یو ایس ایڈ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کا یہ اقدام عوامی مفاد کیخلاف ایک مداخلت ہے، ہم آذربائیجان کی خدمت کے لئے اپنے عزم پر قائم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی سطح پر تعلیم، فلاح و بہبود، تعمیرات، زراعت سمیت مختلف شعبوں میں کام کرنیوالی امریکہ کی سرکاری این جی او یو ایس ایڈ کو آذربائیجان نے ملک میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔ آذربائیجان کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ امریکی مفادات کے لئے سرگرم ہے اور ادارے کی سرگرمیاں آذربائیجان کے مفادات سے ٹکراو رکھتی ہیں۔ آذربائیجان کے حکام کا کہنا ہے کہ ہم نے اس ادارے، اس کے مختلف شعبوں میں جاری منصوبوں اور امریکی امداد سمیت معاہدوں کو ختم کر دیا ہے۔ دوسری جانب یو ایس ایڈ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کا یہ اقدام عوامی مفاد کیخلاف ایک مداخلت ہے۔ یو ایس ایڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم آذربائیجان کی خدمت کے لئے اپنے عزم پر قائم ہیں۔

مختلف ممالک میں کام کرنیوالی امریکی سرکاری ایجنسی یو ایس ایڈ کا کہنا ہے کہ ہم تین دہائیوں سے آذربائیجان کے عوام کے لئے صحت اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور خطے میں ترقی اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ واضح رہے یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا جب قرہ باغ پر آذربائیجان نے 2023 کے آخر میں ملکی سلامتی اور بقا کے لئے ایک روزہ آپریشن کیا۔ اس آپریشن کے حوالے سے ردعمل میں یو ایس ایڈ نے موقف اپنایا کہ اس کی وجہ سے ایک لاکھ افراد آرمینیائی پاشندوں کو گھر چھوڑ کر آرمینیا جانا پڑا تھا۔

اسی طرح اس وقت امریکی وزارت خارجہ نے آذربائیجان کے حکام کی جانب سے یو ایس ایڈ کے منصوبوں میں شفافیت نہ ہونیکے الزام میں اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، یو ایس ایڈ کے تمام تر منصوبے عوامی مفاد میں ہیں اور کسی منصوبے میں بدعنوانی سے کام نہیں لیا گیا، نہ ہی غبن یا رشوت ستانی کے الزامات درست ہیں، یو ایس ایڈ دنیا میں ترقی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے سرگرم عمل ہے تاکہ دنیا میں آزادی اور امن و استحکام کو رائج کیا جا سکے۔ ان حالات میں آذربائیجان اور امریکہ کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، امریکہ کو آذربائیجان میں شہری اور صحافتی ازادیوں پر بھی تشویش ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ا ذربائیجان کے کی جانب سے کے لئے

پڑھیں:

دھمکی نہیں دلیل

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی

امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون  شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔

یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک  ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو  یقینی بنایا جا سکتا  ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔

سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔

وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے  اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا  کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی  پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔

"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شامی صدراحمد الشرع سے رکن کانگریس کوری ملز کی ملاقات، اسرائیل کیساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق
  • کے پی حکومت کا سولرائزیشن منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ
  • جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا غزہ میں فوری امداد کی فراہمی شروع کرنے کا مطالبہ
  • بیک وقت پنشن اورتنخواہ لینے پر پابندی عائد
  • چین دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے، چینی صدر
  • کیا پاکستان میں یکم مئی عام تعطیل کا دن ہوگا؟
  • عفت عمر نے پنجاب حکومت کی جانب سے دیا گیا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی
  • دودھ کی قیمت مقرر کرنے کا کیس: سندھ حکومت کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے پر عدالت برہم
  • دھمکی نہیں دلیل
  • سرکاری عہدہ رکھنے والوں اور غیر فعال کارکنان کو پارٹی میں شامل نہ کرنیکی ہدایات