26 ویں ترمیم، فل کورٹ کے لیے تمام نظریں آئینی بینچ پر ہیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد:
یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا آئینی بنچ 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر بینچ میں تمام ججز کو شامل کرے گا؟ کیس میں درخواست گزار فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست کریں گے۔ اب سب کی نظریں 8رکنی آئینی بینچ پر ہیں کہ وہ فل کورٹ بنائیں گے یا نہیں؟
قبل ازیں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے مقدمہ فل کورٹ میں لگانے کی سفارش کی گئی تھی تاہم چیف جسٹس آفریدی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے تمام ججز سے مشاورت کی تھی اور اکثریت فل کورٹ بننے کے حق میں نہیں تھی۔
بعد ازاں چیف جسٹس آفریدی نے آگاہ کیا تھا کہ فل کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ آئینی بینچ کرے گا۔
آل پاکستان لائرز ایکشن کمیٹی نے زور دیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق معاملے کی سماعت وہی ریگولر بنچ کرے۔
پاکستان بار کونسل کے منتخب اور سابق عہدیداران، صوبائی بار کونسلز اور بڑی بارز ایسوسی ایشنز عدالتیں کے ارکان نے خط میں بلوچستان بار کونسل کی پریس ریلیز اور جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں تفویض کردہ کیس کو غیر منصفانہ طریقے سے ہٹانے کے معاملے میں یکجہتی کا اظہار کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ تحفظِ دستور محاذ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس کے فیصلے میں جسے جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے، واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک بار جب کوئی کیس کسی بینچ کو سونپا جاتا ہے اور سماعت شروع ہوتی ہے، تو وہی بنچ اس معاملے پر فیصلے کا مجاز ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ سے کیس کو ہٹانے سے سپریم کورٹ کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منصور علی شاہ فل کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس، سماعت 29 مئی تک ملتوی
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔
فیصل صدیقی نے بینچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا بینچ ہے جس میں اکثریتی ججز نے اصل کیس نہیں سنا، اسی لیے وہ اپنا مقدمہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 13 میں سے 11 ججز نے کہا تھا کہ یہ نشستیں تحریک انصاف کی بنتی ہیں، لہٰذا یہ فیصلہ صرف 8 ججز کا نہیں، بلکہ 11 ججز کا تھا۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ نظرثانی درخواست صرف اقلیتی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کی درخواست میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے پر انحصار کیا گیا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ 7 گزارشات عدالت کے سامنے رکھیں گے، جن میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ اگر تحریک انصاف فریق نہیں تھی تو اسے ریلیف کیسے دیا گیا؟
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا، سپریم کورٹ کے سامنے تو صرف انٹرا پارٹی انتخابات کا مقدمہ تھا۔ انہوں نے عدالت کے سامنے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے پیراگراف بھی پڑھے۔
فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم نہ کرتے ہوئے تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، اور اسی بنیاد پر تنازع پیدا ہوا۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کو بطور جماعت تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور امیدواروں کو آزاد قرار دیتے ہوئے مختلف نشان جاری کیے گئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ سلمان اکرم راجا نے اسے چیلنج کیا اور معاملہ ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ ایک جماعت نہیں رہی۔
مزید پڑھیں: مخصوص نشستیں کیس: سنی اتحاد کونسل کی 3 متفرق درخواستیں دائر
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بچی ہوئی مخصوص نشستیں دوبارہ انہی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ کمیشن کے ایک رکن نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک آئینی ترمیم نہ ہو، یہ نشستیں خالی رکھی جائیں۔
سنی اتحاد کونسل نے یہ فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، جہاں سے معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ وکیل کے مطابق 13 جنوری 2024 انتخابی نشان الاٹ کرنے کی آخری تاریخ تھی اور اسی روز سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن کا مقدمہ زیر سماعت تھا، جو رات گئے تک جاری رہا۔
فیصل صدیقی کے مطابق تحریک انصاف نے پی ٹی آئی نظریاتی سے ایک نام نہاد سیٹلمنٹ کی، لیکن نظریاتی کے سربراہ نے ٹی وی پر آ کر اس کی تردید کر دی۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ
عدالت کو بتایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے مخصوص نشستوں کے لیے درخواستیں دائر کیں، جن میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو یہ نشستیں نہ دی جائیں، بلکہ ہمیں دی جائیں، حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نشستیں مل چکی تھیں۔
فیصل صدیقی کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر 78 سیٹوں کا تنازع ہے، اور اگر یہ نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی، جو متنازعہ تصور ہوگی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے دوران سماعت سوال کیا ’آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں یا پی ٹی آئی کے؟ کیا آپ کو پی ٹی آئی نے اتھارٹی دے رکھی ہے کہ ان کی طرف سے بولیں؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے وکیل نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو آسانی سے مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، شیر افضل مروت
فیصل صدیقی نے آرٹیکل 63 اے سمیت دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ نظرثانی کی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ نظرثانی صرف ایسی صورت میں ممکن ہے جب اصل فیصلے میں واضح غلطی یا قانونی سقم ہو۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، جس میں فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پشاور ہائیکورٹ جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس