Nai Baat:
2025-07-05@17:03:35 GMT

امن معاہدہ یا ایک اور کربلا کا پیش خیمہ؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

امن معاہدہ یا ایک اور کربلا کا پیش خیمہ؟

قطر میں اسرائیل و حماس کے مابین ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پھر سے اپنی سفاکانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ جنگ بندی کے اعلان سے اب تک بچوں سمیت 123 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں نہ صرف یہ بلکہ جنگ بندی کے باقاعدہ آغاز سے پانچ منٹ قبل اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری جاری رہی۔ یہ کیسی جنگ بندی ہے جس کے اعلان کے بعد بھی سیکڑوں معصوموں کی جان لے لی گئی؟ غزہ کو نیتن یاہو نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے جہاں کبھی زندگی مسکرایا کرتی تھی۔ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک پریشان کن صورتحال نے جنم لیا ہے۔ جہاں ایک طرف جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں وہیں اسرائیلی وزیراعظم کے تازہ ترین بیان نے اس کے مذموم ارادوں کا پتہ بھی دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے خون کا پیاسا نیتن یاہو اپنی کرپشن بچانے کے لیے زیادہ دیر اس معاہدے پر قائم نہیں رہے گا، جس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا ہے۔ معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ عارضی ہے، اگر دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ پہلا مرحلہ صرف چھ ہفتوں پر محیط ہے جس میں 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے بقیہ 33 کو دو ہزار فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل حماس کے اہم سیاسی قیدی جن میں مروان برغوطی اور احمد سادات شامل ہیں کو رہا کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم حماس ان اہم سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیروں کے بیانات آنے والے وقت میں مزید تباہ کن جنگ کا پیغام دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالل سموٹریچ نے غزہ کے باسیوں کو جنگ بندی معاہدے پر جشن منانے پر ان کا مذاق اڑاتے ہو کہا ہے کہ غزہ تباہ اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ غزہ ناقابل رہائش ہے اور یہ ایسا ہی رہے گا۔ سموٹریچ کا کہنا تھا کہ یہ خوشی وہ جلد ہی ان سے چھین لیں گے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے فلسطینی معاشرے کو ایک حیوانی معاشرہ قرار دیا ہے جو موت کو تقدس بخشتا ہے اور اپنے کھنڈرات پر رقص کرتا ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں۔ وہ غزہ کے بچے کھچے باسیوں کی مسکراہٹ کو ایک بار پھر مٹانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مزید دردناک غم، آہیں اور سسکیاں غزہ کے لوگوں کی منتظر ہیں۔ خطرات اور خدشات کو اسرائیلی وزیراعظم نے مزید یہ کہہ کر ہوا دے دی ہے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی سہولت کاری کرے گی۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سے بدھ کے روز اس کی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے جس میں ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ ڈیل عارضی ہے، اسرائیل پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور جدید اسلحہ کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے گا تاکہ دوبارہ جنگ کا آغاز پہلے سے زیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ کیا جائے۔
نیتن یاہو انسان کے روپ میں ایک ایسا درندہ ہے جو طاقت کے حصول کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس بار اسرائیلی وزیراعظم کی نظر صرف غزہ پر نہیں بلکہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت کے ساتھ ایک نیا جنگی کھیل کھیلنے کو تیار ہے۔ حالیہ بیانات سے مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان بیانات سے نہ صرف نیتن یاہو نے اپنے ارادے عیاں کیے ہیں بلکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کو بھی آشکار کیا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آیا نیتن یاہو کی بات پر یقین کیا جائے یا نہیں؟ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم دنیا سے جنگ و جدل کے خاتمے کے گرد گھومتی تھی۔ ان کے اسی بیانئے کو امریکی عوام نے پذیرائی بخشی اور بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔ ان حالات میں کیا وہ غزہ بلکہ پورے فلسطین و مشرق وسطیٰ پر یہودیوں کو من مانی کی اجازت دیں گے؟ ویسے ٹرمپ کا ماضی اس حوالے سے کچھ زیادہ امید افزا نہیں۔ 2017 میں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اسرائیل کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مگر اب کی باری ہواؤں کا رخ کچھ بدلا بدلا دکھائی دیتا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم نے انسانیت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہے۔ اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج سے رائے عامہ کی سوچ بھی واضح ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت بھی اسرائیلی وزیراعظم کے ظالمانہ جنگی جرائم سے بخوبی واقف ہے۔ بات وہی ہے کہ کیا امریکی عوام کا ردعمل ٹرمپ کو ایسا گھناؤنا فعل کرنے کی اجازت دے گا؟ ابھی کئی اہم سوالات ہیں جو اس جنگ بندی معاہدے کے بعد جنم لے رہے ہیں۔ ان کے جوابات آنے والے وقت میں ظاہر ہونگے۔ ابھی تک حالات گمبھیر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کی جانب سے کیا گیا حملہ دانشمندی سے عاری تھا۔ فیصلہ کرنے والوں نے اس کے بھیانک نتائج کو مدنظر نہیں رکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں اسرائیل کے تقریباً 1100 لوگ مارے گئے وہیں 47 ہزار پانچ سو سے زائد بے گناہ، معصوم بچے اور فلسطینی شہری شہید ہو گئے۔ ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ غزہ تباہ و برباد ہو گیا اور اب کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اتنے بھاری نقصان اور انسانی المیہ کے بعد قطر میں بیٹھ کر جو دونوں پارٹیوں نے صلح کی ہے وہ بھی عارضی ہے۔ لہو کی ہولی ایک بار پھر کھیلی جائے گی اور اگر اسرائیل اور فلسطین کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں اسرائیل کی جانب سے بارہا خون کی ہولی کھیلی گئی ہے جس میں ہمیشہ فلسطین کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ آزادی کی جد وجہد کے خواہش مند فیصلہ کرنے والوں نے حکمت کا راستہ نہ اپنایا۔ وہ بھول گئے تھے کہ ان کا مقابلہ محض اسرائیل سے نہیں بلکہ ان طاقتور ممالک سے جن کے جدید جنگی ہتھیاروں کی بدولت اسرائیل فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیلتا ہے۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ لاکھوں نہتے فلسطینی بچے، خواتین، مرد اور بوڑھے شہری شہید ہوئے۔ گھر اجڑ گئے۔ اب تو پورا غزہ دردناک اور انسانیت سوز مناظر پیش کر رہا ہے جسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ اتنے بڑے قتل عام کے بعد بھی اسرائیل کی پیاس بجھی نہیں۔ معاہدے کے باوجود اسرائیل کا غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے بظاہر یہ امن معاہدہ زیادہ دیر تک ٹکتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ سخت بیانات اور عارضی جنگ بندی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں اور مشرق وسطیٰ کے خلاف سازش کو آشکار کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کو معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے اسرائیل پر دباؤ مسلسل جاری رکھنا ہو گا وگرنہ اسرائیل کے عزائم غزہ کو ایک بار پھر کربلا بنانے کے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم جنگ بندی معاہدے نیتن یاہو نے اسرائیل کے اسرائیل کی معاہدے کے دیا ہے رہا ہے کر دیا کے بعد

پڑھیں:

عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت

دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )عرب ممالک نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبات کو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے عرب نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو 14 اسرائیلی وزرا اور کنیسٹ کے اسپیکر عامر اوحانا کے دستخطوں کے ساتھ ارسال کردہ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو فوری طور پر اسرائیل میں ضم کر دیا جائے.

(جاری ہے)

اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیوین نے بھی اسی مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی خودمختاری نافذ کریںفلسطینی اتھارٹی نے ایک بیان میں ان مطالبات کو خطے کے استحکام کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے اردن کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے اراکین کی جانب سے دیے گئے ان بیانات کو انتہائی خطرناک اور شدید قابل مذمت قرار دیا.

سعودی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری بیان میں فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کرنے کے سرکاری اسرائیلی مطالبے کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا سعودی وزارت خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی ہر کوشش کو مسترد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکام کو عالمی فیصلوں کے مطابق جواب دہ بنایا جانا چاہیے.

مصری وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا دوسری جانب امریکی جریدے”نیویارک ٹائمز“نے ذرائع کے حوالے سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے ممکنہ معاہدے کی تفصیلات شائع کی ہیں اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع اور حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے فلسطینی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاہدے میں دس اسرائیلی زندہ یرغمالیوں کی رہائی اور اٹھارہ زخمیوں کی منتقلی شامل ہے جن کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا.

ان یرغمالیوں کی رہائی اور لاشوں کی منتقلی پانچ مراحل میں مکمل کی جائے گی جو ساٹھ دن کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران انجام پائے گی اسرائیلی ذریعے کے مطابق اس منصوبے کے تحت حماس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس بار یرغمالیوں کی رہائی کے وقت پہلے کی طرح کسی قسم کی ”رہائی کی تقاریب“ منعقد نہ کرے جیسا کہ اس سال کے اوائل میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران ہوا تھا حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز موصول ہوئی ہیں جو ثالثوں کے ذریعے پیش کی گئی ہیں اور اس کا مقصد ایسا معاہدہ حاصل کرنا ہے جو اس تصادم کو ختم کرے اور اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلا کی ضمانت دے.

حماس نے اپنے سرکاری ٹیلیگرام صفحے پر جاری ایک بیان میں کہاکہ ثالث تمام فریقوں کے درمیان خلا کو پاٹنے اور ایک فریم ورک معاہدہ حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے آغاز کی خاطر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں بیان میں کہا گیاکہ ہم اس معاملے کو اعلیٰ درجے کی ذمہ داری کے ساتھ لے رہے ہیں اور قومی مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ثالثوں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز پر غور کیا جا سکے اور ایسا معاہدہ حاصل کیا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے، انخلا کی تکمیل، اور ہمارے عوام کے لیے فوری امداد کی ضمانت دے، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں.

اسی سلسلے میں امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے آمادہ نظر آ رہے ہیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات نے کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کی شرائط سے اتفاق کر لیا ہے، غزہ کی پٹی میں امیدیں دوبارہ زندہ کر دی ہیں. قبل ازیں سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میںصدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے نمائندوں نے آج اسرائیلیوں کے ساتھ غزہ کے حوالے سے ایک طویل اور تعمیری ملاقات کی ہے انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے ساٹھ روزہ جنگ بندی کے لیے ضروری شرائط سے اتفاق کر لیا ہے اور اس مدت کے دوران ہم تمام فریقوں کے ساتھ مل کر جنگ کے خاتمے کے لیے کام کریں گے.

انہوں نے کہاکہ قطری اور مصری، جنھوں نے امن کے لیے سخت محنت کی ہے اس حتمی تجویز کو پیش کریں گے ٹرمپ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں مشرقِ وسطیٰ کے مفاد میں یہ امید کرتا ہوں کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گی کیونکہ صورت حال بہتر ہونے والی نہیں بلکہ مزید خراب ہو جائے گی.

متعلقہ مضامین

  • معاہدہ اگر باعزت نہیں ہوا تو پھر حتمی جنگ ہوگی، حماس کمانڈر کا دوٹوک پیغام
  • حماس کی غزہ جنگ بندی معاہدے پر تجاویز موصول؛ مشاورت بھی شروع؛ اسرائیل
  • غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ آئندہ ہفتے ممکن، صدر ٹرمپ
  • غزہ میں جنگ بندی پر حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • آئندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا فیصلہ معلوم ہوجائے گا، امریکی صدر
  • آئندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا فیصلہ معلوم ہوجائے گا، امریکی صدر
  • اسرائیلی میڈیا نے جنگ بندی معاہدے کی مزید تفصیلات جاری کر دیں
  • حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
  • عرب ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی مطالبات کی مذمت
  • صدر ٹرمپ کی پیش کی گئی آخری جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس