امریکہ کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیلئے تیار ہیں، حماس
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
رپورٹ کے مطابق ابو مرزوق نے امریکی اخبار کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ بات چیت اور ہر چیز پر مفاہمت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس غزہ کی پٹی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سے ملاقات کے لیے تیار ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے تحفظ بھی فراہم کرے گی۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ جماعت امریکہ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے اور ہر چیز پر مفاہمت حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ ابو مرزوق کا یہ بیان نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سامنے آیا ہے۔ یہ انٹرویو مزاحمت اور قابض اسرائیلی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تقریباً 48 گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اخبار نے حماس کے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادگی کے بیانات کو حماس کی جانب سے ایک نادر قدم قرار دیا، جس نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے اور اپنے امیج کو بہتر کرنے کی تحریک کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر بیان کیا۔ رپورٹ کے مطابق ابو مرزوق نے امریکی اخبار کو ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ بات چیت اور ہر چیز پر مفاہمت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس غزہ کی پٹی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سے ملاقات کے لیے تیار ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے تحفظ بھی فراہم کرے گی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کے مکالمے سے واشنگٹن کو فلسطینیوں کے جذبات اور خواہشات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے امریکی موقف زیادہ متوازن ہو سکتا ہے جو صرف ایک فریق کے نہیں بلکہ تمام فریقوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ خیال رہے کہ این بی سی نیوز نے گذشتہ ہفتے کو اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیون وٹ کوف جنگ بندی کے معاہدے کو برقرار رکھنے میں مدد کے لیے غزہ کا دورہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اسرائیلی چینل 12 نے بھی آج منگل کو وٹکوف کے حوالے سے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صدر کی انتظامیہ جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسے درست طریقے سے نافذ کیا جائے گا۔ ابو مرزوق نے امریکی صدر کی پیر کو حلف برداری کو ایک ''سنجیدہ صدر'' قرار دیا کیونکہ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں ان کا کردار فیصلہ کن تھا۔ انہوں نے وٹ کوف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اور جنگ کے خاتمے اور فیصلہ کن نمائندہ بھیجنے پر ان کے اصرار کے بغیر معاہدہ طے نہیں پا سکتا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے معاہدے کے لیے تیار انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر میں جنگ بندی مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مشرقِ وسطیٰ میں جاری شدید کشیدگی کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والی سفارتی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تعطل کا شکار ہو گئیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی سے متعلق ہونے والے مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے اس سفارتی عمل کو امن کی جانب ایک پیش رفت سمجھا جا رہا تھا، لیکن ابتدائی دور کی ناکامی نے امریکا کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
فلسطینی سفارتی ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس مطابق اسرائیلی وفد اگرچہ بات چیت میں شریک ہوا، تاہم اس وفد کو کسی بھی قسم کے معاہدے پر دستخط یا فیصلہ کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اس بات نے فلسطینی فریقین اور ثالث ممالک میں مایوسی کو جنم دیا۔ اسرائیلی وفد کی محدود حیثیت نے مذاکرات کو رسمی سطح سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔
یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کچھ ہی دن قبل حماس نے قطر اور امریکا کی طرف سے پیش کیے گئے ایک نئے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر مثبت ردعمل دیا تھا۔ اس ردعمل کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ دونوں فریق کسی ممکنہ معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے جاری بیانات نے بھی فضا کو کشیدہ رکھا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حماس کے حالیہ مطالبات اسرائیل کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں، تاہم اسرائیل نے قطر مذاکرات میں شرکت کے لیے ایک اعلیٰ سطح وفد بھیجا، مگر اسے فیصلہ کن اختیارات نہ دینا اس بات کا عندیہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فی الحال کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اس تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کے لیے تیار ہو چکا ہے اور قیدیوں کی رہائی کے امکانات بھی روشن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ رواں ہفتے کے دوران حماس سے ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
قطر مذاکرات کی ابتدائی ناکامی نے امریکی دعوؤں کو ایک مرتبہ پھر مشکوک بنا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل سنجیدہ اور مکمل اختیارات کے حامل وفود کے ساتھ مذاکرات میں شریک نہیں ہوتا، تب تک اس عمل سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونا ممکن نہیں۔
دوحہ میں موجود سفارتی ذرائع کے مطابق آئندہ چند روز میں مذاکرات کا دوسرا دور متوقع ہے، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل اپنے موقف میں لچک دکھاتا ہے یا نہیں۔ اگر فریقین اس تعطل کو توڑنے میں ناکام رہے تو خطے میں جاری انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔