اجتماعی شادیوں کی یادگار اور باوقار تقریب
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
دھی رانی پروگرام پنجاب حکومت کا ایک اہم اور منفرد منصوبہ ہے جو غریب اور کم وسائل والے خاندانوں کی بچیوں کی شادی کے سلسلے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔اس پروگرام کا مقصد معاشرتی مسائل کو حل کرنا اور کمزور طبقات کو معاشی طور پر مدد فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی زندگیوں میں خوشیاں لائی جا سکیں اور وہ شادی جیسے اہم موقع پر مالی مشکلات کا سامنا نہ کریں۔ اس پروگرام کا آغاز وزیر اعلی ٰ پنجاب کی سرپرستی چکوال کی ترقی کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے بلکہ غریب خاندانوں کی مدد کے لئے اجتماعی شادیوں جیسے اہم اقدام کو بھی فروغ دیا۔ یہ اقدام چکوال کے لوگوں کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہوا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو معاشی مسائل کی وجہ سے شادیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس طرح کی اجتماعی شادیاں نہ صرف مالی بوجھ کو کم کرتی ہیں بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ اجتماعی شادیوں کا مقصد کم وسائل والے خاندانوں کو مدد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی شادی کی رسومات باآسانی ادا کر سکیں۔ پاکستان میں شادیوں کی رسومات ایک مہنگی اور پیچیدہ عمل بن چکی ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں غربت اور معاشی دشواریاں زیادہ ہیں۔ اس میں مختلف قسم کے اخراجات شامل ہوتے ہیں جن میں جہیز، دعوت، ملبوسات وغیرہ۔اجتماعی شادیاں ان مسائل کا ایک بہت بڑا حل فراہم کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے، مختلف خاندان مل کر ایک ہی دن اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں، جس سے اخراجات کو بانٹ لیا جاتا ہے۔ یہ عمل سماجی یکجہتی کو بھی فروغ دیتا ہے کیونکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشی کے اس موقع کو مناتے ہیں۔اس کے علاوہ، اجتماعی شادیاں ان افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں جو معاشی طور پر مستحکم نہیں ہیں اور اپنے بچوں کی شادی کے لیے درکار وسائل نہیں مل پاتے۔ اس طرح کے اقدامات سے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو بھی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں آتی ہیں۔اس پروگرام کے تحت بچیوں کو نہ صرف شادی کے لئے مالی امداد فراہم کی گئی بلکہ گھریلو استعمال کی 13 مختلف اشیاء اور اس کے علاوہ ہر دلہن کو ایک لاکھ روپیہ سلامی کے طور پر بھی دیا گیا۔
 دھی رانی پروگرام کے تحت اجتماعی شادیوں کا یہ سلسلہ صرف چکوال تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پورے پنجاب میں چلایا جا رہا ہے۔پنجاب حکومت نے اس پروگرام کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے ہیں تاکہ معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اس پروگرام کی کامیابی میں چکوال کی مقامی انتظامیہ اور خصوصاً ڈپٹی کمشنر قرۃالعین ملک کا کردار بہت اہم ہے۔ان کی سرپرستی میں یہ پروگرام نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ اس نے چکوال کے عوام کے درمیان ایک نئی امید پیدا کی۔ ان کی کاوشوں کا مقصد نہ صرف چکوال کے غریب طبقے کی مدد کرنا ہے بلکہ سماجی ترقی اور ہم آہنگی کو بھی فروغ دینا ہے۔ ان کا یہ اقدام اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اپنے علاقے کے عوام کے مسائل کو سمجھتی ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے عملی طور پر سرگرم رہتی ہیں۔انہوں نے چکوال میں تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو جدید تعلیم فراہم کرنے کے لیے مختلف پروگرامز شروع کئے۔خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بھی مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ صرف معاشی فلاح نہیں بلکہ معاشرتی ترقی بھی ضروری ہے تا کہ ایک حقیقی تبدیلی آسکے۔ خواتین کو خودمختار بنانے کے لئے مختلف ہنرمند پروگرامز شروع کئے گئے ہیں ۔مختلف ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز منعقد کئے گئے ہیں تاکہ وہ مختلف قسم کی مہارتیں حاصل کر کے خودمختاری کی جانب قدم بڑھا سکیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر کی اور عوام کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے صحت کے مراکز میں جدید آلات اور ماہر ڈاکٹرز کی تعیناتی کی۔ عوامی صحت کی آگاہی کے پروگرامز بھی شروع کئے تاکہ لوگ صحت کے حوالے سے معلومات حاصل کر سکیں۔
 ڈپٹی کمشنر قرۃالعین ملک نے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے جو کاوشیں کی ہیں وہ نہ صرف ان کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان کے عزم و حوصلے کی بھی غمازی کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنی جرأت مندانہ قیادت اور سماجی فلاح کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے ذریعے ایک نیا منظر پیش کیا ہے۔اجتماعی شادیاں، تعلیم کی بہتری، اور خواتین کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ چکوال کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سنجیدہ ہیں۔ان کی محنت نے چکوال کے عوام کے لئے ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ان کے یہ اقدامات نہ صرف چکوال کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں بلکہ پورے پاکستان میں ایسی کاوشوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی مسائل کا حل نکالا جا سکے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ قرۃالعین ملک کی قیادت میں چکوال میں ہونے والی ترقی ایک روشن مستقبل کی علامت ہے۔ان کی اس قسم کی کاوشیں ایک مثال بن چکی ہیں کہ کس طرح حکومتی نمائندے اپنے عوام کی فلاح کے لیے مثبت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کا دروازہ کھل رہا ہے۔ چکوال ضلع میں 31 ایسے جوڑوں کو تلاش کرنا جو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے شادی جیسا اہم فریضہ ادا نہیں کر پا رہے تھے یہ بھی جان جوکھوں کا کام تھا اس مسئلے کا حل نکالنے پر ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر چکوال مبارک باد کی مستحق ہیں۔جن 31 جوڑوں کی اجتماعی شادیاں ہوئیں سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنے والی زندگی میں آسانیاں فرمائے ، سب کی بچیوں کو باعزت شادیوں کا موقع فراہم فرمائے اور ڈپٹی کمشنر چکوال محترمہ قرہ العین ملک کو ہمیشہ ایسے اجتماعی کام کرنے کی ہمت، حوصلہ اور مدد فراہم کرتا رہے، آمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اپنے بچوں کی شادی اجتماعی شادیوں اجتماعی شادیاں کو بھی فروغ اس پروگرام ڈپٹی کمشنر شادیوں کا کرتی ہیں ہیں بلکہ کو بہت کے لیے کے لئے
پڑھیں:
پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-4
محمد مطاہر خان
پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔
وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔