سعودی عرب کا شام میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
دمشق کے دورے پر آئے ہوئے ایک سعودی وفد نے شام میں تعمیر نو اور ترقی کے لیے 5 ارب ڈالر مالیت کے سرمایہ کاری اور شراکتی معاہدوں کا اعلان کیا ہے،
تقریباً 150 افراد پر مشتمل اس وفد میں سعودی عرب کے سرکاری و نجی شعبوں کے نمائندے شامل تھے، جن کی قیادت سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح کر رہے تھے، جنہوں نے دمشق میں ایک اقتصادی فورم میں شرکت بھی کی۔
سعودی وزارت سرمایہ کاری کے مطابق یہ فورم دونوں برادر ممالک کے عوام کے مفاد میں پائیدار ترقی کے لیے تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور معاہدوں پر دستخط کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی شامی عوام کے لیے حمایت اور عالمی برادری سے یکجہتی کی اپیل
سعودی وزارت کے اعلامیے کے مطابق، تقریباً 5 ارب ڈالر کی اعلان کردہ سرمایہ کاری میں ریئل اسٹیٹ، بنیادی ڈھانچہ، مواصلات و آئی ٹی، ٹرانسپورٹ، صنعت، سیاحت، توانائی، تجارت اہم اور اسٹریٹجک شعبے شامل ہیں۔
یہ دورہ شام کی اقتصادی بحالی اور تعمیر نو میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور حمایت کو ظاہر کرتا ہے، دورے کے دوران وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح اور شام کے وزیرِ معیشت محمد نضال الشعار نے عدرا انڈسٹریل سٹی میں فیحا وائٹ سیمنٹ فیکٹری کا افتتاح کیا، جو شام میں اپنی نوعیت کی پہلی فیکٹری ہے۔
یہ فیکٹری سعودی نارتھ ریجن سیمنٹ کمپنی کی 2 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری سے قائم کی گئی ہے اور اس سے براہِ راست 130 جبکہ بالواسطہ 1,000 سے زائد افراد کو روزگار ملے گا۔ کمپنی کے سی ای او عبید الصبیعی کے مطابق یہ منصوبہ شام کی تعمیر نو اور علاقائی سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے کے سعودی عزم کا عکاس ہے۔
مزید پڑھیں:سعودی عرب اور قطر نے شام کے ذمہ قرض ورلڈ بینک کو ادا کردیا
اس کے علاوہ، سعودی عرب دمشق کے مرکز میں 32 منزلہ الجوہرہ ٹاور کی تعمیر بھی کرے گا، جس پر 10 کروڑ ڈالر سے زائد لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ سعودی عرب کی شام میں سب سے بڑی سرمایہ کاریوں میں سے ایک ہو گا۔
اپریل میں سعودی عرب اور قطر نے شام کے عالمی بینک کے 15 ملین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کے لیے مشترکہ اقدام کا اعلان کیا تھا، گزشتہ ماہ وزیر خالد الفالح نے شامی وزیر معیشت سے ورچوئل ملاقات بھی کی، جس میں عوامی و نجی شعبوں میں باہمی تعاون کے امکانات پر گفتگو ہوئی۔
شامی حکومت نے اس مہینے ملک کے سرمایہ کاری قانون میں ترمیم کی ہے، جس سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملنے کی توقع ہے، گزشتہ ہفتے سعودی وفد کی آمد پر شامی وزیر معیشت نے کہا کہ نیا قانون سرمایہ کاری کے لیے موزوں قانونی ماحول فراہم کرتا ہے اور نجی شعبے کے کردار کو مزید وسعت دے گا۔
سعودی-شامی تجارتی تعلقات میں تیزیسعودی جنرل اتھارٹی برائے شماریات کے مطابق اپریل میں شام سعودی عرب کی 53ویں سب سے بڑی برآمدی منزل تھا، جہاں سعودی نان آئل برآمدات میں سال بہ سال 153.
درآمدات کے لحاظ سے شام سعودی عرب کے 60ویں تجارتی پارٹنر کے طور پر سامنے آیا، جہاں سے درآمدات 78.5 ملین سعودی ریال تک پہنچیں، جس میں 149.7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ان میں زیادہ تر زرعی مصنوعات، خوردنی تیل، اور تیار شدہ خوراک شامل ہیں۔
یہ تجارتی پیش رفت دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی کے بعد ممکن ہوئی ہے، مئی 2024 میں سعودی عرب نے 12 سال بعد دمشق میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولا۔
مزید پڑھیں:سعودی ولی عہد کا شام میں کشیدگی پر قابو پانے کے اقدامات کا خیرمقدم
واضح رہے کہ شام میں تیل کی برآمدات 2011 میں خانہ جنگی اور پابندیوں کے بعد تقریباً ختم ہو چکی ہیں، اور ملک اب ایران جیسے اتحادیوں پر انحصار کرتا ہے، تجارتی حجم میں حالیہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب سیاسی عزم شامل ہو تو اقتصادی تعلقات کس قدر تیزی سے بحال ہو سکتے ہیں۔
2010 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 1.3 ارب ڈالر تک پہنچا تھا۔ شام نے اس وقت سعودی عرب کو 543 ملین ڈالر کی اشیا برآمد کیں، جن میں پھل، سبزیاں، ٹیکسٹائل، اور فرنیچر شامل تھے، جبکہ سعودی عرب سے تیل کی مصنوعات، پیٹروکیمیکلز، کھجوریں اور نباتاتی تیل برآمد کیے جاتے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برآمدات تجارتی پارٹنر تجارتی حجم تعمیر نو تیل خالد الفالح خوردنی تیل ریئل اسٹیٹ زرعی اجناس زرعی مصنوعات سعودی عرب شام مواصلاتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برا مدات تجارتی پارٹنر تجارتی حجم تیل خوردنی تیل ریئل اسٹیٹ زرعی مصنوعات مواصلات سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے مطابق ارب ڈالر ڈالر کی کرتا ہے کے لیے
پڑھیں:
اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی نے جہاں دنیا کو نئی ٹیکنالوجی کے امکانات دکھائے ہیں، وہیں اس کے ممکنہ خطرات نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سمیت کئی ارب پتی شخصیات اب ایسی جائیدادیں خریدنے میں مصروف ہیں جن میں ہنگامی حالات کے دوران پناہ لینے کے لیے زیرِ زمین بنکرز یا محفوظ کمپاؤنڈز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق زکربرگ امریکی ریاست ہوائی میں اپنے 1400 ایکڑ رقبے پر مشتمل کمپاؤنڈ کی تعمیر کر رہے ہیں جس میں ایک ایسی پناہ گاہ بھی شامل ہے جو خوراک اور بجلی کے نظام کے لحاظ سے مکمل خودکفیل ہوگی۔ کمپاؤنڈ کے گرد 6 فٹ اونچی دیوار کھڑی کی گئی ہے اور مقامی رہائشی اس منصوبے کو زکربرگ بنکر کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زکربرگ نے کیلیفورنیا میں بھی مزید 11 جائیدادیں خریدی ہیں جن میں 7000 مربع فٹ زیرِ زمین جگہ بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ دیگر ٹیکنالوجی مالکان جیسے لنکڈ اِن کے شریک بانی ریڈ ہیفمن بھی نیوزی لینڈ میں ایک ایسا گھر بنانے کی تیاری کر چکے ہیں جسے عالمی تباہی کی صورت میں محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس بڑھتے ہوئے خوف کی علامت ہیں کہ کہیں مصنوعی ذہانت، ماحولیاتی تبدیلی یا عالمی تنازعات کسی بڑی تباہی کا سبب نہ بن جائیں۔ کچھ ماہرین نے تو اسے ڈیجیٹل دور کی نئی بقا کی دوڑ قرار دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش اس وقت پیدا ہوئی جب اوپن اے آئی کے چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا کہ کمپنی آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (AGI) کی تخلیق کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ یعنی وہ مرحلہ جب مشین انسانی ذہانت کے مساوی یا اس سے آگے جا سکتی ہے۔ کمپنی کو چاہیے کہ اے جی آئی کی ریلیز سے پہلے ہی اہم افراد کے لیے زیرِ زمین پناہ گاہیں تیار کر لے۔
اسی خدشے کا اظہار اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اے جی آئی کی آمد لوگوں کے اندازوں سے کہیں پہلے ممکن ہے، شاید 2026 تک۔
دوسری جانب بعض ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی اگلے 5 سے 10 سال میں دنیا کے معاشی، سائنسی اور سماجی ڈھانچے کو مکمل طور پر بدل سکتی ہے۔