخابات کی نئی تاریخ مقرر
  • ریاست نئے مالیاتی معاہدے کی کھوج میں
  • عدالت کو مطمئن کرنے تک ای چالان کے جرمانے معطل کیے جائیں، سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • اجتماع عام پاکستان میں منصفانہ نظام کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ہوگا۔ سراج الحق
  • ’لاہور میں جرمانہ 200، کراچی میں 5000‘، شہری ای چالان کیخلاف سندھ ہائیکورٹ پہنچ گیا
  • پنجاب میں وقف، ٹرسٹ اور کوآپریٹو سوسائٹیز کی نگرانی کیلئے نیا کمیشن قائم
  • ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں مسترد
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان