برطانیوی استعمار ،بر صغیر سے640کھرب ڈالر سے زائد دولت لوٹی گئی، اکسفیم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
نیروبی (انٹرنیشنل ڈیسک) برصغیر میں برطانوی استعمار کے دوران لوٹی گئی دولت کے ہوش ربا اعدادوشمار سامنے آگئے۔ برطانیہ لگ بھگ 2صدیوں تک برصغیر پر قابض رہا اوراس دوران اس نے 64ہزار 820ارب ڈالر مالیت کا خزانہ لوٹ کر اپنے ملک منتقل کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں برصغیر پر قبضہ کرنے والے برطانیہ نے 1757 ء میں قبضہ کیا جو 190 برس تک جاری رہا اور اس کا خاتمہ اگست 1947 ء میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے ساتھ ختم ہوا۔ برطانوی دور عدم مساوات، ظلم وجبر کی داستانوں اور برصغیر کی دولت پر قابض ہونے اور اسے لوٹنے سے بھرا پڑا ہے۔ آکسفیم انٹرنیشنل نے 1765ء سے 1900 ء کے درمیان برطانوی استعمار کی جانب سے لوٹی گئی دولت سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے اس دوران 640 کھرب ڈالر سے زائد دولت لوٹی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ لوٹی گئی رقم میں سے نصف سے زائد برطانیہ کے سب سے امیر 10 فیصد لوگوں کے پاس گئے جب کہ اس لوٹ مار سے اس دور کے نئے ابھرتے ہوئے متوسط طبقے نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آکسفیم انٹرنیشنل کے مطابق تاریخی استعماری دور کے دوران ذات، مذہب، جنس، زبان اور جغرافیہ سمیت کئی دیگر تقسیموں کو پھیلایا گیا اور استیصال کیا گیا۔تاریخی استعماری دور میں پائی جانے والی عدم مساوات اور لوٹ مار نے ایک انتہائی غیر مساوی دنیا بنائی ۔ آکسفیم انٹرنیشنل کے مطابق اگر لندن کو 50 برطانوی پاؤنڈ کے نوٹوں سے ڈھکا جائے تو لوٹی گئی دولت کا قالین لندن کے رقبے سے 4گنا بڑا ہوگا۔ واضح رہے کہ آکسفیم کی یہ رپورٹ ورلڈ اکنامک فارم (ڈبلیو ای ایف) کے سالانہ اجلاس سے قبل ’ٹیکرس ناٹ میکرس‘ کے عنوان سے جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں کئی مطالعوں اور تحقیقی مقالوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جدید ملٹی نیشنل کارپوریشن صرف استعمار کا نتیجہ ہیں۔دوسری جانب ڈیووس فورم کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ارب پتی افراد کی دولت میں 3گنا اضافہ ہوگیاہے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا کسفیم
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔