Daily Ausaf:
2025-11-05@01:51:49 GMT

اجتماعی شادیوں کی یادگار اور باوقار تقریب

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

دھی رانی پروگرام پنجاب حکومت کا ایک اہم اور منفرد منصوبہ ہے جو غریب اور کم وسائل والے خاندانوں کی بچیوں کی شادی کے سلسلے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔اس پروگرام کا مقصد معاشرتی مسائل کو حل کرنا اور کمزور طبقات کو معاشی طور پر مدد فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی زندگیوں میں خوشیاں لائی جا سکیں اور وہ شادی جیسے اہم موقع پر مالی مشکلات کا سامنا نہ کریں۔ اس پروگرام کا آغاز وزیر اعلی ٰ پنجاب کی سرپرستی چکوال کی ترقی کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے بلکہ غریب خاندانوں کی مدد کے لئے اجتماعی شادیوں جیسے اہم اقدام کو بھی فروغ دیا۔ یہ اقدام چکوال کے لوگوں کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہوا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو معاشی مسائل کی وجہ سے شادیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس طرح کی اجتماعی شادیاں نہ صرف مالی بوجھ کو کم کرتی ہیں بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ اجتماعی شادیوں کا مقصد کم وسائل والے خاندانوں کو مدد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی شادی کی رسومات باآسانی ادا کر سکیں۔ پاکستان میں شادیوں کی رسومات ایک مہنگی اور پیچیدہ عمل بن چکی ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں غربت اور معاشی دشواریاں زیادہ ہیں۔ اس میں مختلف قسم کے اخراجات شامل ہوتے ہیں جن میں جہیز، دعوت، ملبوسات وغیرہ۔اجتماعی شادیاں ان مسائل کا ایک بہت بڑا حل فراہم کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے، مختلف خاندان مل کر ایک ہی دن اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں، جس سے اخراجات کو بانٹ لیا جاتا ہے۔ یہ عمل سماجی یکجہتی کو بھی فروغ دیتا ہے کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشی کے اس موقع کو مناتے ہیں۔اس کے علاوہ، اجتماعی شادیاں ان افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں جو معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں اور اپنے بچوں کی شادی کے لیے درکار وسائل نہیں مل پاتے۔ اس طرح کے اقدامات سے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو بھی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں آتی ہیں۔اس پروگرام کے تحت بچیوں کو نہ صرف شادی کے لئے مالی امداد فراہم کی گئی بلکہ گھریلو استعمال کی 13 مختلف اشیاء اور اس کے علاوہ ہر دلہن کو ایک لاکھ روپیہ سلامی کے طور پر بھی دیا گیا۔
دھی رانی پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں کا یہ سلسلہ صرف چکوال تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پورے پنجاب میں چلایا جا رہا ہے۔پنجاب حکومت نے اس پروگرام کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے ہیں تاکہ معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اس پروگرام کی کامیابی میں چکوال کی مقامی انتظامیہ اور خصوصاً ڈپٹی کمشنر قرۃالعین ملک کا کردار بہت اہم ہے۔ان کی سرپرستی میں یہ پروگرام نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس نے چکوال کے عوام کے درمیان ایک نئی امید پیدا کی۔ ان کی کاوشوں کا مقصد نہ صرف چکوال کے غریب طبقے کی مدد کرنا ہے بلکہ سماجی ترقی اور ہم آہنگی کو بھی فروغ دینا ہے۔ ان کا یہ اقدام اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اپنے علاقے کے عوام کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے عملی طور پر سرگرم رہتی ہیں۔انہوں نے چکوال میں تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو جدید تعلیم فراہم کرنے کے لیے مختلف پروگرامز شروع کئے۔خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بھی مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ صرف معاشی فلاح نہیں بلکہ معاشرتی ترقی بھی ضروری ہے تا کہ ایک حقیقی تبدیلی آسکے۔ خواتین کو خودمختار بنانے کے لئے مختلف ہنرمند پروگرامز شروع کئے گئے ہیں ۔مختلف ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز منعقد کئے گئے ہیں تاکہ وہ مختلف قسم کی مہارتیں حاصل کر کے خودمختاری کی جانب قدم بڑھا سکیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر کی اور عوام کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے صحت کے مراکز میں جدید آلات اور ماہر ڈاکٹرز کی تعیناتی کی۔ عوامی صحت کی آگاہی کے پروگرامز بھی شروع کئے تاکہ لوگ صحت کے حوالے سے معلومات حاصل کر سکیں۔
ڈپٹی کمشنر قرۃالعین ملک نے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے جو کاوشیں کی ہیں وہ نہ صرف ان کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان کے عزم و حوصلے کی بھی غمازی کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنی جرأت مندانہ قیادت اور سماجی فلاح کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے ذریعے ایک نیا منظر پیش کیا ہے۔اجتماعی شادیاں، تعلیم کی بہتری، اور خواتین کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ چکوال کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سنجیدہ ہیں۔ان کی محنت نے چکوال کے عوام کے لئے ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ان کے یہ اقدامات نہ صرف چکوال کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں بلکہ پورے پاکستان میں ایسی کاوشوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی مسائل کا حل نکالا جا سکے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ قرۃالعین ملک کی قیادت میں چکوال میں ہونے والی ترقی ایک روشن مستقبل کی علامت ہے۔ان کی اس قسم کی کاوشیں ایک مثال بن چکی ہیں کہ کس طرح حکومتی نمائندے اپنے عوام کی فلاح کے لیے مثبت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کا دروازہ کھل رہا ہے۔ چکوال ضلع میں 31 ایسے جوڑوں کو تلاش کرنا جو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے شادی جیسا اہم فریضہ ادا نہیں کر پا رہے تھے یہ بھی جان جوکھوں کا کام تھا اس مسئلے کا حل نکالنے پر ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر چکوال مبارک باد کی مستحق ہیں۔جن 31 جوڑوں کی اجتماعی شادیاں ہوئیں سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنے والی زندگی میں آسانیاں فرمائے ، سب کی بچیوں کو باعزت شادیوں کا موقع فراہم فرمائے اور ڈپٹی کمشنر چکوال محترمہ قرہ العین ملک کو ہمیشہ ایسے اجتماعی کام کرنے کی ہمت، حوصلہ اور مدد فراہم کرتا رہے، آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اپنے بچوں کی شادی اجتماعی شادیوں اجتماعی شادیاں کو بھی فروغ اس پروگرام ڈپٹی کمشنر شادیوں کا کرتی ہیں ہیں بلکہ کو بہت کے لیے کے لئے

پڑھیں:

تہران کو پانی فراہم کرنیوالے مرکزی ڈیم میں صرف 2 ہفتوں کا پانی باقی رہ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران کے دارالحکومت تہران میں پینے کے پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، کیونکہ شہر کو پانی فراہم کرنے والا مرکزی ذخیرہ خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تہران کے مرکزی ڈیم میں صرف دو ہفتوں کے لیے پانی باقی رہ گیا ہے۔

تہران واٹر کمپنی کے ڈائریکٹر بہزاد پارسا نے بتایا کہ امیر کبیر ڈیم، جو دارالحکومت کو پانی فراہم کرنے والے پانچ بڑے ذخائر میں سے ایک ہے، اس وقت صرف ایک کروڑ 40 لاکھ مکعب میٹر پانی ذخیرہ کیے ہوئے ہے — جو اس کی کل گنجائش کا محض 8 فیصد ہے۔

انہوں نے سرکاری خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر بارش نہ ہوئی تو موجودہ سطح پر ڈیم صرف دو ہفتے تک ہی شہر کو پانی فراہم کر سکے گا۔

تہران، جس کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے، البرز پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ دارالحکومت کے لیے پانی زیادہ تر انہی پہاڑوں کی برف پگھلنے سے حاصل ہوتا ہے، تاہم رواں سال برف باری اور بارشوں میں نمایاں کمی نے صورتحال کو سنگین بنا دیا ہے۔

ایرانی حکام کے مطابق ملک اس وقت شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، جبکہ صوبہ تہران میں گزشتہ سو سال کے دوران بارشوں کی اتنی کم سطح کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی۔

بہزاد پارسا کے مطابق گزشتہ سال اسی ڈیم میں 8 کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر پانی موجود تھا، مگر اس سال بارشوں میں 100 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے دیگر ذخائر کی صورتحال کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

ایرانی میڈیا کے مطابق تہران کے شہری روزانہ تقریباً 30 لاکھ مکعب میٹر پانی استعمال کرتے ہیں، اور پانی کی قلت کے باعث حکام نے مختلف علاقوں میں فراہمی عارضی طور پر معطل کر دی ہے تاکہ بچت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • اجتماعِ عام منظم اور باوقار اجتماعیت کا مظہر ہوگا، شگفتہ ابراہیم
  • چینی بحران یا قیمتیں بڑھنے کی ذمہ دار شوگر انڈسٹری نہیں بلکہ حکومتی اقدامات ہیں ،شوگرملز
  • پنجاب میں شفاف منصوبے اور فلاحی اقدامات جاری ہیں، عظمیٰ بخاری
  • ‘وائلڈ ایٹ ہارٹ’ اور ‘ریمبلنگ روز’ جیسی یادگار فلموں کی اداکارہ ڈایان لیڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں
  • پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ
  • پاکستان میں جگر کے ایک ہزار ٹرانسپلانٹس مکمل کرکے پی کے ایل  آئی نے تاریخ رقم کردی
  • تہران کو پانی فراہم کرنیوالے مرکزی ڈیم میں صرف 2 ہفتوں کا پانی باقی رہ گیا
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پنجاب میں بیٹی دھی رانی پروگرام کے تحت 4857 جوڑوں کی باعزت رخصتی