امریکا آج سے سنہرے دور میں داخل ہوگیا، غیر قانونی تارکین کو واپس بھیجیں گے، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکا کے نئے صدر ٹرمپ نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے ملک اور قوم کو دنیا بھر میں عظیم بنانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومتی پالیسز جاری کردیں۔
وائٹ ہاؤس میں حلف اٹھانے کے بعد اپنے خطاب کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ آج سے امریکا کا نیا اور سنہرا دور شروع ہورہا ہے، ہم دنیا بھر میں امریکا کو نیا مقام اور عزت دلوائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کرپٹ اسٹیبلشمنٹ سے ملک کو چھٹکارا دلوانا، عوام کے مسائل کو حل کرنا ترجیحات ہیں۔ لانس اینجلس کی آتشزدگی اور وہاں کے بے داخل شہریوں کی بھی مدد کی جائے گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ آج سے آپ کو تیز ترین تبدیلیاں نظر آئیں گی، ملک کو ہتھیاروں سے پاک کریں گے اور دنیا بھر سے تعلقات کو بہتر کریں گے۔ آج سے امریکا کے نیچے جانے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے ووٹ دینے پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکا کو قابل فخر اور اقوام میں سرفہرست بنائیں گے۔
ٹرمپ نے سال 2025 کو لبریشن ڈے قرار دیا اور کہا کہ امریکا کی تاریخ میں حالیہ الیکشن اور اس میں فتح عوامی جذبات کی غمازی ہے۔ انہوں نے امریکی، ایشین نژاد، سیاہ فام سمیت دیگر ووٹ دینے والوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے ملک، قوم، عوام اور خدا کو کبھی نہیں بھولوں گا۔
ٹرمپ نے کاہ کہ امریکا دوبارہ خودمختاری حاصل کرے گا، ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں گے اور امریکا کو پہلے سے زیادہ کامیاب بنائیں گے۔
امریکی صدر نے جنوبی سرحدوں پر ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے غیر قانونی تارکین کو واپس بھیجنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ اس معاملے میں ہماری میکسیکو والی پالیسی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کو انصاف، صحت کی سہولیات اور گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ میں اپنے عوام کے ساتھ کھڑا ہوں اور اُن کے لیے لڑوں گا، اس لڑائی میں انہیں فتح دلواؤں گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ا
پڑھیں:
تین سنہرے اصول
کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ دنیا میں، اس ہمارے ملک میں اور ہمارے اردگرد بہت کچھ اُلٹ پلٹ ہوچکا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف سورج ابھی مغرب کی طرف تو نہیں نکل رہا ہے۔لیکن باقی سب کچھ بدل چکا ہے، الٹ ہوچکا ہے۔ایک مستند دانا دانشور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کبھی بچے اپنے والدین سے بات کرتے تھے تو بہت جھجھکتے تھے، سوچتے تھے اور ڈرتے تھے کہ بات کی تو کیا نتیجہ نکلے گا لیکن زمانہ بدل گیا ہے، اب والدین اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے یہی کچھ کرتے ہیں۔
بیویاں اپنے شوہروں سے بات کرتے ہوئے ڈرا کرتی تھیں لیکن اب شوہر اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے بہت سوچتے، سمجھتے اور بہت تول تول کر منہ سے ’’بول‘‘ نکالتے ہیں کہ کہیں پارہ نہ چڑھ جائے، ماضی میں شوہر بیویوں سے حساب مانگتے تھے اور اب بیویاں شوہروں کا آڈٹ کرتی ہیں۔تنخواہ کا بھی اور وقت کا بھی؟ چھٹی تو دو بجے ہوتی ہے اور تم اب چار بجے گھر پہنچے ہو۔یہ دو گھنٹے کہاں تھے، کیا کرتے تھے اور کیوں کرتے تھے؟ پرانے زمانے میں ’’مجرم‘‘ پولیس سے ڈرتے تھے اور اب پولیس مجرموں سے ڈرتی ہے کہ کہیں’’کام چھوڑ‘‘ ہڑتال کرکے ہمیں اپنی تنخواہ کے ساتھ تنہا نہ چھوڑ دیں۔
پہلے انسان درندوں سے ڈرا کرتے تھے، اب درندے انسانوں سے ڈرکر نہ جانے کہاں غائب ہورہے ہیں؟ اس خیال سے کہ ہمارا سارا کام تو انسانوں نے سنبھال لیا ہے اور درندگی کا وہ کام شہروں میں کھلے عام کررہا ہے تو ہم کیا کریں گے اور کہاں رہیں گے کہ جنگل میں بھی انسانوں نے شہر اگا لیے ہیں۔
مسجد میں ہم نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے یا لیٹے یا اونگتے رہتے تھے اور گھر بہت کم کم جاتے تھے۔پوچھا حضور کیا بات ہے گھر میں کوئی ناچاقی ہے، ناہمواری ہے اور پریشانی ہے کیا؟ بولے نہ ناچاقی ہے نہ پریشانی ہے نہ ناہمواری ہے ’’شرمندگی ہے‘‘۔کیسی شرمندگی؟ ہم نے پوچھا تو بولے بلکہ تقریباً روئے اور کہا، سارے گھر والے مجھ سے ناراض ہیں، شاکی ہیں، روٹھے ہوئے ہیں، احترام و عزت تو دور کی بات ہے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے، گھر میں کہیں بیٹھا یا لیٹا ہوتا ہوں تو یوں دور دور رہتے ہیں جیسے مجھے چھوت کی کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو۔
پوچھا کیوں ؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے ؟
بولے، اس لیے کہ میں نے کچھ’’کیا‘‘ کیوں نہیں ہے۔
ساری زندگی جوتے اور انگلیاں گھسا گھسا کر انھیں دیا نہ دے پایا، وہ میرے بیٹوں نے چار پانچ سال میں دے دیا ہے،میں نے ان کو دس مرلے کے ٹوٹے پھوٹے اور کھنڈر نما گھر میں جس ہر ہر سہولت سے ترسایا تھا، بیٹوں نے آٹھ کنال کے لگژری بنگلے میں وہ سب کچھ مہیا کردیا ہے۔ میں نے عمر بھر انھیں مچھروں سے کٹوایا اور کھڑکھڑاتے ہوئے ایک پنکھے کے نیچے سلایا بلکہ جگائے رکھا تھا اور اب بیٹوں نے اے سی کمروں میں پہنچا دیا ہے۔
میں نے مانگے تانگے کا برف ڈال کر کولر کا پانی پلایا تھا اور اب ان کے پاس ہر کمرے میں ایک فریج ہے اور کچن میں دو بڑے ڈیپ فریزرز۔ میں نے ان کو ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقت کھلایا تھا۔اور اب ان کے کچن سے ہر وقت خوشبو دار کھانے نکلتے ہیں۔اب تم بتاؤ کہ ایک ناکام و نامراد انسان ان کامیاب اور بامراد انسانوں کے بیچ کیسے رہے؟ یہ تو ایک عام انسان ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا المیہ تھا۔لیکن ہم ایک ایسے خاص انسان سے بھی واقف ہیں جس نے اپنی ساری زندگی ایک نظریاتی سیاسی پارٹی میں ’’ضایع‘‘ کی ہے اور اس کا کل اثاثہ جسم پر پرانے زخموں کے نشان، قیدوبند کی یادوں اور قربانیوں کی صورت میں اس کے پاس ہے باقی کچھ نہیں۔جس کی ساری عمر،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،میں گزری ہے اور آخر تھک ہار کر یہ کہتے گھر پہنچا کہ
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے
لیکن نہ بہار آئی شاید نہ بہار آئے
لیکن بہار ایک اور طرف سے ایک اور راستے سے آئی بلکہ اس کا ایک بیٹا اس’’بہار‘‘ کو کان سے پکڑ کر سیدھا اپنے گھر لے آٰیا۔’’باغ تمنا‘‘ میں ایک لمحہ گزارے بغیر وہ آج کل اپنے بلکہ بیٹے کی عظیم الشان حویلی کے مردانہ حصے کی ایک بیٹھک میں مقیم ہے، بیٹے اور گھروالوں نے اسے ہر طرح سے جتن کرکے گھر کے اندر لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا۔اور خود اپنے اوپر نافذ کی ہوئی سزائے قید میں پڑا ہوا ہے۔بیٹے نے ایک خدمت گار تعینات کردیا۔ تو اس نے اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک خدمت گار کسی اور سے خدمت کیسے لے سکتا ہے۔
وہ اپنی ناکامی کے احساس سے شرمندہ ہے کہ جو کچھ اس نے پچاس سال ایک پارٹی سے وابستہ رہ کر حاصل نہیں کیا تھا، وہ اس کے بیٹے نے ایک پارٹی میں چند ہی سال میں حاصل کرلیا۔کیونکہ وہ باپ کی فرسودہ پارٹی کو چھوڑ کر نئے دور کی ایک ’’بیسٹ سیلر‘‘ پارٹی میں شامل ہوگیا۔ جو ’’شارٹ کٹوں‘‘ سے بھرپور بھی ہے اور پورے گھر کو ہر چیز سے بھردیا ہے، ہم کبھی کبھی اس ناکام نامراد اور نکمے سے جاکر حال چال پوچھتے ہیں اور اگلے زمانے کے بیوقوف لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں۔
ایک دن اس کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو اس نے شکایت کی کہ میں تو ہر طرح سے ان کا خیال رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ میرا کچھ بھی قبول نہیں کرتے حالانکہ میں نے یہ سب کچھ انھی کی برکت سے پایا ہے۔
ہم نے کہا ہاں ان کا ایک ’’نام‘‘ تو تھا۔بولا میں نام کی بات نہیں کر رہاہوں، نام تو آج کل ایک کھوٹا سکہ ہے۔میں ان کے اصولوں کی بات کررہا ہوں۔ان کے تین اصول تھے ایمانداری، خودداری اور وفاداری۔ میں نے ان کے ان تین اصولوں کو ہمیشہ یاد رکھا، اپنے سامنے رکھا۔اور ہمیشہ ان سے’’بچنے‘‘ کی کوشش کی، ان کو کبھی اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ اور یہ سب کچھ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ ان اصولوں کو راستے کا روڑا سمجھ کر یا تو لات مارکر راستے سے ہٹا دیا ہے۔یا پیر اٹھا کر اور انھیں پھلانگ کر آگے بڑھا ہوں۔