چین،2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کا شنگھائی میں آغاز
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
چین،2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کا شنگھائی میں آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 26 July, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کے شہر شنگھائی میں “ذہین دور میں مل کر کام کرنا” کے تھیم پر مبنی 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کا آغاز ہوا ۔ اس کانفرنس میں پہلی بار “تعلیمی کامیابیوں، سافٹ اینڈ ہارڈ اسکلز کے امتزاج اور عالمی حکمرانی” کی تین بنیادی پہلووں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ 800 سے زائد کاروباری ادارے اس کانفرنس میں شریک ہیں اور 3ہزارسے زائد جدید مصنوعات اور “ورلڈ پریمیئر” اور “چینی پریمیئر ” کی 100 سے زائد نئی مصنوعات کی نمائش بھی کی جا رہی ہے،
جو اب تک کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔ گزشتہ سال کی نمائش میں صرف 18 روبوٹ کمپنیوں نے حصہ لیا تھا لیکن اس سال 80 سے زائد ہیومن ائیڈ روبورٹ کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے 1200 سے زائد نمایاں شخصیات شرکت کر رہی ہیں، جن میں 12 ٹورنگ ایوارڈ اور نوبل انعام یافتہ افراد بھی شامل ہیں ، اس طرح اس کانفرنس کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے تعلیمی بحث و مباحثے کو ایک نئی بلندی تک پہنچایا جا رہا ہے۔
موجودہ کانفرنس کے دوران متعدد فورمز اور ایکسچینج میٹنگز بھی منعقد ہوں گی، اور 30 سے زائد ممالک اور خطوں کے 1200 سے زائد مہمانوں کی جانب سے تبادلہ خیال کر کے عالمی مصنوعی ذہانت کی ترقی کا خاکہ تیار کیا جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیرِاعظم کی ایف بی آر کے لیے جدید ڈیجیٹل ایکو سسٹم تشکیل دینے کی منظوری ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا چینی صدر نے چین میں 16 نئے غیر ملکی سفیروں سے سفارتی اسناد وصول کیں دنیا امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے نو چینی شہروں کو بین الاقوامی ویٹ لینڈ سٹی کا درجہ بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام شدید متاثر ہے، چینی وزیراعظم
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عالمی مصنوعی ذہانت
پڑھیں:
امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ اے آئی سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اے آئی (مصنوعی ذہانت) کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، امریکا نے اے آئی ٹیکنالوجی میں چین کو شکست دینے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور ہم اس دوڑ میں کامیابی حاصل کریں گے۔
اپنے خطاب میں انہں نے عالمی اقتصادی، تجارتی، اور توانائی کے میدان میں امریکا کی کامیابیوں اور آئندہ کے منصوبوں کا تفصیل سے ذکر کیا جس میں مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات، توانائی کے شعبے میں معاہدے، اور امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے اہم اعلانات شامل تھے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ جاپان کے ساتھ امریکا نے 15 فیصد تجارتی ٹیرف پر معاہدہ کیا ہے، جاپان نے مذاکرات کے ذریعے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے اور ٹیرف کو 15 فیصد پر لے آئیں گے۔
ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد کے درمیان ٹیرف عائد کریں گے تاکہ امریکا کی اقتصادی پوزیشن مزید مستحکم ہو۔
ٹرمپ نے یورپی یونین کے ساتھ بھی سنجیدہ مذاکرات جاری رکھنے کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکا یورپی اتحادیوں کے ساتھ فوجی سازوسامان کی خریداری کے معاہدے مکمل کر چکا ہے۔
ٹرمپ نے چین کے ساتھ معاہدے کے تکمیل کے قریب ہونے کی خبر بھی دی اور کہا کہ چین کے ساتھ ہمارا معاہدہ مکمل کرنے کے مراحل میں ہے، اور ہم اپنی معیشت کو مزید مستحکم بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
امریکی صدر نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ امریکا عالمی توانائی منڈی میں مزید اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے ذخائر موجود ہیں، اور ہم ایشیائی ممالک کے ساتھ توانائی کے معاہدے کرنے جا رہے ہیں، ہم تیل کی قیمتوں کو مزید نیچے لانا چاہتے ہیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں استحکام آئے۔
صدر ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گرین انرجی کے نام پر امریکا کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے، بائیڈن دور کے احمقانہ صدارتی حکمنامے کو میں معطل کر رہا ہوں تاکہ امریکا کی معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔
ٹرمپ نے نیٹو اور امریکی اتحادیوں کے درمیان ایک اور اہم ڈیل پر زور دیا اور کہا کہ یورپی اتحادی امریکی فوجی سازوسامان کی 100 فیصد ادائیگی کریں گے تاکہ یوکرین کو جدید ہتھیار فراہم کیے جا سکیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکا میں کاروبار کرنے والے ممالک پر ٹیرف کم کریں گے تاکہ تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے اور عالمی منڈی میں امریکا کی پوزیشن مزید مضبوط ہو۔