UrduPoint:
2025-09-17@21:47:26 GMT

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی مذمت

اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دھمکیوں کی مذمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا، ''گزشتہ چند ماہ کے دوران، ایچ آر سی پی کو، غیر قانونی اور غیر منصفانہ اقدامات کے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے تنظیم کی اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔‘‘

گروپ نے جنوبی ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کی وکالت کے لیے بڑھتی مشکلات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان میں بنیادی حقوق کی عدم موجودگی

خیبر پختونخوا میں قانون کی عملداری کمزور، ایچ آر سی پی

گروپ کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حکام ہمیں ایونٹس منعقد کرنے سے روک رہے ہیں اور خلل ڈالتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے ایچ آر سی پی کے لاہور دفتر کو سیل کر دیا ہے، تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہمارے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں اور اضافی بل جاری کرتے ہوئے ہمارے بجلی کے میٹر بند کر دیے ہیں۔

‘‘

ایچ آر سی پی کی بنیاد 1987ء میں رکھی گئی تھی، جو پاکستان کی معروف انسانی حقوق کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے ملک کے اندر اور عالمی سطح پر شہری آزادیوں کے لیے مسلسل آزاد اور قابل اعتماد طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔

ایچ آر سی پی کے ایونٹس میں رکاوٹ

اس تنظیم کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی اس کی تقریبات میں رکاوٹ ڈالی گئی اور عملے کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں جن میں انہیں حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بات کرنے کے خلاف متنبہ کیا گیا تھا۔

حارث خلیق کے مطابق، ''ہم ریاست کی آنکھیں اور کان ہیں۔ ہم تشدد اور عسکریت پسندی دونوں کے خلاف ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے افراد اور وزارت داخلہ کے اہلکاروں کے طور پر شناخت کرنے والے افراد ہماری خواتین عملے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘‘

پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور، طلال چوہدری نے ایچ آر سی پی کی جانب سے ہراساں کیے جانے اور دباؤ کے الزامات کی تردید کی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایونٹس کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار موجود ہے اور ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ ہم نے اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔‘‘

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آن لائن تقریبات بھی بغیر کسی پابندی کے منعقد کی جارہی ہیں اور ریاست ان پر پابندی نہیں لگا رہی ہے۔

ایچ آر سی پی کی بانی رکن اور کونسل کی موجودہ رکن حنا جیلانی کہتی ہیں، ''حکومت گروپ کی سرگرمیوں کو خاموش کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے ایونٹس میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے اور ایسے قوانین متعارف کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو ہمارے مالیاتی معاملات کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے کام کرنے کی ہماری صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

‘‘

اس سال ایچ آر سی پی کا ہدف گلگت بلتستان میں قدرتی وسائل پر مقامی برادریوں کے حقوق پر مشاورت کرنا اور اسلام آباد میں ایک گول میز ایونٹ کی میزبانی کرنا ہے جس میں شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جانا ہے۔

تاہم، حکام نے انتظامی رکاوٹیں عائد کر کے ان ایونٹس کو روکنے کے لیے مداخلت کی، جس کے نتیجے یہ منعقد نہ ہو سکے۔

اسلام آباد اور گلگت دونوں شہروں میں جن ہوٹلوں میں ان ایونٹس کو منعقد کیا جانا تھا ان کے لیے مقامی انتظامیہ کی جانب سے این او سی کی ضرورت لاگو کر دی ہے۔

ایچ آر سی پی مالی شفافیت کی حمایت کرتا ہے، حنا جیلانی نے تشویش کا اظہار کیا کہ ''ان اقدامات سے ایچ آر سی پی کی خود مختاری کو خطرہ ہے اور یہ چیز پاکستان کے عوام کے انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

‘‘ مسائل کے حل کی امید

تاہم، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق ریاست کے ساتھ مسائل کو جلد حل کرنے کے بارے میں پراُمید ہیں، اور وہ لوگوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس گروپ کے عزم کو اہم قرار دیتے ہیں۔

ریاستی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے، ''ہم اہم دوست ہیں، مخالف نہیں اور ہم ایک صحت مند معاشرے اور ایک مضبوط ملک کے خواہاں ہیں۔

‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ''ہم ایک آزاد تنظیم ہیں جو غیر جانبدار اور شواہد کی بنیاد پر کام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہماری رپورٹس کا حوالہ دفتر خارجہ کی جانب سے دیا گیا ہے لیکن ہم اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘‘

خلیق کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے باوجود وہ اپنا کام جاری رکھیں گے اور پاکستان کے عوام کے حقوق کی وکالت کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال اب بھی پریشان کن ہے، جس میں انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیاں، ادارہ جاتی استثنیٰ اور کم ہوتی ہوئی شہری آزادیاں شامل ہیں۔ سیاست میں فوج کا اثر و رسوخ، ناکافی عدالتی تحفظ اور بڑھتی ہوئی آمریت اس بحران کے اہم عوامل ہیں۔

جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، خاص طور پر بلوچستان میں، جہاں مہرنگ بلوچ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف وکالت کرنے والے دیگر کارکنوں کو ہراسانی، حراست اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

32 سالہ مہرنگ بلوچ کو رواں برس مارچ میں دہشت گردی، قتل اور بغاوت کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان مکمل طور پر آمرانہ حکومت بن چکا ہے، کوئی عدالتیں نہیں ہیں، میڈیا نہیں ہے، انہوں نے بارز کو توڑا ہے اور سول سوسائٹی کو توڑا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال افسوسناک ہے اور ہم اصل میں ایک مارشل لاء میں رہ رہے ہیں۔

‘‘

حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو دبانے کے لیے قانونی اقدامات کو سخت کیا ہے، خاص طور پر نو مئی 2023ء کو ہونے والے مظاہروں کے بعد عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنماؤں اور حامیوں کو قید کیا گیا، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، یا پھر سیاست چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

سکیورٹی فورسز بلوچ علیحدگی پسندوں، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف طویل عرصے سے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔

علیحدگی پسند جو حکام اور غیر ملکی سرمایہ کاروں بشمول چین کے سرمایہ کاروں پر خطے کا استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

سینکڑوں بلوچ کارکنوں نے، جن میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں، اسلام آباد اور بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی کا الزام عائد کیا ہے جس کی حکومت تردید کرتی ہے۔

اسلام آباد نے بھارت اور افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے ان عسکریت پسندوں کی مدد کر رہے ہیں۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں انسانی حقوق کی ایچ آر سی پی کی پاکستان میں پاکستان کے اسلام آباد کی جانب سے انہوں نے کرنے کی کے خلاف رہے ہیں ہیں اور کے لیے ہے اور کیا ہے

پڑھیں:

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-01-19
جنیوا(مانیٹرنگ ڈیسک+صباح نیوز)اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک نے قطر پر حملہ کرنے پر اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ کردیا۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے انسانی حقوق کونسل میں اس حملے پر ہونے والی ہنگامی بحث کے دوران کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی ایک چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی۔انہوں نے اس حملے کو علاقائی امن اور استحکام پر حملہ قرار دیتے ہوئے غیر قانونی اموات پر احتساب کا مطالبہ کیا۔قطر اور درجنوں ممالک کے نمائندوں نے تین گھنٹے طویل بحث میں فولکر ترک کے مؤقف کی تائید کی۔قطری وزیر برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی بن ناصر المیسنَد نے اسرائیل کے غدارانہ حملے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ عالمی برادری عملی اقدامات کرے تاکہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور انہیں استثنا نہ ملے۔انہوں نے کہا کہ یہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں کو روکنے کی ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔پاکستانی سفیر بلال احمد نے خبردار کیا کہ یہ بلاجواز اور اشتعال انگیز حملہ صورتحال میں خطرناک بگاڑ پیدا کرے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کا اجلاس پاکستان اور کویت کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جو رواں سال کے آغاز ہی میں انسانی حقوق کونسل سے علیحدہ ہوگئے تھے لیکن جنیوا میں اسرائیلی سفیر ڈینیئل میرون نے اس اجلاس کو سائیڈ لائن سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ’یہ انسانی حقوق کونسل کی جاری زیادتیوں کا ایک اور شرمناک باب ہے۔انہوں نے کونسل پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے اور زمینی حقائق اور حماس کی بربریت کو نظر انداز کر رہی ہے۔یورپی یونین کی سفیر ڈائیکے پوٹزل نے یورپ کے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اصولی مؤقف‘ پر زور دیا اور ساتھ ہی قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعادہ کیا اور اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو ثالثی کے چینلز اور علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چین کے سفیر چن ڑو نے کہا کہ ان کا ملک 9 ستمبر کے حملے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی دانستہ کوشش‘ تھی۔سب سے سخت تنقید جنوبی افریقا کی جانب سے سامنے آئی، جس نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔جنوبی افریقا کے سفیر مکزولسی نکوسی نے کہا کہ یہ حملہ ’ ثالثی کے عمل کی بنیاد پر وار‘ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ ختم نہیں کرنا چاہتا۔انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری عملی اقدامات کے ذریعے یہ واضح کرے کہ اسرائیل کو احتساب سے کسی خاص استثنا کا فائدہ حاصل نہیں ہے۔اجلاس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے،غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت ہولناک ہے، غزہ میں جاری صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی اعتبار سے کسی طور قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے قطر کی جانب سے ثالثی کی کوششیں انتہائی اہم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں غزہ اور مغربی کنارے کی سنگین صورتحال سے متعلق عالمی فوجداری عدالت کوآگاہ کروںگا۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • سعودی عرب کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قطر حملے پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر انسانی حقوق کونسل کا اجلاس آج طلب
  • دوحہ حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر اقوام متحدہ کی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج جنیوا میں ہوگا
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج